Sunday, April 28
Shadow

میرے غم کو ایک نئی سوچ نیا رخ ملا، ہما  ساجد

تاثرات: ہما ساجد۔

زندگی اور موت کے درمیان کا سفر۔

ازل سے ابد کا سفر۔

کچھ پانے اور کھونے کا سفر۔

بہت سے نئے رشتوں کی شمولیت،

اور بہت ہی پیاروں کے کھونے کا سفر۔

بچپن سے لڑکپن سے بڑھاپے کا سفر۔ 

دن سے رات،  چھاوں سے دھوپ،

اور بہار سے خزاں کا سفر۔

امید اور ناامیدی کا سفر۔

غم اور خوشی کا سفر۔

وہ سفر، جس میں ہر شخص ایک چھاپ چھوڑ جاتا ہے، ھمارے دل، دماغ، شخصیت اور روح پر۔

اک نا ختم ہونے والا طویل سفر،

یا شاید چند لمحوں کا سفر۔

اسی سفر پر، ہم سب نے اپنی زندگی میں بہت سے پیارے رشتوں کو کھویا ۔ ۔ اور ہر مرتبہ دل غم سے بھر گیا ۔۔

ہماری زندگی میں آنے والا  ہر غم، ایک کالے نقطے کی طرح، ہماری آنکھوں، دل، دماغ اور زندگی پر حاوی ہو جاتا ہے اور ہماری، اس سے آگے اور پیچھے دیکھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتا ہے۔ زندگی رک جاتی ہے، اس کالے نقطے کے گرداب میں ۔ ہماری زندگی کی بہت سی خوبصورت یادیں ،  ایک دوسرے کے ساتھ بہترین گزرا ہوے لمحات اور اللہ کی  وہ مہربانیاں، جو بہت عرصے تک اس غم سے پہلے ہم پر رہی اور ساتھ ساتھ آنے والے وقت سے امیدیں۔۔۔ اس غم میں ڈوب جاتی ہیں۔

ہم اس غم میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہ غم، یہ ناامیدی ہم پہ پوری طرح حاوی ہو جاتی ہے۔ ہم صبر مانگتے ہیں لیکن صبر آنے کو آتا ہی نہیں۔۔ دل اور زندگی مایوس ہو جاتی ہے۔ہم ناامید ہو جاتے ہیں۔روح زخمی ہو جاتی ہے۔۔

اور سب سے تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ اللہ جو ہمار ا تخلیق کرنے والا ہے،  ہمارا مالک ہے ہماری روزی رزق کا دینے والا، ہماری حفاطت کرنے والا۔۔۔وہ جو ہمیں امید، محبت، رحمت اور بخشش دیتا ہے۔۔۔اس کی دی ہوئی بشارتیں گم ہو جاتی ہیں ۔ جبکہ ناامیدی،  غم،  دکھ جو شیطان کی طرف سے ہے، ہم پر مسلط ہونے لگتے ہیں ۔۔ 

گزشتہ دنوں میں، میری پیاری نسرین خالہ کی موت نے دوبارہ مجھے اسی غم اور مایوسی کے گرداب میں جکڑ لیا۔۔۔سب قریبی رشتے داروں اور دوستوں نے خالہ کے بارے میں اپنی بہترین یادوں پر بات کی تاکے اپنے غم کو ہلکا کر سکیں۔ لیکن دل ہلکا ہو ہی نہیں رہا تھا۔

وہ نیک،  پاکیزہ، خوش لباس، خوش اخلاق، نرم دل،  نرم گو، رشتوں کو جوڑنے والی، اللہ سے ڈرنے والی،  حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معاملوں کی فکر کرنے والی،اپنے سے جڑے رشتوں کو احسن طریقے سے چلانے والی ، اپنے شوہر سے محبت اور عزت کرنے والی،  اپنی اولاد کی اللہ کے راستے پر تربیت کرنے والی، غریبوں کی مدد کرنے والی، خدمت گزار، کھانا کھلانے والی،  احسان کا معاملہ رکھنے والی، خوبصورت اور انتہائی خوب سیرت تھیں۔

ان کی گواہی میں جتنا لکھوں کم ہے۔۔اپنے آپ کو جتنی تسلی دوں کم ہے۔ ان کے جانے کی جلدی کا غم ہے۔ ان کہی باتوں اور ادھورے معاملات کا غم ہے۔ خالو، علی اور مریم کا غم ہے۔ ان سےجڑےہر رشتے کےغم میں میرا غم  ہے۔ 

