// ببر سنگھ نے قمیض سلوانے کے لیے بازار سے کپڑا خریدا اور درزی کے پاس لے گیا۔ درزی نے کپڑا ناپا اور کہنے لگا کہ”سردار جی تہاڈا چہگاہ نئیں بن سکدا، کپڑا گہٹ ایہہ“۔
ببر سنگھ بہت مایوس ہوا مگر وہ ساتھ والے درزی کے پاس چلا گیا اس درزی نے کپڑا ناپا اور کہنے لگا کہ ”سردار جی گھبرانا نہیں تہاڈی قمیض کھلی ڈھلی بن جائے گی“۔ چند روز بعد درزی نے قمیض سی دی تو ببر سنگھ اسے پہن کر پہلے والے درزی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ”تو تہ کہندا سی کے قمیض نئیں بن سکدی،کپڑا گہٹ ایہہ، دیکھ نال والے درزی نے بنا دتی ایہہ۔“
درزی مسکرایا اور باہر کھیلتے بچے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ ”سردار جی!ذرا ویکھ اس بچے تہاڈے کپڑے دی قمیض تے نئیں پائی؟“
سردار نے دیکھا تو کہنے لگا کہ ”ہاں بالکل اہو جے کپڑے دی قمیض ایہہ،اس دا کی مطلب؟“۔

اس پر درزی نے کہا ک”ایہہ نال آلے درزی دا منڈا ایہہ،ایہدی عمر چھ سال ایہہ،ایس لئی تہاڈی قمیض بن گئی،میرا منڈا بارہ سال دا ہے اس واسطے تہاڈی قمیض نہیں بن سکدی۔
میں کچھ دن قبل فقیر نگر کے باسیوں کو دیکھنے ملنے گیا تو جانے کیوں میں اپنی یا اپنی منڈے دی قمیض تلاش کرتا رہا لیکن جاوید خان کے ہاں سے مجھے ناں ہی میسر آئی۔

جاوید خان اپنی اصل میں بہت اوکھا سا بندہ ہے۔ اوکھا سوچتا ہے، اوکھا کہتا، اوکھا دیکھتا، اوکھا لکھتا اور سوچتا ہے۔

اس اوکھ نے اُس”اوغ“ موافق بنا دیاہے جسے ہر لحظہ”سٹ“ لگتی رہتی ہے۔ویسے سچ یہ ہے کہ ایک حساس ذہن ہوتا ہی ایسا ہے کہ کبھی یہاں کبھی وہاں اسے ”سٹ“ لگے۔اس کا سبب یہ ہے کہ وہ وہ دیکھتا ہے جو عام لوگ اور اہم لوگ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ایسا کچھ دیکھنا کوئی سوکھا کام ہرگز نہیں ہوتا بلکہ یہ کام ہے ان کا جن کے حوصلے ہیں زیاد۔
جاوید جب ذہنی مسافتوں پر نکلتا ہے تو وہ سو بار دیکھی جگہوں کو یوں دیکھتا ہے جسے یہ جگہیں پہلی بار انسان کے قدم کی چاپ سے شناسا ہو رہی ہوں۔ یہی نہیں وہ ان دیکھی بھالی جگہوں میں اور ان دیکھی حقیقتیں ڈھونڈتا لاتا ہے کہ میرے جیا بیبا بندہ حیران رہ جاتا ہے۔


فقیر نگر کے باسی جاوید کی منفرد باطنی اور روحانی سفر کا اظہاریہ ہے جو اپنی نوعیت وہیت میں عمومیت رکھنے کے باوجود موضوعیت کے لحاظ سے خصوصیت کی حامل تخلیق ہے۔

جاوید کے سفر انوکھے ہوتے ہیں تو اس کے سفرنامے بھی مختلف اور منفرد۔ ان سفروں کو یہاں ہی چھوڑ کر اگر ہم جاوید کی باطنی سفر کو جانے جانچیں تو یہاں بھی اس کی انفرادیت سامنے لشکارے مارتی نظر آتی ہے۔

img 7736 1
جاوید خان کی تصنیف فقیر نگر کے باسی

خاکہ ایک معروف صنف ہے اس میں جدت اور حدت کے بہت سے پہلو تخلیق کار کے مزاج کے مطابق برابر بڑھتے جاتے ہیں ۔

لیکن جاوید نے اسے ایک اورکامیاب رخ دے کر مزید انفرادیت عطا کی ہے۔
14 شخصی خاکوں پر مشتمل اس کتاب کا انتخاب ذیشان ظہور شہید اور زیتون پھوپی اور فقیر نگر کے باسیوں نام کیا گیا ہے۔

ابتدائیہ فقیر نگر اور ایک لطیفہ بھی مزے کی چیز ہے زیر نظر تحریر میں مولوی جی اور قبر سے متعلق لطیفہ جاوید کے گاؤں گوٹھ سے اس کی محبت اور تعلق کا بیان ہے۔

اب سلوک اور فقر کی راہ کے راہیوں کا قصہ ہے جو ایک دنیا کے سفر کی داستان معلوم ہوتا ہے۔سائیں شیراہمارے علاقے کا کردار رہا ہے۔ جاوید نے اس کے متعلق جزیات اور معلومات کو بہترین انداز میں بیان کر کے اسے اتنی خوبصورتی سے مصور کیا ہے کہ ایک چلتا پھرتا کردار سامنے آ جاتا ہے۔ یہی یقینا ایک اچھے خاکہ نگار کی خوبی ہوتی ہے۔

