تبصرہ نگار: تہذین طاہر۔
”ننھا سلطان“ ایک ترک ماں بیٹے کی سچی داستان پر مشتمل بچوں کا مختصر ناول ہے۔ جسے ”شمیم عارف“ نے لکھا ہے۔مصنفہ کی یہ تیسری کتاب ہے۔ پہلی کتاب 2017ءمیں ”عشق کی نگری“ کے نام سے لکھی گئی۔ دوسری کتاب 2019ءمیں ”ابھی ہم راہ گزر میں ہیں“ کے نام سے لکھی گئی یہ شاعری کی کتاب ہے اور تیسری کتاب ”ننھا سلطان“ ہے جو بچوں کے لیے خصوصی طورپر ترتیب دیا گیا۔زیر نظرکتاب کا انتساب”پاک ترک دوستی کے نام“ کیا گیا ہے۔ ”ننھا سلطان“ ایک ایسے بچے کی کہانی ہے جس کے بابا پاکستانی اور ماما ترک ہیں، وہ بچہ بچپن میں ہی اپنے بابا سے بچھڑ گیا۔ یہ اس بچے کی اپنی ماما اور بابا سے محبت کی کہانی ہے۔
سینئر جرنلسٹ، مصنفہ و شاعرہ غلام زہرا ”ننھا سلطان“ کے بارے میں کیا کہتی ہیں ملاحظہ کیجئے!
”بچے کسی ملک یا قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور بچوں کے لیے جو ادب تخلیق کیا جاتا ہے وہ ان کے مستقبل کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ادب اطفال کا بنیادی مقصد بچوں کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ بچوں کی ذہنی نشوونما میں اہل قلم کا کردار بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔بچوں کی عمدہ ذہنی تربیت اور شخصیت کی ہمہ جہت و متوازن نشوونما میں ادب ایک مو ¿ثر وسیلہ ثابت ہوا ہے۔ ادب اطفال تخلیق کرنا بچوں کا کھیل نہیں، بڑے آدمی کا بچوں کی ذہنی سطح تک اتر آنا ایک مشکل بات ہے۔ اپنے آپ کو بچہ تصور کرتے ہوئے سوچنا سمجھنا اور پھر لکھنا بڑا مہارت کا کام ہے۔
یہ دل کو چھو لینے والی ایسی کہانی ہے جس میں اکیلی ماں اپنے بچے کی تربیت کرتی ہے اور اسے بگڑنے نہیں دیتی۔ کوئی بھی تحریر جو دل کو چھو لینے والی کیفیت اور تاثیر سے محروم ہو وہ ادب میں شامل نہیں ہو سکتی۔ بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے لیے ادیب یا شاعر کو بچوں کی نفسیات کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ انہیں بچوں کی طلب اور ان کی علمی و ادبی ضروریات کا شدید احساس بھی ہو۔ وہ ان کی سادہ زبان میں لکھنے کی قدرت رکھتا ہو، تب ہی وہ بچوں کا ادب تخلیق کر سکتا ہے۔
شمیم عارف نے اپنی اس کہانی میں مذکورہ بالا تمام پہلوﺅں کو مدنظر رکھا ہے۔ جہاں تک کہانی کے موضوع کی بات ہے تو ننھا سلطان کی ذہنی اور جذباتی اٹھان کے ساتھ ساتھ اس کے والدین خاص طور سے ماں کا کردار بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔
بچوں کے جمالیاتی حسن کی تسکین ان کی تربیت اور نشوونما کا بنیادی حق ہونا چاہیے۔ ننھا سلطان ان تمام باتوں پر پورا اترتا ہے۔ الفاظ کی نشست و برخاست کا خاص خیال رکھا گیا ہے، روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اپنے پیغام کو جداگانہ انداز کے ساتھ پیش کرنا بہت بڑی بات ہے۔ شمیم عارف صاحبہ نے بتایا ہے کہ محبت کسی سرحد کی محتاج نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے ترکی کی مسجد آیا صوفیہ کا تو مصنفہ نے اس کی جس انداز سے منظر کشی کی ہے، مجھے تو دیکھنے کا اشتیاق ہوگیا ہے۔ شمو پیاری کو سادہ، سلجھا ہوا اور پیار کے رشتوں میں گندھا ہوا ناول لکھنے پر بہت بہت مبارک۔
ناول کے آخر میں مصنفہ کی بچوں کے لیے لکھی جانے والی کچھ نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ جن کے عنوان کچھ اس طرح ہیں،اچھا بچہ سلطان،بہار،گرمی، علم کا سورج، تتلی۔
شمیم عارف نثر ہی نہیں بلکہ شاعری میں بھی اپنا ایک الگ اور منفرد انداز رکھتی ہیں۔ کتاب کا سرورق بڑی خوبصورتی اور دلجمعی سے بنایا گیا ہے۔ ترکی کی مشہور مسجد آیا صوفیہ کو سرورق پر پینٹ کر کے اس کتاب کی خوبصورتی کو دوبالا کیا گیا ہے۔ زیر نظر کتاب کی قیمت 350/-روپے ہے۔ کتاب پریس فار پیس پبلی کیشنز کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔ کتابوں کی اشاعت کے دو کامیاب سال مکمل ہونے پر پریس فار پیس کی انتظامیہ اور ادارہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ دعا ہے کہ یہ ادارہ اسی طرح ترقی کے منازل طے کرتا رہے اور آنے والے نئے لکھاریوں کو اپنی آغوش میں سمیٹتا رہے۔ بے شک قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، لیکن یہاں پریس فار پیس کا ادارہ دریا بننے کے بعد سمندر بننے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ اللہ اس ادارے کا حامی و ناصر ہو۔ آخر میں اس لاجواب ناولٹ کی اشاعت پر مصنفہ کو مبارک باد کے ساتھ دعا کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ“۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.