تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن
اس وقت اقتصادی بحران کی بنیادی وجہ ادائیگیوں کا توازن ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، افراط زر میں بے تحاشہ اضافہ، آئی ایم ایف سے بار بار رجوع، سٹیٹ بنک کا آئی ایم ایف کا باج گزار بننا، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تحت شرح سود میں اضافہ اور پھر شرح سود میں اضافے کے مضمرات، ان سب کے پس منظر میں ادائیگیوں کے توازن کا بگاڑ شامل ہے۔
رواں مالی سال میں ادائیگیوں کا توازن کافی بہتر ہوا۔ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں پاکستانی درامدات 30 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہیں، جب کہ برامدات اور ترسیلات زر سے بالترتیب 19 ارب ڈالر اور 13 ارب ڈالر رہیں، اس طرح مجموعی طور پرکرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا، لیکن قرض کی اقساط کے سبب پاکستان کو بدستور مسائل کا سامنا ہے۔ چونکہ قرض کی اقساط اگلے مالی سال میں بھی ادا کرنی ہیں، اس لئے یہ دباؤ آنے والی حکومت کے دور میں بھی برقرار رہے گا۔
کیا اس صورت حال میں بہتری کی گنجائش موجود ہے؟ اسے سمجھنے کیلئے پاکستان کی درامدات کی فہرست پر نظر ڈالتے ہیں۔
دودھ اور دودھ کی مصنوعات:77 ملین ڈالر (21.7 ارب روپے)، گندم : 137 ملین ڈالر (38 ارب روپے)، ڈرائی فروٹ: 10 ملین ڈالر(2.8 ارب روپے)، چائے: 372 ملین ڈالر (104 ارب روپے)، مصالحہ جات: 67 ملین ڈالر (19 ارب روپے)، سویا بین آئل: 85 ملین ڈالر (24 ارب روپے)، پام آئل: 1326 ملین ڈالر (371 ارب روپے)، چینی: 2.5ملین ڈالر (0.7 ارب روپے)، دالیں: 345 ملین ڈالر (96 ارب روپے)، دیگر خوردنی اشیاء: 1059 ملین ڈالر (296 ارب روپے)، کپاس: 519 ملین ڈالر (145 ارب روپے)، مصنوعی ریشے: 293 ملین ڈالر (82 ارب روپے)، ریشم اور اس کی مصنوعات: 384 ملین ڈالر (127 ارب روپے)، تیار ملبوسات: 36 ملین ڈالر (10 ارب روپے)، دیگر ٹیکسٹائل مصنوعات:456 ملین ڈالر (127 ارب روپے)، لکڑ کی مصنوعات:64 ملین ڈالر (18 ارب روپے)، کاغذ ،کارڈ بورڈ، ا ور پلائی ووڈ: 225ملین ڈالر (63 ارب روپے)
ان سب درامدات کی مجموعی مالیت 5.4 ارب ڈالر یعنی دسمبر 2023 کے ایکسچینج ریٹ کے مطابق1528 ارب سے زائد بنتی ہے۔ اگر ہم یہ تصور کریں کہ اگلے 6 ماہ میں بھی درامدات کا رجحان یہی رہے گا تو مذکورہ بالا زرعی اجناس کی درامدات کا کل حجم تقریبا 11 ارب ڈالر یعنی 3000 ارب پاکستانی روپے تک پہنچ جائے گا۔
ان اشیاء میں سے پام آئل اور چائے کےعلاوہ باقی تمام اجناس کی پیداوار کے لیے مطلوبہ مہارت ، ٹیکنالوجی، مناسب زمین، اور موسم سبھی کچھ پاکستان میں موجود ہے۔ پام آئل اور چائے کی کاشت کیلئے بھی پاکستان میں موزوں علاقے موجود ہیں، لیکن فی الحال ان کیلئے درکار مہارتیں وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں۔
مذکورہ بالا اجناس کی وسیع تر پیداوار کیلئے درکار تمام تر وسائل دستیاب ہونے کے باوجود ان کے درآمد کئے جانے کا مطلب صرف یہی ہے کے ہم نے زراعت پر مناسب توجہ نہیں دی۔ مذکورہ بالا تمام اشیاء جن کی پیداورا کی ہم صلاحیت رکھتے ہیں، اگر یہ اشیاء درآمد نہ کی جائیں ہوتیں تو دائیگیوں کے توازن میں مزید 10 ارب ڈالر کی بہتری ممکن ہے، اور اگر ایسا ہو جائے تو زرمبادلہ کے ذخائر بھی بہتر ہو جائیں اور آئی ایم ایف کے در پر کشکول لئے نہ جانا پڑے۔
مذکورہ بالا اجناس سے متعلق اچھی بات یہ ہے کہ مذکورہ درامدات کی اکثریت زراعت سے تعلق رکھتی ہے، اور ہم محض چند مہینوں میں ان کی پیداوار حاصل کر کے نہ صرف اپنی درامدات کو اسی تناسب سے کم کرسکتے ہیں، بلکہ ان کا برآمد کیا جانا بھی ممکن ہے تاکہ اگلی مرتبہ آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنا پڑے۔