اب باری ہے افطار حسرت کی، افطار حسرت اپنے مزاج کا خوبصورت کردار اپنی وضع کا پابند رہا۔ ایک وقت میں افطار حسرت قیوم امام ساقی کے قریب قریب ایک ساتھ راولا کوٹ کے ادبی اور فکری افق پر ابھرے۔

یہ دونوں ہمراز بھی تھے اور ہم زاد بھی۔یہ دونوں اکثر کہتے،سنتے،چلتے، ہنستے اور کُڑتے باہم ساتھ دیکھے گئے۔ ایک باہم لمبے سفر کے بعد ان دونوں نے اپنی اپنی راہ لی، امام ساقی صحافت اور شاعری کی طرف چلے تو افطار حسرت دشت شناسی کی سمت۔

کچھ وقت کے بعد دشت شناسی میں افطار حسرت کا اقبال یوں بلند ہونا شروع ہوا کہ وہ ہم سب کے لیے وجہ افتخار بن گئے اور ہم ان کو اور ان کی ناموری کو مسرت اور حسد سے دیکھتے اور خوش ہوتے تھے۔

پھر وہ جاں گسل لمحہ آیا جب افطار حسرت ایک لمبے سفر پر چل پڑے۔ افطار حسرت سے قریبی تعلق کے باعث جاوید ان کو گہرائی تک جانتا تھا۔ اس جانکاری نے افطار حسرت کے خاکے کو بہترین بنا دیا۔
”سلیم صاحب“جاوید کا ایک خوبصورت خاکہ ہے تو اسے زرداد حسرت صاحب بھی محبت اور خلوص سے لکھی وہ تحریر ہے جو اپنے موضوع کو چلتا بنا گئی ہے۔ زرداد حسرت بھی قیوم امام ساقی اور افطار حسرت کا ہم جلیس تھا۔وہ بہترین علمی صلاحیت اور ادبی ذوق کے حامل بھی۔”گولو پہائی“ ایک بے حد دلچسپ خاکہ ہے تو”میروپہائی“ بھی مزیدار ہے۔

سید فاضل حسین شاہ بخاری بھی کمال ہے اور”مصری پائی“ اور”کیلو بھائی“ بھی، اس طرح سائیں جمیل صاحب کا خاکہ بھی بہترین ہے، پروفیسر سید حسین خاموش کی کہانی بھی ان کی ذات کی طرح بے حد علیحدہ سی ہے۔

پروفیسر سید حسین صاحب ہمارے معاشرے کا حقیقی مختلف اور کس قدر مشکل کردار تھا وہ اپنے مزاج کے بندے تھے اس لیے ذرا مشکل بھی لگی مگر اب اصل میں وہ اتنے حلیم اور سلیم طبع تھے کہ انہیں ”ریشم ریشم“ کہا جاتا تھا۔

جاوید نے ان کو خوبصورتی اور مہارت سے پینٹ کیا ہے کہ ان کی جاندار شبیہ سامنے چلتی پھرتی محسوس ہوتی ہے۔ جاوید نے دو معصوم پھولوں ”حنان اور ایمان“کا خاکہ لکھا جو میرے خیال میں ان کا نوحہ ہے۔

جاوید دراصل خود بھی اس فقیر نگر کا باسی نہ بھی ہو”باسے دار“ ضرور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے مخصوص دنیا کے ان کرداروں کو سلیقے سے موضوع بنایا ہے اور ان کے بیان میں انصاف بھی کیا ہے۔

جاوید کا ایک اپنا اسلوب ہے جو اس تخلیق میں پوری طرح جلوہ گر ہے۔

جاوید ایک ہنرور ادیب ہے اور فنا فی الادب ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریروں میں تازگی سلاست اور ایک نوع کی خوشبو بھی ہوتی ہے جو اس سے زندہ جاوید بنانے کے لیے کافی ہے۔ جاوید کی اس خوبصورت تخلیق کے مطالعہ کے بعد مجھے یاد آیا کہ ایک رات ملّا کے گھر چور گھس آئے۔

ملّا ڈر کر ایک الماری میں چھپ گیا چوروں نے گھر کی تلاشی لینی شروع کی اور وہ الماری بھی کھولی، وہاں ملّا دبکا بیٹھا تھا اسے دیکھ کر وہ ٹھٹکے اور پوچھا کہ ہاں چھپے بیٹھے ہیں کیا کر رہے ہو؟ ملا ڈرتے ہوئے بولا کہ میں تو شرم کے مارے چھپتا پھر رہا ہوں کیونکہ اس گھر میں ایسی کوئی چیز نہیں جو آپ کے قابل ہو۔
صاحبو! میں بھی ملا کی طرح ڈرا دبکا بیٹھا ہوں کہ جاوید کی اتنی بھرپور تخلیق کے برابر ہم کیا لائیں کہ اس کا سامنا کریں اللہ اسے سلامت رکھے۔

ڈاکٹر محمد صغیر خان

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact