ڈاکٹر محبوب کاشمیری کی سالگرہ پرعظیم الشان محفل مشاعرہ کا انعقاد بھمبرآزادکشمیرکی ادبی فضا میں ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔
اکتیس جنوری کو بھمبر میں ایک عظیم الشان مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ مشاعرہ اس حوالے سے بھی منفرد تھا کہ اس نے بھمبر میں موجود ادبی جمود کو توڑا۔ یہ بھمبر کی ادبی تاریخ کا پہلا اس سطح کا مشاعرہ تھا کہ جس میں پاکستان کے نامور شعراء نے شرکت کی۔
آزاد جموں کشمیر کے دیگر اضلاع میں سلسلہ وار مشاعرےہوتے رہتے ہیں ۔ ان اضلاع میں باقاعدہ ادبی ماحول ہے۔ لیکن بھمبر ریاست کا ضلع ہونے کے باوجود اس طرح کے ماحول سے بالکل ہی دور تھا۔ بھمبر میں موجود اس جمود کو بھمبر کے موجودہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر محبوب کاشمیری نے توڑا۔
ڈاکٹر محبوب کاشمیری ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ انہوں نے 31 جنوری کو اپنی سالگرہ کی مناسبت سے محفلِ مشاعرہ کا انعقاد کیا ۔ جس کی صدارت جناب عباس تابش نے کی ۔ اور اس کے مہمانِ خصوصی سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق تھے۔
معز ز شعرائے کرام میں معروف شاعر جناب شکیل جاذب ، جناب انجم سلیمی ، احمد فرید، رانا سعید دوشی، ڈاکٹر اعجاز کشمیری، عطاس احمد عطاس، پروفیسر فیضان جرال اور مس الماس یونس تھیں۔
اس مشاعرے کی سب سے بڑی بات اس کے کثیر تعداد میں سامعین تھے۔ جن میں خواتین کو برتری حاصل تھی۔ مشاعرے کے لیے ہال میں معزز شعرائے کرام کا کلام آویزاں کیا گیا تھا۔
داخلی دروازے پر عباس تابش کا یہ شعر آویزاں تھا کہ:
مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
بھمبر مشاعرے کے سامعین سے ہال بھر گیا
ہال سامعین سے مکمل بھر گیا تھا۔ میزبان مشاعرہ ڈاکٹر محبوب کاشمیری مہمانِ خصوصی کیساتھ ہال میں تشریف لائے۔ نظامت کے فرائض نوجوان نعمان انجم نے ادا کیے۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلامِ پاک سے ہوا ۔ جس کا شرف حافظ عاطف امانت نے حاصل کیا۔ مہمان نوجوان شاعر عطاس احمد عطاس نے اپنے کلام سے خوب سماں باندھا:
ُدھوپ میں کام یہ آتے ہیں بنا اجرت کے
اس لیے پیڑ لگاتے ہیں بنا اجرت کے
زندگی نام کے اِس دشت میں جو بھی آئے
ہم اسے راہ دکھاتے ہیں بنا اجرت کے
ہم سے مزدور زمانے میں کہاں ہوتے ہیں
جو تجھے روز ہنساتے ہیں بنا اجرت کے
کیا بتائیں کہ اب اُس طاق سے کیا نسبت ہے
کیوں وہاں دیپ جلاتے ہیں بنا اجرت کے
تم کسی گیت کو گا لو کہ سدا زندہ رہے
ہم کوئی ساز بناتے ہیں بنا اجرت کے
تجھ سے منسوب اِسی طور ہمیں ہونا ہے
لا ترا بوجھ اٹھاتے ہیں بنا اجرت کے
کس کو آواز لگاتے ہیں یوں اعطاس احمد؟
کس کو آواز لگاتے ہیں بنا اجرت کے؟
ڈاکٹر اعجاز کشمیری
بھمبر سے تعلق رکھنے والے مقامی شاعر ڈاکٹر اعجاز کشمیری نے اپنا کلام پیش کیا، سامعین سے خوب داد سمیٹی:
موجود ہے ہستی میں وہ شر کیوں نہیں جاتا
انساں بے بسی اپنی سے ڈر کیوں نہیں جاتا
تربت میں چلی جاتی ہے شادی کو بچاتے
کلچر یہی تربت میں اتر کیوں نہیں جاتا
تتلیاں چپ ہیں گلستاں خاموش
رنگ سب ہیں مگر سماں خاموش
کیا ہے اعجازؔ چھوڑ لوگوں کو
حد تو یہ ہے کہ گلستاں خاموش
جانتا ہوں میں ریت کے تیور
زیست میں بادیہ نشینی ہے
کتنا بھاگو گے خود گزینی سے
شاعری بھی تو خود گزینی ہے
عہدِ نو میں بھی دوپتے کا سِحر قائم ہے
آج بھی ہے حسنِ تہذیب سحرِ دوپٹہ
پروفیسر فیضان جرال
ان کے بعد مقامی شاعر پروفیسر فیضان جرال اپنا کلام سنانے تشریف لائے انہوں نے سامعین کا ذوق تازہ کرتے ہوئے خوب داد سمیٹی:
وہ میرے دل میں یوں اترآیا
اک مسافر تھا اپنے گھر آیا
اس نے بھی آنکھ بھر کے دیکھا تھا
سارا الزام میرے سر آیا
میں اسے دل کی بات کہہ دوں گا
میری باتوں میں وہ اگر آیا
مان جا احتیاط لازم ہے
مشکلوں سے وہ راہ پر آیا
ڈاکٹر محبوب کاشمیری
میزبان مشاعرہ ڈاکٹر محبوب کاشمیری اپنا کلام سنانے آئے۔ انہوں نے اپنی سالگرہ کو منانے کے حوالے سے جس خوبصورت محفلِ مشاعرہ کا انعقاد کیا تھا۔ اسی میں خوبصورت کلام سنا کر خوب داد سمیٹی۔ ان کی ہر غزل ایک سے بڑھ کے ایک تھی۔
میں بےوفائی سے اس کو بچانا چاہتا تھا
اسی لئے تو اسے چھوڑ جانا چاہتا تھا
یہاں خوشی نہیں ، خوشحالی کھینچ لائی مجھے
میں اپنے گاؤں میں رہ کر کمانا چاہتا تھا
میں اس کے شہر میں بالکل نیا نیا تھا ابھی
وہ یوں ملا مجھے ، جیسے پرانا چاہتا تھا
ابھی ابھی مرے ہاتھوں سے گر گیا لقمہ
ابھی ابھی میں اسے یاد آنا چاہتا تھا
وہ میری نیند سے جانے کدھر نکل گیا ہے
میں اپنے خواب اسے بھی دکھانا چاہتا تھا
اسی درخت کے سائے میں تھک کے بیٹھ گیا
میں جس کو کاٹ کے کرسی بنانا چاہتا تھا
احمد فرہاد
میزبان مشاعرہ کے بعد مشہور شاعر جناب احمد فرید صاحب اپنا کلام سنانے تشریف لائے ان کے منفرد اندازِ شعر گوئی نے سماں باندھ دیا۔
عصرِ عاشور سے اس عرصہِ شب تک اب تک
استغاثے کی صدا آتی ہے سب تک اب تک
در سے دوری کا سبب کچھ بھی ہو پر شہر کے بیچ
لوگ پہنچے ہی نہیں رحمتِ رب تک اب تک
اہلِ ایماں پہ ہوئی جن کی محبت واجب
ہم نہیں سیکھ سکے ان کا ادب تک اب تک
چودہ سو سال میں دعوی تو بہت سوں نے کیا
کوئی پہنچا نہیں اک مردِ عجب تک اب تک
ہم نے ان کو بھی سند ابنِ سند مان لیا
جن کا معلوم نہیں نام و نسب تک اب تک
کوئی لبیک کہے یا نہ کہے پر احمد
استغاثے کی صدا آتی ہے سب تک اب تک
شکیل جاذب
بین الاقوامی شہرت کے حامل شاعر جناب شکیل جاذب کو کسی مصروفیت کی وجہ سے جلدی جانا تھا انہوں نے سامعین پر اپنا کلام سنا کر سحر طاری کر دیا
پڑاؤ رات کا تھا زندگی کا تھوڑی تھا
بلا رہی ہے جرس کی صدا خدا حافظ
وہ میرے سانس کی صورت تھا میرے سینے میں
پھر اک دن اس نے اچانک کہا خدا حافظ
