Saturday, April 27
Shadow

کتاب

ہماری اشاعتی پالیسی

ہماری اشاعتی پالیسی

کتاب, ہماری سرگرمیاں
تعارف پریس فار پیس پبلی کیشنز نئے مصنفین کوایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جہاں وہ اپنی کتب نہایت آسانی اورسہولت کے ساتھ ساتھ عالمی معیاراورجدید تقاضوں کے مطابق شائع کر سکیں۔اگرآپ کسی بھی موضوع پر اردو ، انگریزی یا پاکستان ، انڈیا کی کسی بھی علاقائی زبان میں اپنی کتاب مکمل لکھ چکے ہیں اوراس کی اشاعت چاہتے ہیں تو کتاب کے مسودے کی ایک کاپی بذریعہ پوسٹ یا ای میل ان پیج  یا ورڈ فارمیٹ میں ہمیں بھیجئے۔ جائزے کے دوران اگرمسودے میں بہتری کی گنجائش محسوس  ہو ئی تو اس بارے میں آپ  کوآگاہ کر دیا جائے گا۔ اگر مسودہ قابل اشاعت ہوا تو ہم آپ کو کتاب کی پرنٹنگ اور ڈسٹری بیوشن کے لیےایک کوٹیشن بھیجیں گے۔ جس میں کتاب کے ٹائٹل،  کاغذ کی نوعیت، کتب  کی تعداد، وغیرہ کی تفصیلات درج ہوں گی۔ پریس فارپیس پبلی کیشنز پروف ریڈنگ یا ایڈیٹنگ کی سہولت اورکتاب کے سرورق کا ڈیزائن بھی م...
بہاول پور میں اجنبی/  شائستہ کومل کا تبصرہ

بہاول پور میں اجنبی/ شائستہ کومل کا تبصرہ

تبصرے, کتاب
تبصرہ نگار: شائستہ کومل                                                                                                     کتاب:بہاول پور میں اجنبی                                                                                                                                مصنف:مظہر اقبال مظہر  ...
نصرت نسیم کی کمال منظر نگاری

نصرت نسیم کی کمال منظر نگاری

تبصرے, کتاب
تبصرہ نگار : سعود عثمانی میں نے مسودے سے نظر ہٹائی اور فاختاؤں کے جوڑے کی طرف دیکھا جو ابھی ابھی لان میں اپنے لیے رکھے گئے آب و دانہ پر اترا تھا۔وہ میرے مستقل مہمان تھے اور اب مجھ سے مانوس بھی۔مجھے ان کا انتطار رہتا تھا لیکن سچ یہ کہ میرا دھیان اس وقت ان کی طرف نہیں تھا۔ میرا دل تو اس لمحے کوہاٹ اور پشاور کی گلیوں میں گھوم رہا تھامیں مس گراں بازار میں تانبے کے بڑے بڑے پتیلے اور پتیلیاں چمچماتے دیکھتا تھا۔  مس گراں بازار اندرونِ لاہور کے کسیرا بازار سے ملتا جلتا تھا جہاں میں بچپن میں اپنی امی کی انگلی پکڑے حیرت سے دائیں بائیں جگمگاتے برتنوں کو دیکھتا اور چلتا جاتا تھا۔میں اس سمے خیال کی جس دنیا میں تھاوہاں میں کبھی خود کو کوہاٹ کے ایک ایسے گھر میں دیکھتا تھاجہاں کچالو کے بڑے بڑے پتوں میں تازہ کٹا ہوا گوشت رکھا جاتا تھا اور جہاں تنور سے لپٹیں سرخ اور خمیری روٹیوں کی مہک ...
بہاول پور میں اجنبی   میں شامل افسانوں کا جائزہ -تبصرہ نگار رخسانہ افضل

بہاول پور میں اجنبی   میں شامل افسانوں کا جائزہ -تبصرہ نگار رخسانہ افضل

ادیب, افسانے, تبصرے, سیر وسیاحت, کتاب, ہماری سرگرمیاں
کتاب : بہاولپور میں اجنبی مصنف : مظہراقبال مظہر تبصرہ نگار  :  رخسانہ افضل- کراچی یہ کتاب بہاولپور کی محبت میں رچی بسی ہے۔ لفظ لفظ بہاولپور کی محبت سے مہک رہا ہے۔ کتاب کا سرورق بہت خوبصورت اور طباعت بہت دیدہ زیب ہے۔ جیسا کہ شمس رحمان نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ" کتاب کا انداز تحریر اس خصوصیت کا حامل ہے کہ اس میں باتوں کو "لمکایا" نہیں گیا بلکہ جلدی جلدی بتا کر اگلے موڑ، اگلی گلی، اگلے بازار، اگلے تاریخی واقعے، اگلے یونیورسٹی کے شعبے، میوزیم، مسجد، لائبریری اور کسی نئے بہاولپوری کی کسی نئی بات کی طرف سفر جاری رہتا ہے"۔ اس کتاب میں غیر ضروری طوالت سے احتراز برتا گیا ہے۔ جگہ جگہ میٹھی سرائیکی زبان کا تڑکا بھی مزہ دیتا ہے۔ "بہاولپور کے اجنبی" نے ہمیں بہاولپور کی خوب سیر کروائی، تانگے کی سیر کروائی، ایک بھولا بسرا گانا بھی یاد کروا دیا ٹانگہ لہور دا ہووے پاویں چہنگ دا ...
بہاولپور میں اجنبی-ایک جائزہ/ نوید ملک-اسلام آباد

بہاولپور میں اجنبی-ایک جائزہ/ نوید ملک-اسلام آباد

ادیب, افسانے, تبصرے, سیر وسیاحت, کتاب, ہماری سرگرمیاں
نوید ملک-اسلام آباد سفر نامہ نگار مبصر ہوتا ہے۔مبصر بصارت کے ساتھ بصیرت بروئے کار لاتے ہوئے کائنات کے آئنے میں ایسے عکس تلاش کر کے انھیں لفظی پیکروں میں ڈھالتا ہے جو عام انسانوں کو نظر نہیں آتے۔سفر نامہ ایک طرف ذاتی تجربات کی روشنی میں کائنات کا مطالعہ ہے تو دوسری طرف رویوں کا نفسیاتی تجزیہ بھی ہے۔ایک پلیٹ فارم پر مجھ سے ایک دوست نے سوال کیا کہ سفر نامہ پڑھنے کی ضرورت دورِ جدید میں کیونکر ہو؟۔سوشل میڈیا نے دنیا کے کونے کونے کے مناظر آنکھوں میں قید کر لیے ہیں۔ جو چیز ہم اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں ان کےبارےمیں پڑھنےکی کیاضرورت ہے۔میرا جواب تھا:"ویڈیو مناظر دکھا سکتی ہیں مگر کیفیات نہیں۔سفر نامہ نگار تودراصل الفاظ کے ذریعے کیفیات سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے اور قاری انھیں محسوس کرتا ہے ، حظ اٹھاتا ہے" پریس فار پیس فاؤنڈیش کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے سفر نامے"بہاولپور میں اجنبی" نے مجھے چ...
عبدالوحید کا درختی گھر-انعام الحسن کاشمیری

عبدالوحید کا درختی گھر-انعام الحسن کاشمیری

تبصرے, کتاب
مبصر : انعام الحسن کاشمیری جناب عبدالوحید کا شمار عہد حاضر کے بڑے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ افسانہ لکھنے اور اسے قاری کے مزاج میں ڈھالنے کے ہنر کے ساتھ ساتھ تنقید نگاری میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ انھیں یہ بتانے میں ہی ملکہ حاصل نہیں کہ افسانہ کس معیار کا ہے اور یہ ادب کی معراج کو چھوسکتا ہے یا نہیں بلکہ وہ اس کے خدوخال درست کرنے، اس کی خامیوں اور خوبیوں کو اجاگر کرنے اور اسے ایک باکمال تخلیق بنانے کی بابت بھی لکھاری کو آگاہ کرتے ہیں تاکہ تنقید محض تنقید کے دائرے میں ہی مقید نہ رہے بلکہ اس سے باہر نکل کر مفید اور مثبت رخ اختیار کرکے نتیجہ خیز ثابت ہوسکے۔ یہ چیز لکھاری کے لیے بڑی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اور اسے بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ کہاں ایسا سقم موجو دہے جسے دور کرکے تحریر کی افادیت دوچند کی جاسکتی ہے۔ جناب عبدالوحید نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے سیکرٹری کی حیثیت سے گرانقدر خدمات سران...
یادوں کی الماری -تبصرہ  : پروفیسر محمد ایازکیانی

یادوں کی الماری -تبصرہ : پروفیسر محمد ایازکیانی

تبصرے, کتاب
کتاب : یادوں کی الماریمصنفہ : نسیم سلیمانتبصرہ  : پروفیسر محمد ایازکیانیپچھلے ایک دو ماہ میں تین چار چوٹی کے ادیبوں کو پڑھا۔جن میں مہاتما گاندھی کی خود نوشت سوانح عمری"حق کی تلاش"مولانا ابوالکلام آزاد کی "غبار خاطر" مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ"غار حرا میں ایک رات"شورش کاشمیری کی "پس دیوار زنداں"اسی دوران پچھلے ہفتے نسیم سلیمان صاحبہ نے اپنی کتاب"یادوں کی الماری "عنایت کی۔چونکہ اس کتاب کا مصالحہ ہمارے اپنے اردگرد کے ماحول اور سماج سے لیا گیا تھااسی لیے اتنی قد آور شخصیات کی تحریروں کے بعد بھی اپنی دلچسپی قائم کر پائی۔لہذا اس کو محض دو نشستوں میں ہی ختم کر ڈالا۔کتاب کے پیش لفظ میں محترمہ نے اپنی کم مائیگی اور ادب سے ناآشنائی کا عذر پیش کیامگر یہ محض کسرنفسی ہے۔۔کتاب کے بعض جملے  قاری کو اپنے سحر میں لے لیتے ہیں جو ادبی چاشنی کے بنا ممکن نہیں۔کتاب کے خواندگی کے دوران دلچسپی کا عنصر ہر لمحہ ق...
آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں لائبریریوں کی ضرورت ،تحریر جلال الدین مغل

آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں لائبریریوں کی ضرورت ،تحریر جلال الدین مغل

آرٹیکل, کتاب
تحریر: جلال الدین مغل مظفرآباد کے صحافیوں کی اس بیٹھک کا اہتمام لاہورکی 'الف لیلی بک بس سوسائٹی' نے کیا تھا اور مقصد آزاد کشمیر کے پرائمری سکولوں میں بچوں کو نصابی کتب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتب پڑھانے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے علاوہ حکومت کو پرائمری سکولوں میں باقاعدہ لائبریریاں قائم کرنے پر راضی کرنا تھا۔ میٹنگ میں شریک طارق نقاش بتاتے ہیں کہ ان کے بچے شہر کے ایک ایلیٹ سکول میں پڑھتے ہیں۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے سکول انتظامیہ کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بچوں کو نصابی کتب کے ساتھ ساتھ کتب بینی اور اخبار بینی کی ترغیب دیں اور اس کے لیے باقاعدہ وقت مختص کریں۔ سکول انتظامیہ اتفاق تو کرتی ہے مگر اہتمام سے گریزاں ہے۔ اپنا بچپن کا زمانہ یاد آ گیا۔ کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ بڑے بھائی ذوق مطالعہ بھی رکھتے تھے اورکتابوں کے کاروبار سے منسلک ہونے کے وجہ سے اخبارات، رسائل اور  اد...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact