تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن
افراط زر اقوام عالم کے لیے ایک بڑے مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے، اور موجودہ زمانے میں مانیٹری پالیسی کی تشکیل کا بنیادی مقصد افراط زر ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ افراط کیسے ہوتا ہے، بنیادی طور پر کسی بھی شے کی قیمتیں اس کی سپلائی اور ڈیمانڈ پر منحصر ہوتی ہیں۔ اگر معیشت میں کسی شے کی ڈیمانڈ بڑھ جائے تو اس کی قیمت بڑھ جائے گی اور ڈیمانڈ کم ہو جائے تو قیمت بھی کم ہو جائے گی۔ اس کے برعکس اگر سپلائی میں اضافہ ہو جائے تو قیمتوں میں کمی ہوگی اور سپلائی میں کمی سے قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔
مختصرا یہ کہ قیمتیں سپلائی اور ڈیمانڈ دونوں کے توازن سے طے ہوتی ہیں، اس لیے انہیں سپلائی اور ڈیمانڈ دونوں طرح سے مینج کرنا ممکن ہونا چاہیے۔ لیکن عالمی سطح پر افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے نمایاں ترین حربہ مانیٹری پالیسی ہے جو صرف ڈیمانڈ سائیڈ کو مدنظر رکھ کر ترتیب دی جاتی ہے۔ لیکن اکثر اوقات مانیٹری پالیسی یا تو افراط زر کو کنٹرول نہیں کر پاتی یا وقت کے تقاضوں سے مطابقت نہ رکھنے کی بنا پر نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ اگر مانیٹری پالیسی کسی ایک مقصد کے حصول میں کامیاب ہو تو دوسرے مقصد کو نقصان پہنچائے گی۔
تاریخی طور پر مانیٹری پالیسی کے مقاصد میں افراط زر کے علاوہ معاشی ترقی اور روزگار کے مقاصد بھی شامل رھے، لیکن حالیہ چند دہائیوں میں سینٹرل بینکنگ کے قوانین میں مانیٹری پالیسی کے دوسرے دونوں مقاصد کو نظر انداز کر کے افراط زر کو غیر معمولی ترجیح دی گئی۔ اس غیر فطری قانون سازی کی وجہ سے اقوام عالم کو متعدد بار ضرورت پڑی کہ مانیٹری پالیسی کے قوانین کو پس پشت ڈال کر دیگر مقاصد پر توجہ مرکوز کی جائے۔
مروجہ مانیٹری پالیسی میں افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے بنیادی ہتھیار شرح سود کو تصور کیا جاتا ہے۔ شرح سود میں اضافہ روزگار اور معاشی ترقی پر منفی اثرات کا باعث بنتا ہے۔
لیکن عجیب اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی روایات میں ایک ایسا فائننشل انسٹرومنٹ موجود ہے، جو مانیٹری پالیسی کے سبھی مقاصد کو بیک وقت حاصل کر سکتا ہے اور ان میں کوئی تضاد پیدا کیے بغیر سبھی کا بیک وقت حصول ممکن بناتا ہے۔ یہ فائنانشل انسٹرومنٹ سلم کہلاتا ہے۔ سلم سے مراد خریداری کا ایسا معاہدہ ہے جس میں خریدار بیچنے والے کو پیشگی رقم ادا کرتا ہے تا کہ وہ اس کے لیے مال تیار کر سکے۔ مثلا فرض کیجئے میں ایک بڑے کھیت میں زعفران اگانا چاہتا ہوں، لیکن میرے پاس مطلوبہ رقم دستیاب نہیں ہے۔ میں ایک ایسے ادارے سے رابطہ کرتا ہوں جو سلم کی بنیاد پر فائنانسنگ کرتا ہے، وہ ادارہ مجھے 10 ملین کی فائنانسنگ کرتا ہے اور اس کے عوض میں نے چھ ماہ کے اختتام پر ان کو ایک ٹن خالص زعفران فراہم کرنی ہے۔ یہ معاہدہ سلم کہلاتا ہے۔
