Tuesday, April 30
Shadow

رباب عائشہ کی تصنیف ” سدا بہار چہرے” کے بارے میں مہوش اسد شیخ کے تاثرات

تاثرات :مہوش اسد شیخ
پریس فار پیس کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب آپ کتاب کی اشاعت کرواتے ہیں تو کتابوں کی ڈلیوری کے ساتھ آپ کو دو کتابیں تحفتاً بھی ملتی ہیں۔ مجھے اپنی کتاب کے ساتھ احمد رضا انصاری کی” خونی جیت“ اور رباب عائشہ صاحبہ کی” سدا بہار چہرے “ملی۔ پہلے تو کتاب دیکھ کر میرا دل برا ہوا کہ میں نے کسی افسانوی مجموعہ کی امید لگا رکھی تھی۔ ان دنوں افسانے و ناول پڑھنے کو من مچل رہا تھا۔ کتاب سدا بہار چہرے کی اشاعت بہت خوبصورت کی گئی لیکن میں نے کتاب بنا پڑھے ایک طرف رکھ دی۔ خونی جیت کے مطالعہ سے فراغت کے بعد سوچا، دیکھا تو جائے کہ آخر یہ سدا بہار چہرے ہیں کون کون سے۔
میرے ذہن میں تھا کہ رباب عائشہ کوئی دوشیزہ ہو گی لیکن مصنفہ کا تعارف، قابلیت اور شفیق چہرہ مجھے متاثر کر گیا۔ کتاب پر لکھے تاثرات پر سرسری کی نگاہ ڈالی اور آگے بڑھ گئی۔
مصنفہ نے سب سے پہلے ہاجرہ منصور اور منصور راہی پر قلم اٹھایا اور قلم اس خوبی سے چلایا کہ قاری بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکا۔ واقعی منصور راہی کمال کی شخصیت ہیں۔
 ڈاکٹر سلمی واقعی غضب کی شخصیت ٹھہریں، اپنی معذوری کو شکست دیتے ہوئے شاندار انداز میں زندگی گزارنا۔ ہر کسی کے بس کی بات نہیں، وہ آج کل کے دور میں ہوتیں تو شاید زہنی انتشار کا شکار ہو کر خودکشی کر چکی ہوتیں۔ اتنی محنت کے بعد ڈاکٹر بننا پھر معذوری آ پکڑے تو ان حالات میں خود کو سنبھالا دینا واقعی دشوار ہے۔ ان کی عظمت کو سلام۔
ڈاکٹر وسیم جیسے لوگوں کی آج بھی اشد ضرورت ہے۔ شمو خالہ کتنا پیارا نام، کتنی پیاری شخصیت ۔ دل نے بے اختیار خواہش کی کاش ایسی اک خالہ میری بھی ہوتیں۔
ضیغم زیدی کے بارے میں جانتے ہوئے جہاں حیران تھی وہیں آنکھ اشک بار بھی تھی۔ یہ دنیا چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔
فروزاں کی ایمانداری نے بہت متاثر کیا، کہاں چلے گیے یہ پیارے لوگ۔ خالہ حمیدہ کی زندہ دلی، دل کو بہت بھائی۔ چوکی کے نیچے رکھے ٹین کے بکسے نے حیرت میں ڈال دیا۔ واقعی اس زمانے کی خواتین جن کے پاس اعلیٰ ڈگریاں نہیں ہوتی تھیں مگر وہ شعور کی کتنی بڑی دولت سے مالا مال تھیں۔ چچا وقار اک پروقار و قابل شخصیت تھے ۔
 مصنفہ کی والدہ کے بارے میں پڑھتے ہوئے آنکھیں نم رہیں، سبھی مائیں ایک سی ہوتی ہیں کیا؟ میں نے چند ماہ پہلے اپنی والدہ کو کھو دیا ہے۔ ایسا ہی محسوس ہوا اپنی والدہ کے متعلق پڑھ رہی ہوں۔ ان کے والد کے متعلق پڑھتے ہوئے، دونوں میاں بیوی کی محبت اور جدائی کے خیال نے رلا ہی دیا۔ کبھی کبھار سوچتی ہوں محبت کرنے والوں کو ایک ساتھ مرنا چاہیے لیکن پھر یہ سوچ کر دل ڈوبنے لگتا ہے کہ اس اولاد پر کیا بیتے گی جو دونوں کو ایک ساتھ کھو دیں۔ مصنفہ کی طرح میں بھی خود کو ڈپریشن کی لپیٹ میں محسوس کر رہی ہوں، خود کو سنبھالنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہوں۔ والدین کو کھونا آسان نہیں، ان کے بغیر جینا سیکھتے سیکھتے برسوں بیت جاتے ہیں۔
پیاری ببل کی اچانک موت نے بہت افسردہ کیا۔
رضیہ عثمانی کے بارے میں بھی جان کر بہت حیرت ہوئی، کتنے ہی بیش قیمت ہیرے ہیں جو گمنامی کی موت مر گئے۔صد افسوس!
سید جہانگیر اور انیس جہانگیر کی یادیں بھی خوب رہیں۔ ڈاکٹر اجمل اور راولپنڈی کی تاریخ جاننا بھی بہت اچھا لگا ۔ مصنفہ نے اخبار کے ادارے میں نوکری کرنے کے تجربے کو بھی بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا۔
کتاب کا دوسرا حصہ، مختلف شاعرہ وہ مصنفہ مستورات پر لکھے آرٹیکل بہت خوب لکھے گئے ہیں، ان کے بارے میں جاننا اچھا لگا۔ بہت قابل خواتین تھیں۔ ان کے تصاویر نے تحاریر کا مزہ دوبالا کر دیا۔
یادوں کی پٹاری کھولنا آسان نہیں ہے، میرا ماننا ہے کہ یادوں اور آنسوؤں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے، یادیں اچھی ہوں یا بری، آنکھوں کے گوشے کو نم ہونے سے آپ نہیں روک سکتے۔ مصنفہ کی یادداشت کو بھی ڈھیروں داد۔ نہ صرف خوبصورتی سے عظیم شخصیات کے انداز و اطوار کا احاطہ کیا ہے بلکہ ملاقات و اہم واقعات کی تواریخ بھی درج کیں ہیں ۔
ان خاکوں کے ساتھ تصاویر نے ان کا حسن و دلچسپی بڑھا دی۔ جس شخص کے بارے میں آپ پڑھ یا سن رہے ہوں اسے دیکھنے کی تمنا تو دل میں بے اختیار پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ ان تصاویر نے اس جذبے کی بخوبی تسکین کر ڈالی۔
کتاب کے مطالعہ کے بعد جو شخصیات حیات ہیں ان سے ملنے کی آرزو نے جنم لیا اور جو راہ عدم کو سدھار چکے انکے لئے دل افسردہ ہوا۔ وہ نگینے کیوں کھو گئے۔ اچھے پیارے لوگ ہر کسی کی زندگی میں آتے ہیں، انھیں یاد رکھنا اور سراہنا قابل ستائش قدم ہے جو رباب عائشہ صاحبہ نے اٹھایا۔ یہ کتاب یقیناً اک قیمتی دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔ خاندان بھر کے لئے اک نادر نسخہ۔
مصنفہ کے لیے نیک خواہشات، ڈھیروں دعائیں 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact