کتاب کا نام ۔۔۔۔ سدا بہار چہرے ( کتابِ دل )
صنف ۔۔۔۔ خاکے ، کالم ، انٹرویو
مصنفہ ۔۔۔ رباب عائشہ
مبصرہ ۔۔۔ خالدہ پروین
تعارف و تبصرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر دور میں طبع اور رجحان کے مطابق بہت سی تخلیقات منظرِ عام پر آتی رہی ہیں جن میں ناول ، افسانہ ، شاعری ، خودنوشت اور سفر ناموں نے ہمیشہ ہی مقبولیت حاصل کی ہے ۔ یہ تمام اصناف تخیل کو مہمیز بخشنے کے علاوہ معلومات کا خزانہ قرار پائیں ۔ ایسے میں “سدا بہار چہرے” کی طباعت اردو کے ادبی سرمائے میں ایک گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس میں موجود تمام تخلیقات کا اجتماعی وصف وہ قلبی لگاؤ ہے جو وجہ تخلیق بنا ۔لہذا اگر اسے ۔۔۔کتابِ دل ۔۔۔کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔
“سدا بہار چہرے” کی سب سے پہلی خوبی ہاجرہ منصور کی مصوری کے نمونوں سے مزین خوب صورت ، دیدہ زیب اور ملائم سرِ ورق ہے جس کو دیکھ اور چھو کر دل میں ایسے لطیف احساسات جنم لیتے ہیں جو کیف و سرور کا باعث ہیں ۔
سدا بہار چہرے تین حصوں پر مشتمل ہے:
1 : کالم وخاکے
2 : شاعرات و ادیب خواتین
3 : انٹرویوز
کالم و خاکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سدا بہار چہرے ” میں کل 21 کالم اور خاکے شامل ہیں ۔ کالم و خاکے کا تعلق ان شخصیات سے ہے جو کسی نہ کسی حیثیت سے رباب عائشہ کی زندگی میں اہمیت کی حامل رہی ہیں ۔ ان شخصیات کا تعلق خونی و قلبی رشتوں ، ادب، مصوری ، دیگر شعبوں سے ہے۔ شخصیات کے انتخاب میں موجود رنگا رنگی مصنفہ کی وسیع القلبی کی عکاس ہے ۔ تمام شخصیات قابلیت ، انسانیت ، عاجزی و انکساری جیسی صفات سے متصف ہونے کی بنا پر رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اس مادیت پرستی اور خود غرضی کے دور میں ایسی تحریر کا سامنے آنا نوجوان نسل میں انسانیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج کا باعث ہے ۔
کالم اور خاکوں میں نام کے بجائے صفت کو عنوان بنانے کا منفرد انداز جہاں مصنفہ کے عمیق مشاہدے اور زیرک نگاہی کا نتیجہ ہے وہیں عنوان کے طور پر استعمال کیے گئے اشعار کے “مصرعے” اور شاعرانہ جملے مصنفہ کے اعلیٰ ادبی ذوق کے علامت ہیں۔
ہر خاکے کے ساتھ متعلقہ شخصیت کی تصویر دل کی خوشی اور ادبی ذوق و شوق کی تسکین کا باعث ہے ۔
تمام خاکے اپنے اندر محبت ، وفا ، ایثار ، خدمتِ خلق ، عزم وہمت کا پیغام سموئے ہوئے ہیں ۔
ہاجرہ منصور اور منصور راہی جیسے”کمال لوگ” یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے مزاج اور مشاغل کے یکساں ہونے کے بجائے محبت ، احترام اور احساس کا ہونا ضروری ہے ۔
“اندھیروں میں چراغِ طور جلانے والی” نابینا ڈاکٹر سلمیٰ معذوری اور محتاجی میں حدِ فاصل کے ادراک کے علاوہ ہمت وعزیمت کی مثال ہے ۔
“فیض پہنچانے والے لوگ کیوں چلے جاتے ہیں ؟” ڈاکٹر وسیم ، ” شمو خالہ” الطاف فاطمہ ، “دل کے رشتے’ خالہ حمیدہ ، “کچھ یادیں کچھ باتیں ۔۔۔ گل جی کی” انکسار و محبت کا پیکر مصور ، “انمول تھی وہ” فیروزاں (گھریلو ملازمہ) ، حمیدہ ، “کچھ یادیں کچھ باتیں ۔۔۔ گل جی کی” انکسار و محبت کا پیکر مصور ، “انمول تھی وہ” فیروزاں (گھریلو ملازمہ) ، “تجھے روئے گا زمانہ برسوں” رضیہ عثمانی تحریک پاکستان کی سر گرم رکن ، “سید جہانگیر اور اینس جہانگیر کی یادیں” بنگال کا مصور ، “ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم” ڈاکٹر سید اجمل حسین ، “ایک ہمہ جہت شخصیت ” رشید صاحب ، “جعفر صاحب میں شرمندہ ہوں” انسانیت کا درس دینے والے استاد کے ایسے خاکے ہیں جو مصنفہ کی ان شخصیات سے محبت اور ان کے جانے کے بعد ان کی کمی کا خوب صورت اظہار ہیں۔۔
“بیتے ہوئے کچھ دن ایسے تھے” شوہر ضیغم زیدی ، “چچا وقار” ، “نرگس کے پھول اور موتیے کی کلیاں ” والدہ صاحبہ ، “کاش اس دن میں اپنے گھر نہ گئی ہوتی” والد صاحب ، “بس یادیں رہ جاتی ہیں” والد صاحب ، “ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں “حمیدہ خالہ کے خاکے خونی وقلبی رشتوں سے فطری محبت کا دل کو چھو لینے والا اظہار ہیں ۔
افسانویت سے مبرّا تمام کالم اور خاکوں کا اسلوب اگرچہ سادہ اور بیانیہ ہے لیکن رشتوں کی محبت اور بیان میں موجود خلوص نے تحریر کو وہ تاثیر بخشی ہے جو دلوں کو متاثر کرنے کا باعث ہے ۔
شاعرات و ادیب خواتین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں 11 شاعرات اور ادیب خواتین کے متعلقہ ادبی مضامین موجود ہیں ۔
ان میں شاعرہ صفیہ شمیم ملیح آبادی (جوش ملیح آبادی کی بھانجی) ، ادا جعفری (شاعرہ) ، زہرہ نگاہ (شاعرہ) ، پروین فنا سید (شاعرہ) ، رابعہ نہاں (شاعرہ) ، رشیدہ سلیم سیمیں (شاعرہ) ، الطاف فاطمہ (ناول نگار) ، ممتاز شیریں (افسانہ نگار اور نقاد) ، اختر جمال (ادیبہ) ، نثار عزیز بٹ (ناول نگار) اور خدیجہ مستور (افسانہ نگار)سے متعلقہ ادبی مضامین جن میں ان کی تحریروں کے موضوعات اور اسلوب بیان کا بہت عمدہ جائزہ پیش کرتے ہوئے شخصی اوصاف کا خاکہ اور عمدہ شعری انتخاب مضامین کے حسن میں اضافے کا باعث ہے ۔
انٹرویوز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب کا یہ حصہ تین شخصیات معروف مصور غلام رسول ، مصورہ مسرت ناہید امام اور تحریک پاکستان کے رہنما قاضی عیسیٰ کی اہلیہ بیگم سعیدہ قاضی عیسیٰ کے انٹرویوز پر مشتمل ہے ۔ انٹرویو کا ہلکا پھلکا انداز ان عظیم شخصیات کی سوچ وفکر ، ذاتی زندگی اور معاشرتی رویوں اور رجحان کا عمدہ اظہار ہیں ۔
“سدا بہار چہرے ” کی اشاعت اردو کے ادبی سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہے ۔ اس میں موجود خاکے اور کالم جہاں رشتوں اور تعلقات کی اہمیت اور محبت کے عکاس ہیں وہیں ان میں موجود انسانیت اور مثبت سوچ پر مبنی پیغام قارئین اور نوجوان نسل کو ایک نیا زاویۂ فکر عطا کرنے کا باعث ہے ۔
مضامین کسی بھی ادیب اور شاعر کا فکری و فنی جائزہ پیش کرنے کے لیے بہترین نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
مصنفہ رباب عائشہ کا اسلوبِ تحریر اعلیٰ ادبی معیار کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ سادگی اور روانی کی عمدہ مثال ہے ۔
کتاب کی طباعت بہت معیاری اور اس میں موجود تصاویر کتاب کی دلکشی کے ساتھ ساتھ ایک سرمائے کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
“سدا بہار چہرے” میں موجود تحاریر کے ذریعے ہمیں صرف دوسروں کی شخصیات سے ہی تعارف حاصل نہیں ہوتا بلکہ ان میں موجود الفاظ مصنفہ کی شخصیت کا دلکش خاکہ بھی ہمارے سامنے رکھتے ہیں ۔ اس کتاب کے آئینے میں مصنفہ ایک ہمدرد ، مخلص ، اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی مالک اور عمدہ معاشرتی اقدار کی دل دادہ کے طور پر سامنے آتی ہیں ۔ جن کا دل رشتوں ، تعلقات ، وطن اور انسانیت کی محبت سے لبریز ہے ۔ جس کے لیے اپنوں کی جدائی شاک اور خلا پیدا کرنے کا باعث ہے ۔ معاشرے کی بےحسی اور انسان کی بےبسی انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ ادب اور ادبی شخصیات سے محبت ان کی زندگی کا جزوِ لا ینفک ہے ۔ جو عزیمت اور حوصلے کی عمدہ مثال ہیں ۔
منفرد ، خوب صورت اور معیاری اور عمدہ اقدار کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی کتاب کی اشاعت پر مصنفہ رباب عائشہ صاحبہ اور ادارہ پریس فار پیس کو بہت مبارک ہو ۔۔اللّٰہ تعالیٰ مزید عروج اور کامیابیاں عطا فرمائے
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.