سید مظہر گیلانی
چودہ سو سالہ اسلامی سائنسی و مذہبی , تحقیق کی حد تک یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے-وہی سائنس انسانیت کو فائدہ دیتی ہے جو مذہب کی دہلیز پر سجدہ ریز ہو… اور اگر سائنس کو مذہب کی اخلاقیات سے آزاد کردیاجائے تو پچھلی کئی صدیاں گواہ ہیں کہ انسانیت کے قتلِ عام میں سائنس کے ایجاد کردہ جدید ہتھیاروں نے تباہ کن کردار ادا کیا۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانیت کے قتلِ عام میں مذہب کو بھی غلط استعمال کیا گی – لہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غلط استعمال ہونے کے باوجود درحقیقت مذہب اور سائنس دونوں انسانیت کے محسن ہیں-
اب اگر کوئی بے دین فرد مذہب کو سائنس کا دشمن قرار دے کر مذہب کا انکار کردے تو وہ انسانیت کا ایسا ہی دشمن ہے جیسا کہ وہ دیندار شخص جو سائنس کو مذہب کا دشمن قرار دے کر سائنس کا انکار کرے…یہ دونوں باہم انکاری..
مذہب اور سائنس کے درمیان ایک تیسرا برگر ٹائپ طبقہ ہیں..جو لبرل کے نام سے موسوم ہیں.جبکہ مذہب اور سائنس کے برعکس ان کی پہچان لبرلزم ہے.
کورونا وائرس نے اس برگر ٹائپ لبرلزم کےلیے بہت سے چیلنجز پیدا کردیے ہیں- حقیقی لبرل لال بجھکڑ جب سے کورونا وائرس آیا ہے ایسے پس تہہ خاک ہوئے ہیں تلاش کرنے سے بھی کوئی ایک نہیں ملتا-
کورونا وائرس نے (میرا جسم میری مرضی)جیسی فرد کی آزادی کے تصور کو ایسی پھنٹیاں دی ہیں کہ یہ ٹرینڈ یکسر ختم کرکے رکھ دیا گیا ہے -اور فرد کی مرضی اس کی آزادی اس کے حق پر معاشرے اور ریاست کے حق کو قطعی فوقیت دے دی ہے۔
اس فوقیت کے کئی مظاہر ہیں۔کون سا فرد کہاں جانا چاہتا ہےیہ اس کی مرضی نہیں ہوگی بلکہ ہم دیکھیں گے کہ کیا اس کے جانے میں ہمارا نقصان تو نہیں ہوگا؟ چنانچہ ہم ضروری سمجھیں تو اس کی مرضی کے بغیر اسے“قرنطینہ”کے نام پر قید کرسکتے ہیں۔
وہ چیخے،چلائے، اپنے “شہری حقوق ” اور “شخصی آزادی” کے واسطے دے، لیکن ہم نہیں سنیں گے۔یہ بات صرف ملک کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی ہی نہیں ہے-نہ ہی کسی دوسرے ملک کے شہری کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت نہ دینے کی حد تک ہے بلکہ اپنے ہی شہریوں کو اپنے ہی ملک میں اپنے ہی گھر میں اپنے ہی لوگوں میں آنے کی اجازت ہم تب تک نہیں دیں گے جب تک ہم مطمئن نہ ہوں کہ اس سے ہمیں خطرہ تو نہیں ہے!
ہم صرف یہی نہیں دیکھیں گے کہ ہمیں اس سے خطرہ ہے کہ نہیں ، بلکہ ہم یہ بھی اختیار رکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں فیصلہ کریں کہ اسے خطرہ ہے کہ نہیں ہے!
“میرا جسم، میری مرضی” کی بات کہاں رہ گئی؟ اب تو تمھارا جسم، ہماری مرضی کا وقت ہے۔چنانچہ تم چاہو یا نہ چاہو، ہم تمھیں تمھارے مفاد کی خاطر قرنطینہ میں رکھیں گے-
تمھیں تمھاری مرضی کے خلاف کھانا دیں گے- تمھیں تمھاری مرضی کے خلاف دوا دیں گےتمھاری مرضی کے خلاف تمھارے ٹسٹ کریں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم تمھیں قیدِ تنہائی کی سزا دیں اور یہ سب کچھ ہم تمھارے مفاد میں کریں گے۔
کیونکہ تم اپنے مفاد کا درست فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتم جان ہی نہیں سکتے کہ تمھارے حق میں کیا بہتر ہے۔جیسے ہم معاشرے کےلیے خطرے کا باعث بننے والے مجرموں کو قید کرتے ہیں-
جیسے ہم معاشرے کا سکون برباد کرنے والے پاگلوں کو پاگل خانے میں ڈالتے ہیںایسے ہی ہم معاشرے میں (میرا جسم میری مرضی ) کا وائرس پھیلانے والے فرد کو معاشرے سے کاٹ دیں گے۔وہ جو کہا جاتا تھا کہ مریض کی مرضی کے بغیر اس کے ٹسٹ نہیں کیے جاسکتےمریض کی مرضی کے بغیر اس کا علاج نہیں کیا جاسکتامریض کی مرضی کے بغیر اس کے جسم کے ساتھ کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا مریض اپنی زندگی اور اپنے جسم کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہےاور کوئی دوسرا اس کے مفاد کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے-
ان سارے کرداروں پر ان کی باتوں سمیت ہنسی آ رہی ہے-وہ سارا کچھ تو محض افسانہ ثابت ہو کر رہ گیا ہے ۔اب یہ سارا کچھ کیا جاسکتا ہے اور دھڑلے سے کیا جا رہا ہے – مریض کی مرضی ہو یا نہ ہو، بلکہ اس کی مرضی کی ایسی کی تیسی!وہ جو کہا جاتا تھا کہ جمہوریت سب سے اعلی و ارفع نظام ہے، آمریت بری چیز ہے-جبر ناجائز ہے، وہ ساری باتیں بھی تو محض کہانیاں ہی ثابت ہوگئیں ۔
کیونکہ چین اور جنوبی کوریا نے دکھا دیا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کا بہترین طریقہ جبر اور آمریت ہے۔لوگوں کو ٹیں ٹیں فش نہ کرنے دو،ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کرو، کسی پر ذرا بھی شبہ ہو کہ وہ وائرس زدہ ہے تو زبردستی اسے الگ تھلگ کرو،بعد میں ثابت ہوا کہ اسے وائرس نہیں تھا تو کوئی مسئلہ نہیں، اسے فارغ کردو، لیکن جب تک مطمئن نہ ہو اسے ہلنے نہ دو،پوری ریاستی مشینری کو جنگی بنیادوں پر وائرس کے خلاف متحرک کردو،تبھی تم اطمینان کی سانس لے کر کہہ سکو گے کہ چین اور جنوبی کوریا کی طرح ہم نے بھی وائرس پر قابو پالیا ہے!
.یہاں ہم پوچھنا چاہتے ہیں.. کہاں گیا.میرا جسم اور کہاں گئی میری مرضی..شخصی آذادی اور بھونڈے دلائل کہاں گے.اس سب کچھ میں شخصی آزادی اور انسانی حقوق پامال ہوتے ہوں تو ہوتے رہیں۔انسان ہی نہیں ہوگا تو اس کے حقوق کا کیا سوال؟چند انسانوں پر سختی کرکے ، ان پر جبر کرکے، ان کی آزادی سلب کرکے، ان کے حقوق پامال کرکے، ہم باقی انسانوں کو بچالیں گےاور ان کی زندگیوں کو محفوظ اور خوبصورت بنالیں گے۔
ایسے ہی ہم اپنی عزت و وقار اور اپنی ثقافت اپنی مذہبی روایات کو چند مٹھی بھر لبرل کو بازور طاقت سختی سے دبا کر محوفاظ بنا سکتے ہیں-اس وقت مجبوری کی حالت ہے۔ہمیں ایمرجنسی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔حالات وہ نہیں رہے کہ ہم لولی لنگڑی شخصی آزادی کی لگژری افورڈ کرسکیں۔ بوقتِ ضرورت، دوسروں کے مفاد میں ، ان کی مرضی کے بغیر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔
ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔.ان تمام حالات کو اگر کوئی لال بجھکڑ لبرل ایک ناگہانی وقتی مجبوری یا مصیبت سے تعبیر کر کے جان چھڑانے کی کوشش کرے گا -مان لے گا تو سوال یہ ہے.. لبرلزم اور لبرلیٹی کہا گئی ؟؟؟؟لبرل عقیدے کے مطابق تو یہ سب کچھ ناجائز ہے۔فرد ہی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے کہ اس کے حق میں کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔کسی اور کے پاس یہ اختیار نہیں۔بقول لبرل فلاسفی ریاست تو شرِّ محض ہے-
لبرلزم نے ریاست کو ڈںڈے کے زور پر صرف مجبوری کی حد تک مانا تھا اور مانا ہوا ہے..۔لیکنخالق کائنات نے اپنے تدبر سے مجبوری کا دائرہ اتنا پھیلا دیا ہے کہ(میراجسم میری مرضی) والی فرد کی آزادی بے معنی اور کلینک کا ٹیکہ ہو کر رہ گئی ہے-لال بجھکڑ لبرل ، جو لبرلزم کے عقیدے کے مطابق ایک انتہائی خود غرض اور خود مختار اکائی ہے،کیوں یہ سب کچھ برداشت کر رہا ہے..
نکلو باہر چوک میں سڑکوں پر….اور… کر کے دکھا دو وہ مشق……..
(لو ایسے بیٹھ گئی)
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.