مندرجہ بالا معروضات کی بنا پر میرا موقف یہ ہے کہ زرعی ایمرجنسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جہاں جہاں زرعی زمینیں بیکار پڑی ہیں، انہیں فوری طور پر کاشت کروایا جانا چاہئے، بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے اور فی ایکڑ پیداوار میں بہتری کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جو لوگ وسائل کے باوجود اپنی ملکیتی زرعی زمینوں کو آباد نہ کریں، ان پر بھاری جرمانے عائد کئے جانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ وسائل اگر اس نازک صورتحال میں بھی ملک کے کام نہیں آرہے تو ان کی ملکیت کا حق جتانے کی کسی کو کیوں اجازت ہے؟
زرعی پیداوار میں بہتری کیلئے اس وقت پنجاب اور سندھ کی میدانی زمینوں کو گندم، چاول، کپاس اور دیگر اجناس کی کاشت کیلئے مختص کر دینا چاہئے جبکہ مری، پختونخواہ کے پہاڑی علاقے، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو سبزیات کی کاشت کیلئے مختص کر دینا چاہئے۔ فی الحال تو بالائی پاکستان بھی جنوبی پاکستان کی زرعی پیداوار پر گزر بسر کر رہا ہے، لیکن ان علاقوں کو بھی پیداوار میں اس سطح تک جانا ہو گا تا کہ یہاں سے پیداوار سے بھرے ہوئے ٹرک جنوبی پاکستان کی طرف بھیجے جائیں۔
اس مقصد کیلئے صرف حکومت ہی نہیں ، افراد بھی نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر ایک کسان اپنی ذاتی ضروریات کیلئے ادرک کی کاشت کرتا ہے تو دراصل وہ پاکستان کی درآمدات میں کمی کے اسباب پیدا کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی ڈیری فارم کے ساتھ ایک بائیو گیس پلانٹ لگاتا ہے تو دراصل وہ پاکستان کی ایندھن کی ڈیمانڈ میں کمی کے اسباب پیدا کرتا ہے، اور اگر کوئی ٹماٹر کا معیاری کیچپ تیار کر کے اسے ایکسپورٹ کرتا ہے تو وہ دراصل اپنی ذاتی معیشت کی بہتری کے ساتھ ساتھ ملکی زرمبادلہ میں بہتری کے اسباب پیدا کر رہا ہے۔
بہتر تو یہ ہے حکومت ان سب افراد کو سہولت فراہم کرے تاکہ ملکی پیداوار میں اضافہ ہو، لیکن اس انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے جتنا بن پڑتا ہے ، معیشت کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرے، اور یہ کردار اپنے عقبی برآمدے میں کچن گارڈن بنانے سے شروع کیا جا سکتا ہے ۔
لیکن بحیثیت قوم ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہےکہ ہم سب بابو بننا زیادہ پسند کرتے ہیں، اور کسان بننا ہمیں پسند نہیں۔ سفید کالر نوکری کے تعاقب نے ہمیں پاگل کر دیا ہے، اور محنت کرنے کو ہم عار سمجھتے ہیں۔جب تک ہم سب کالر میلے ہونے کی فکر کو ترک نہیں کریں گے، بہتری ناممکن ہے۔
مذکورہ بالا تمام اشیاء کی پیداوار کا حصول سالوں نہیں چند مہینوں کا کام ہے۔ آج اگائی گئی فصلیں 3 سے 6 ماہ میں پیداروار دینے کے قابل ہو سکتی ہیں اور اگلے مالی سال کیلئے ہم ان ہی اشیاء کو درآمد کی بجائے برامد کرنے کی پوزیشن میں بھی آسکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اس بے توقیری کو محسوس کریں جو آج تک ہماری ہوچکی، اور اس کو محسوس کرتے ہوئے ہم آئندہ کیلئے اس کے ازالہ کیلئے سب ہر ممکن اقدام کا عزم کر لیں۔
ہم سب کی مشترکہ خامیوں نے حکمرانوں سمیت ساری قوم کو آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز کر دیا، لیکن موجودہ سخت ترین صورتحال کو صرف 6 ماہ میں بدلنا ممکن ہے۔ اس کا واحد طریقہ کار یہی ہیکہ محنت کو اپنا شعار بنائیں اور اپنی اپنی معیشت بہتر بنائیں، ملکی معیشت بھی بہتر ہو جائے گی۔
زراعت کو ترجیح قرار دینے کا یہ مطلب نہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے جدید علوم پر توجہ کم کر دی جائے۔ جو شخص انفارمیشن ٹیکنالوجی، یا کسی دیگر جدید فن میں مہارت رکھتا ہے، وہ ضرور اپنے فن کو استعمال کر کے پیداواری عمل میں حصہ لے۔ جب اللہ تعالی آپ کو توفیق دے کے آپ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر کے وہاں سے ہزاروں ڈالر کمائیں تو آپ ضرور اس طرف جائیے، لیکن اس انتظار میں کہ کب آپ کا سافٹ ویئر ہاؤس کا منصوبہ تکمیل کو پہنچے گا، اپنے آج کو ضائع مت کیجئے۔ آپ کا وقت اور وسائل اگر قوم کیلئے استعمال نہیں ہو رہے، تو آپ صرف صارف ہیں اور معاشرے پر بوجھ ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.