میں نے معاہدہ کے مطابق فصل کے تیار ہونے پر خریدار کو ایک ٹن زعفران مہیا کرنی ہے۔ فرض کریں کہ میں ایک ٹن کے بجائے 10 ٹن پیداوار حاصل کر لیتا ہوں تو خریدار کو ایک ٹن فراہم کرنے کے بعد باقی پیداوار میری ذاتی ملکیت ہو گی، اسے میں اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی طرح سے استعمال میں لا سکتا ہوں۔
حدیث میں سلم کی اصطلاح زرعی پیداوار کے لیے استعمال ہوتی ہے جبکہ صنعتی پیداوار کے لیے استصناع کی اس اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور دونوں کی شرائط میں معمولی فرق ہے
سلم فائنانسنگ کو موجودہ دور کی مانیٹری پالیسی کے متبادل کے طور پر مانیٹری پالیسی کے تمام تر مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا مانیٹری پالیسی کے مقاصد میں افراط زر پر کنٹرول، روزگار اور معاشی ترقی شامل ہیں۔ فرض کریں میں ایک سرکاری مالیاتی ادارے کا ذمہ دار ہوں اور ازاد کشمیر میں معاشی ترقی بڑھانا چاہتا ہوں، تو اس کا اسان طریقہ یہ ہے کہ میں سلم کی بنیاد پر آزاد کشمیر کے 10 ہزار نوجوانوں کو مختلف اشیاء کی پیداوار کے لیے پیشگی رقوم ادا کروں اور ان رقوم کے عوض یہ نوجوان اپنی پیداوار میں سے معین مقدار چھ ماہ کے اختتام پر سرکاری خزانے میں جمع کرنے کے پابند ہوں۔ معاہدے کو بامقصد اور مفید بنانے کے لیے اسے شخصی ضمانت کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے تاکہ رقوم وصول کرنے والا معاہدے کی شرائط سے انحراف نہ کر سکے۔ اگر ازاد کشمیر کے 10 ہزار جوان نئی کاروباری سرگرمی شروع کرتے ہیں تو اس سے ازاد کشمیر میں معاشی ترقی میں ایک دم سے بہتری آئے گی۔ یہ سب لوگ نہ صرف خود روزگار حاصل کریں گے، بلکہ یہ اپنے ساتھ ملازمین کو بھی انگیج کریں گے اس طرح مجموعی طور پر بے روزگاری کی شرح میں نمایاں فرق پڑے گا۔ چنانچہ یہ سادہ پالیسی دو مقاصد یعنی معاشی ترقی اور روزگار کے حصول کے لیے اسانی سے کام کر سکتی ہے۔
مانیٹری پالیسی کا تیسرا مقصد افراط زر پر کنٹرول ہوتا ہے اور مروجہ مانیٹری پالیسی میں ڈیمانڈ میں کمی کر کے افراط زر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈیمانڈ میں کمی کی اس کوشش میں روزگار اور ترقی دونوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس کے بر عکس سلم کی بنیاد پر ترقی اور روزگار کے ساتھ کم افراط زر کا ہدف بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اگر سرکار سلم کی بنیاد پر لوگوں کو فائنانس کرے تو
- مجوزہ پیداوار کی ایک بڑی مقدار کی قیمت سلم کا معاھدہ کرتے وقت طے کر لی جائے گی جو قیمتوں کے استحکام میں معاون ہو گی۔
- معاہدے کی مدت کی تکمیل پر حکومت کے خزانے میں اشیائے پیداوار کا بڑا ذخیرہ موجود ہوگا اور حکومت اسے اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت کر کے افراط زر کو کنٹرول میں رکھ سکتی ہے۔ اگر کسی شے کی قیمت میں اضافہ ہو جائے تو حکومت اپنے خزانے سے اشیاء کو سستا فراہم کر کے افراط زر پر قابو پا سکتی ہے اور اس کے برعکس اگر کسی شے کی پیداوار زیادہ ہو اور زیادہ پیداوار کی وجہ سے کاشت کار کو مناسب قیمت نہیں مل رہی تو ایسی صورت میں حکومت خود اشیاء کو خرید کر قیمت کو بہتر بنانے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔
خود مختار حکومت کے پاس کرنسی کو پرنٹ کرنے کا اختیار موجود ہوتا ہے، اس لیے ٹیکس جمع کیے بغیر بھی حکومت معیشت کو چلا سکتی ہے، جیسا کہ دبئی وغیرہ میں انکم ٹیکس نہ ہونے کے باوجود بہت اچھی حکومت چل رہی ہے۔ لیکن عموما حکومتیں بہت زیادہ کرنسی پرنٹ کرنے سے اجتناب کرتی ہیں، اس لیے کہ ایسا کرنے میں افراط زر کے بے قابو ہونے کا خدشہ موجود ہوتا ہے۔ اگر مانیٹری پالیسی کو تفصیل میں مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب حکومت معیشت کو پھیلائے بغیر کرنسی پرنٹ کر کے استعمال کرے تو اس کا لازمی نتیجہ افراط زر ہوتا ہے۔ لیکن اگر حکومت کرنسی اس طرح پرنٹ کرے کہ یہ رقوم معیشت کے پھیلاؤ میں استعمال ہوں، تو اس سے افراط زر پیدا نہیں ہوتا۔ اگر حکومت سلم فائنانس کو مانیٹری پالیسی کا بنیادی ہتھیار تصور کرے اور رقوم پرنٹ کر کے استعمال کرے تو یہ تمام رقوم نئی پیداوار کے لیے استعمال ہو رہی ہوں گی، اس لیے ان سے افراط زر پیدا ہونے کے امکانات بہت کم ہوں گے۔ لیکن زیادہ محتاط رویہ اپناتے ہوئے حکومت یہ آپشن استعمال کر سکتی ہے کہ سلم کے معاہدات کے تحت فراہم کی جانے والی رقوم میں کچھ حصہ کرنسی پرنٹنگ کا شامل ہو جبکہ دیگر اکثریتی حصہ حکومت کے باقی زرائع امدن سے حاصل شدہ ہو۔
مانیٹری پالیسی کے بنیادی آپریشنز میں منی سپلائی کا انجیکشن injection اور موپ اپ mop up شامل ہوتے ہیں۔ انجیکشن سے مراد ہے معیشت میں کرنسی کی مقدار کو بڑھانا اور اس کے لیے اوپن مارکیٹ اپریشن استعمال کیے جاتے ہیں۔ موپ اپ سے مراد ہے معیشت سے کرنسی کو کم کرنا ہے اور یہ بھی اوپن مارکیٹ اپریشن کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں کام سلم کی بنیاد پر کئے جا سکتے ہیں۔ انجیکشن کیلئے لوگوں کو بڑے پیمانے پر سلم کی بنیاد پر رقوم دی جا سکتی ہیں، اور موپ اپ کیلئے حکومت کے خزانے میں موجود اشیاء کو سستے داموں فروخت کیا جا سکتا ہے۔
اوپن مارکیٹ اپریشن میں بنیادی طور پر حکومت کے ساتھ چند مالیاتی ادارے لین دین میں حصہ لیتے ہیں اس لیے ان اپریشن سے حاصل شدہ فوائد بنیادی طور پر ان چند اداروں تک محدود رہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر حکومت سلم فائنانس کو بنیادی مانیٹری اپریشن تسلیم کرے تو حکومت کی ڈیلنگ چھوٹے صنعتکاروں یا ذمینداروں کے ساتھ ہو گی، اس میں حکومت کے ساتھ چند مخصوص مالیاتی اداروں کی بجائے ہزاروں یا شاید لاکھوں کی تعداد میں چھوٹے صنعتکار اور زمیندار شامل ہوں گے۔ اس طرح مالیاتی اپریشن کے فوائد چند ہاتھوں تک محدود رہنے کی بجائے گراس روٹ لیول تک ٹرانسفر ہو سکیں گے۔
سلم فائنانس کو مانیٹری پالیسی کا بنیادی انسٹرومنٹ بنانے سے اس بات کے امکانات کم ہو جائیں گے کہ مانیٹری ایکسپینشن سے افراط زر پیدا ہو، اس لیے کہ مانیٹری ایکسپینشن بنیادی طور پر اضافی پیداوار کے لئے ہو گا، اور پیداوار پر مبنی مانیٹری ایکسپینشن افراط زر کا سبب نہیں بنتا۔
چنانچہ ہزاروں سال پہلے جس فائنانشل انسٹرومنٹ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سند جواز عطا کی ، وہ آج کی مانیٹری پالیسی سے کہیں بہتر مانیٹری پالیسی کے مقاصد کو حاصل کر سکتا ہے اور متعدد اضافی فوائد رکھتا ہے
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.