لیکن ان تکلیف دہ لمحات میں، ایک تحریر نے میرے غم کی اس تکلیف دہ گھڑی میں، میری سوچ کو ایک نیا رخ دیا۔ میرے غم کا مداوا کیا۔ الحمداللہ 

*ایک عربی پوسٹ کا ترجمہ* 

ہم کیوں قبر کی نعمتوں کے بارے میں بات نہیں کرتے، ہم یہ کیو‌ں نہیں کہتے کہ وہ سب سے بہترین دن ہو گا جب ہم اپنے رب سے ملیں گے۔ ہمیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جب ہم اس دنیا سے کوچ کریں گے تو ہم ارحم الراحمین کی لامحدود اور بے مثال رحمت اور محبت کے سائے میں ہوں گے، وہ رحمان جو ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو دیکھا جو اپنا پاؤں اپنے بچے پر رکھنے سے بچا رہی تھی، تو آپ نے صحابہ سے فرمایا “بے شک ہمارا رب ہم پر اس ماں سے کہیں زیادہ مہربان ہے”

ہم کیوں اس بات پر مصر ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صرف عذاب ہی دے گا، ہم یہ کیوں نہی سوچتے کہ ہمارا رب ہم پر رحم کرے گا۔

جب قبر میں مومن صالح سے منکرنکیر کے سوال جواب ہو جائیں گے تو ہمارا رب کہے گا “میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لئے جنت کا بچھونا بچھاؤ، اس کو جنت کے کپڑے پہناؤ اور جنت کی طرف سےاس کے لئے دروازہ کھول دو اور اس کو عزت کے ساتھ رکھو۔ پھر وہ اپنا مقام جنت میں دیکھے گا تو اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرے گا :پروردگار قیامت برپا کر تا کہ میں اطمینان کے ساتھ جنت چلا جاؤں۔ (احمد، ابوداوود)

ہمارا عمل صالح ہم سے الگ نہ ہو گا اور قبر میں ہمارا مونس اور غمخوار ہو گا۔

جب کوئی نیک آدمی وفات پا جاتا ہے تو اس کےتمام رشتہ دار جو دنیا سے چلے جا چکے ہیں، ان کی طرف دوڑیں گے اور سلام کریں گے، خیر مقدم کریں گے۔

اس ملاقات کےبارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “یہ ملاقات اس سے کہیں زیادہ خوشی کی ہو گی جب تم دنیا میں اپنے کسی عزیز سے طویل جدائی کے بعد ملتے ہو۔ اور وہ اس سے دنیا کے لوگوں کے بارے میں پوچھیں گے۔ ان میں سے ایک کہے گا اس کو آرام کرنے دو یہ دنیا کے غموں سے آیا ہے۔ (صحیح الترغیب لالبانی)

موت دنیا کے غموں اور تکلیفوں سے راحت کا ذریعہ ہے۔ صالحین کی موت درحقیقت ان کے لئے راحت ہے۔ اس لئے ہمیں دعاء سکھائی گئی ہے ۔۔ 

*اللھم اجعل الموت راحة لنا من كل الشر*..

(اے اللہ موت کو ہمارے لئے تمام شروں سے راحت کا ذریعہ بنا دے)۔

موت زندگی کا دوام ہےاور یہ حقیقی زندگی اور ہمیشہ کی نعمتوں کا دروازہ ہے۔

روح جسم میں قیدی ہے اور وہ موت کے ذریعے اس جیل سے آزاد ہو جاتی ہے اور عالم برزخ کی خوبصورت زندگی میں جہاں مکان و زمان کی کوئی قید نہیں ہے، رہنا شروع کرتی ہے۔

ہم کیوں موت کو رشتہ داروں سے جدائی، غم اور اندوہ کے طور پر پیش کرتے ہیں،

کیوں نہیں ہم یہ سوچتے کہ یہ اپنے آباواجداد، احباب اور نیک لوگوں سے ملاقات کا ذریعہ ہے۔

قبر سانپ کا منہ نہیں ہے کہ آدمی اس میں جائے گا اور سانپ اس کو چباتا رہے گا بلکہ وہ تو حسین جنت ہے جو ہمارے انتظار میں ہے۔

اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنے اوپر خوف طاری مت کرو ۔

اللہ نے ہمیں عذاب کے خاطر پیدا نہیں کیا ہے۔ اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ کی رضا کے کام کون سے ہیں اور ناراضگی کے کون سے ہیں اور ہم دنیا میں آزاد ہیں جو چاہے کریں۔

*اللھم اجعل خیر اعمالنا خواتیمھا وخیر اعما رنا او اخرھا وخیرا یامنا یوم ان نلقاک* 

*(اے اللہ ہمارے اعمال کا خاتمہ بالخیر کریں، ہماری آخری عمر کو بہترین بنا دیں اور سب سے بہترین دن وہ جس دن آپ سے ملاقات ہوگی۔ آمین)*** 

میں چایتئ ہوں کہ  ہم سب اس بارے میں ضرور سوچیں۔۔۔

یہ موت، تو ایسے ہے جیسے ہم اس دنیا سے کہیں اور چلے گئے، اپنی زندگی کی بہتری کے لئے،  جہاں صرف کمیونیکیشن کی سہولت موجود نہیں۔

لیکن  ہمارے ہم سے پہلے جانے والے اور ہمارے بعد آنے والے ہمیں اس نئی  بہترین جگہ پر ہی ملیں گے ۔۔۔۔ انشاءاللہ 

وہ وقت جس پر پیارے جاتے ہیں، وہ تو صرف ہمارے وقت کے چند لمحوں یا تھوڑے دنوں کی تکلیف کا ہوتا ہے۔۔

ہم نے جو بہت عرصے ساتھ گزارا ہوتا ہے اس کو یاد کر کے خوش ہونا چاہئے۔۔آنے والے مستقبل میں ان لوگوں کی زندگی کے اعمال کو دہرا  کر اور اپنا کے اپنے دنیا کی زندگی اور آخرت کی تیاری کو بہترین بنانا چاہیے۔ اس حقیقت کو سمجھ کر احسن طریقے سے تیاری کرنی چاہیے۔

اس تھوڑے سے وقت کی جدائی نے تو آنا ہی تھا کیونکہ اس کے بارے میں تو ہمارے بنانے والے نے، ہمیں بناتے ہوئے ہی طے کر دیا تھا۔۔

اگر ہم اس کے خوف اور غم سے نکل جائیں تو ھمارا سفر اللہ کے طریقے پر رہتے ہوئے بہترین ہو سکتا ہے۔

یہ سارا  کچھ میں سوچتی ہوں۔ پتہ نہیں ٹھیک ھے کہ غلط۔۔۔

لیکن یہ سوچ ۔۔۔ مجھے رب کی رضا میں راضی ہونا سکھا رہی ہے۔ غم کے ساتھ امید دے رہی ہے۔ میرےاندر آنے والے خلا کو پر کر رہی ہے۔۔۔ مجھے شکر گزار بنا رہی ہے۔ اپنے  پیاروں کے ساتھ خوبصورت گزرے ہوئے لمحات کے بارے میں، جو اللہ نے ہمیں بنا مانگے  عطا کیے اور اللہ کی رحمت اور امید سے بھرے ہو آنے والے مستقبل کے بارے میں۔

اور  پھر اگر  میری بات آپ کے دل پر لگتی ہے  تو غم میں ڈوبے ہوئے اپنے پیاروں اور دوستوں کو اللہ کی رحمت اور امید کی طرف لے کے جائیں،  اللہ کا شکر کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا حوصلہ دلائیں،  اپنے خالق سے ملنے کی بشارتیں بتائیں۔۔۔روح کے زخموں کو بھر دیں۔۔۔اپنےاس دنیا سے گئے ہوئے پیاروں کی زندگی میں کیے ہوئے بہترین عمل کو  اپنائیں  اور  دوسروں کو بھی سبق دیں، ہماری زندگی اور آخرت کی رہنمائی کیلئے ۔۔۔

یہ ہمارے زخم کی بھرائی کرے گا۔

کیونکہ یہ امید ہی ہم سب پر اچھا اثر لائےگا ۔۔اپنے جانے والے پیاروں کے اگلے سفر کو آسان بنائے گا اور پیچھے رہ جانے والوں کو بھی اگلے سفر کے لیے نیک اعمال کے ساتھ تیار کرے گا ۔۔۔

امید ہے میری یہ چھوٹی سی کاوش آپ کی سوچ کو بھی ایک نیا رخ دے گی۔۔۔صبر دے گی۔ اپنے خالق اپنے رب۔۔۔ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے پروردگار کے فیصلے کی حکمت کا فہم دے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact