کرشن چندر نے اپنا بچپن کشمیر میں گزارا ہے اور اس کی کہانیوں پر کشمیر کے حسن کی گہری شاعرانہ چھاپ ہے۔ اس نے کشمیر کے بارے میں کتنی ہی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔ یہی نہیں کہ کشمیر کی زندگی نے اس کو افسانوی مواد دیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس کی اپنی شخصیت میں اور اس کے ادبی اسٹائل میں کشمیر کا قدرتی حسن ہمیشہ کے لیے گھل گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر اور کشمیر کی یاد نے اس کی کتنی ہی کہانیوں کو انسپائر کیا ہے۔ مگر کشمیر کے حسن کے علاوہ جس چیز نے کرشن چندر کو افسانہ نگار بنا دیا وہ ایک بیماری تھی جس نے کئی مہینے تک اسے بستر پر لٹا کر ایک کمرے میں قید کر دیا۔ نہ اسکول جا سکتا تھا، نہ دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں شریک ہو سکتا تھا۔ کتنے ہی دن تو اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ کتاب پڑھ سکے۔ ایسی حالت میں اپنا ’رفیق تنہائی‘ وہ خود ہی تھا۔ پلنگ پر لیٹے لیٹے کمزوری سے آنکھیں بند کیے وہ گھنٹوں سوچتا رہتا، سوچتا رہتا۔
موت اور زندگی کے بارے میں، اپنے ماں باپ کے بارے میں، کشمیر کے قدرتی حسن کے بارے میں۔ وہ حسن جو اس کھڑکی کے باہر حد افق تک پھیلا ہوا تھا اور ان غریب کشمیریوں کے بارے میں جو گندے چیتھڑے پہنے بھاری بوجھ پیٹھ پر لادے پہاڑی راستوں پر چلتے نظر آتے تھے اور اس کے دل نے جو بیماری کے کارن اپنے دکھ اور درد سے بھرا ہوا تھا ساری دنیا کا دکھ اور درد اپنے اندر سمیٹ لیا۔
— خواجہ احمد عباس کی تحریر کرشن چندر کی کہانی سے اقتباس