بدل چکا ہے زمانہ بھی اور مبزل بھی
مسافرانِ رہِ عشق کا خدا حافظ
بدن سے جاں نکلتی ہے اس خیال سے بھی
اور ایک تم ہو کہ جاذب کہا خدا حافظ
رانا سعید دوشی
ان کے بعد خوبصورت لب و لہجے کے مالک شاعر جناب رانا سعید دوشی نے سامعین کے دلوں کو خوبصورت شاعری سے گرمایا ان کی ایک مشہور تھی کہ
کیوں کرتا ہے کم ظرفوں سے تو تکرار سمندر
جیسے گزرے خاموشی سے وقت گزار سمندر
ایسے دیکھا کرتا تھا میں اسکی جھیل سی آنکھیں
جیسے کوئی دیکھ رہا ہو پهلی بار سمندر
آج نہ جانے دونگا تجھ کو اپنی آنکھ سے باہر
دھاڑیں مار سمندر چاھے ٹھاٹھیں مار سمندر
صحرا پار کیا ہے میں نے کر کچھ سر کاصدقہ
مجھ پر وار سمندر کوئی ٹھنڈا ٹھار سمندر
جنم جنم کی پیاس بھری ہے میری اس مٹی میں
میرے ذرے ذرے کو ہے اب درکار سمندر
جتنی آسانی سے تجھ کو میں نے پار کیا ہے
کیا تو ایسےکر سکتا ہے مجھ کوپار سمندر
اک بحر مردار کی صورت اور اک بحرالکاہل
میرے ساتھ کہاں تک چلتے یہ بیمار سمندر
میں سیراب کروں صحراؤ میری آنکھ میں آؤ
پیاس تمھاری ہے ہی کتنی بس دو چار سمندر
انجم سلیمی
محترم انجم سلیمی جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں انہوں نے بہت عمدہ شاعری سنائی اور سامعین سے خوب داد سمیٹی
سخت مشکل میں ہجر نے کیا آسان مجھے
دوسرا عشق ہوا پہلے کے دوران مجھے
میں محبت بھی محبت کے عوض دیتا ہوں
پھر بھی ہو جاتا ہے اس کام میں نقصان مجھے
خاک چھانی نہ کسی دشت میں وحشت کی ہے
میں نے اک شخص سےعجلت میں محبت کی ہے
خود کو دھتکار دیا میں نے تو اس دنیا نے
میری اوقات سے بڑھ کے مجھے عزت دی ہے
جی میں آتا ہے میری مجھ سے ملاقات نہ ہو
بات ملنے کی نہیں بات طبیعت کی ہے
آج جی بھر کے اسے دیکھا تو محسوس ہوا
آنکھ نے سورۃِ یوسف کی تلاوت کی ہے
عباس تابش
صدرِ مشاعرہ جناب عباس تابش کلام سنانے آئے تو سامعین نے ان سے اپنے فرمائش کی غزلیں سنانے کا بھی کہا، عباس تابش نے اپنا کلام سنایا:
میں بھی ہوتا تیرے رستے کے درختوں میں درخت
اس طرح دیکھ تو لیتا تجھے آتے جاتے
نشہ مے میں نہیں آنکھوں میں ہوتا ہے
اپنے ہاتھوں سے مجھے زہر پلاتے جاتے
اپنی مٹی کا گناہگار نہیں ہو سکتا
تلخ ہو سکتا ہوں غدار نہیں ہو سکتا
میں نے پوچھا تھا کہ اظہار نہیں ہو سکتا
دل پکارا کہ خبر دار نہیں ہو سکتا
جس سے پوچھیں تیرے بارے میں یہی کہتا ہے
خوبصورت ہے وفادار نہیں ہو سکتا
اک محبت تو کئی بار بھی ہو سکتی ہے
ایک ہی شخص کئی بار نہیں ہو سکتا
اس لیے چاہتا ہوں تیری پلک پر ہونا
میں کہیں اور نمودار نہیں ہو سکتا
یہ جو چہرے ہیں یہاں چاند سے چہرے تابش
یہ میرا عشق مکمل نہیں ہو ہونے دیں گے
یوں ان کے کلام کے بعد محفلِ مشاعرہ اختتام کو پہنچی، یہ اس خاص دن کی تقریب کا تو اختتام تھا لیکن بھمبر کی ادبی فضا میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.