تحریر : کرن عباس کرن 

تاثرات : محمد احسان

بی ایس اردو میقات ششم

اردو ادب کے شجرِ سایہ دار میں ناول کو اہم مقام حاصل ہے ۔دیگر چند  اصناف کی طرح یہ صنف بھی ہم نے مغرب سے مستعار لی ہے، لیکن ہمارے ہاں کچھ شخصیات نے اس صنف  پر ایسے کام کیا کہ اہل مغرب بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ ناول درحقیقت کہانی بیان کرنے کا ایسا منفرد انداز ہے جس میں انسانی زندگی کی عکاسی کی جاتی ہے۔ اور ناول نگار زندگی کے مختلف پہلوؤں کا مکمل اور گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک خاص طریقے اور سلیقے سے اپنے  تجربات و مشاہدات کو کہانی کے روپ میں پیش کرتا ہے ۔

ناول دھندلے عکس پڑھا تو بہت خوشی ہوئی کہ آج اکیسویں صدی کا قلم کار بھی کامیابی کے ساتھ دورِ حاضر کے سماجی و معاشرتی موضوعات کے ساتھ ساتھ، معاشرے میں رہنے والے لوگوں کی نفسیات اور جذبات کی ترجمانی بھی کمال مہارت کے ساتھ کرتا ہے۔ اس ناول میں جہاں بہت سے ناگفتہ بہ حالات و واقعات پیش کیے گئے ہیں وہیں یہ حالات و واقعات جن لوگوں کو درپیش آئے ان کے دھڑکتے دل، خیالات، آتی جاتی اور ٹوٹتی سانسیں، خدشات، تجربات، اپنے اپنے احساسات و جذبات کے ساتھ  انتہائی موثر انداز میں پیش کر دیے گئے ہیں۔ آج جب کہ مصنوعی ذہانت (ارٹیفیشل انٹیلیجنس) کی اجارہ داری انسان کو بھی صرف ایک روبوٹ کی صورت میں استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اور اس کی زندگی کے فطری عواطف و میلانات چھیننے کے درپے ہے۔ وہیں انسان میں اپنے اصل کی تلاش اور تڑپ مزید نکھر کے بھی سامنے آتی دکھائی دیتی ہے۔ جس کی ناول دھندلے عکس میں بہترین عکاسی کی گئی ہے۔

پلاٹ: ناول کے پلاٹ پر غور کیا جائے تو یہاں یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ناول کا پلاٹ بھی فنی اصولوں کے عین مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ناول کی پوری کہانی قصہ در قصہ ہونے کے ساتھ ساتھ زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم منسلک ہے ۔سبھی حالات و واقعات یکے بعد دیگرے ایک تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح ناول کے پلاٹ میں ایک خاص طرح کا ربط و ضبط بھی پیدا ہو گیا ہے۔ ہر واقعے کا اپنی جگہ حسب ضرورت ہونا اس ناول کے پلاٹ کی ایک اہم فنی خصوصیت ہے۔جو ناول نگار کے فہم و فراست اور فنی پختگی کا نتیجہ ہے ۔فنی لحاظ سے یہ ایک اہم اور بنیادی خوبی سمجھی جاتی ہے۔

کردار نگاری: کوئی بھی کہانی  کرداروں کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی۔ چونکہ ناول معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس لیے اس میں ہر طرح کے کرداروں کی موجودگی لازمی ہے۔ ناول  دھندلے عکس میں کرن عباس کرن نے کرداروں میں تنوع پیدا نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے ناول کی طوالت میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن ناول نگار نے اس ناول میں موجود کرداروں کو ان کی تمام تر نفسیات ، جذبات، عادات و اطوار خاندانی پس منظر اور موجودہ حیثیت، عمر کے ساتھ پیش کیا ہے ۔

منظر نگاری: عام طور پر جب قاری واقعات سے تھکن محسوس کرنے لگتا ہے تو ایک ہوش مند مصنف قاری کو گھٹن زدہ ماحول سے نکال کر کھلی فضا یا کسی حسین منظر کی سیر کراتا ہے. اس میں قاری کو آنے والے واقعات کے اشارے مل بھی جاتے ہیں اور اس کا ذہن ان کی نوعیت کا اندازہ لگا لیتا ہے۔ سو منظر نگاری کے فن کا بھی ناول نگار نے کامیاب استعمال کیا ہے ۔

مکالمہ نگاری: ناول میں مکالموں کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے اور مکالموں ہی سے کسی کردار کی  خوبیوں، خامیوں اور اندرونی کیفیات کا پتہ چلتا ہے۔ مکالموں کے نہ ہونے سے کہانی بے مزہ ہو جاتی ہے اور پھیکی لگنے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ اکثر جگہ مصنفہ کرداروں کی ذہنی کیفیات بھی مکالموں کی مدد سے بیان کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

اندازِ فکر :ہر ناول نگار کا اپنا ایک خاص نقطہ نظر ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں ہر ادیب کسی خاص طرزِ فکر کا مالک ہوتا ہے ۔زندگی کے بارے میں اس کا ایک خاص نظریہ ہوتا ہے جو اس کی تحریروں  میں جھلکتا ہے۔ کسی کا مطمحِ نظر اصلاح ہوتا ہے تو کسی کا محض تفریح۔ ادیب کا فلسفہ حیات کچھ بھی ہو اس کے بیان میں فنکاری اور ادبی چاشنی کا قائم رہنا ضروری ہوتا ہے۔ جس کا کرن عباس کرن نے ناول دھندلے عکس میں بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ دعا گو ہوں کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ اور مستقبل میں ہم ان کے مزید ناولوں سے زندگی کو مزید نئے نئے زاویوں سے دیکھ  اور پرکھ سکیں۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact