زندگی خوشیوں اور غموں کی کہانی ہے ۔ زندگی کے کچھ غم اور حادثات ایسے ہوتے ہیں جو لمبے عرصہ تک آپ کے ذہن کے پردے پر رہ کر آپ کو غمگین رکھتے ہیں ۔
والد محترم پروفیسر خالد بزمی کی جدید غزلوں کو منظر عام پر لانا میرے لیےوہ خواب تھا جس کی تعبیر پانے کے لیےمجھے پچیس سال کا عرصہ لگا ۔
ادارہ پریس فار پیس کے زیرا ہتمام یہ خواب جب حقیقت بن کر (آغوش صدف ) کی صورت میں میرے ہاتھوں میں آیا تو یوں لگا جیسے والد محترم میرے سامنے کھڑے مسکرا رہے ہوں ۔اس شاہکار کا مجھے بڑی شدت سے انتظار تھا ۔ میں اس کتاب کی بڑے پیمانے پر رونمائی کروانا چاہتی تھی اور اس سلسلے میں کچھ لوگوں سے رابطے میں بھی تھی ۔
اپنے بڑے بھائی احمد خلدون کو میں نے اس بات پر راضی بھی کر لیا تھا کہ اس کتاب کی رونمائی کے ساتھ ساتھ ہم والد محترم کے نام سے سالانہ ایوارڈز دینے کا آغاز بھی کریں گے ۔ اس پر میں اور بھائی خوش بھی تھے اور پلاننگ بھی کر رہے تھے کہ جولائی میں والد محترم کی برسی کے موقع پر ایک تعزیتی تقریب کے ساتھ (آغوش صدف ) کی رونمائی اور ایوارڈز کا اعلان کیا جاۓ گا ۔
اس تقریب کے لیےجولائی کے مہینے کا آخری اتوار کا دن بھی طے ہو چکا تھا ۔
لیکن زندگی کے معاملات کی کچھ پلاننگ ہم کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ ہمارا پیدا کرنے والا رب ہمارے معاملات میں فیصلے کر رہا ہوتا ہے ۔
جولائی کی آخری اتوار آنے سے پہلے ہی 20 جولائی کو اچانک ہونے والے ہارٹ اٹیک سے میرا پیارا بھائی احمد خلدون آدھے گھنٹے میں ہی دنیا سے رخصت ہو گیا ۔
ہمت ٹوٹ گئی اور زندگی پھر اس مقام پر لے گئی جس پر والد صاحب کی وفات پر لا کھڑا کیا تھا کہ والد صاحب کے بعد میرے لیے بھائی ہی سب کچھ تھا ۔
یہ سانحہ کیا تھا ابھی بھی سوچوں تو رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور سوچتی کہ یوں پل بھر میں بھی کوئی جاتا ہے بھلا ۔
زندگی کو پھر سے کچھ نارمل کیا۔ ہمتیں اکٹھا کیں اور سوچا کہ اب والد محترم کے ساتھ ساتھ بھائی کے لیےبھی تعزیتی ریفرنس کرواؤں کہ خلدون بھائی بچوں کے مشہور رسالے ( تعلیم و تربیت ) کا کامیاپ رائٹر رہا تھا ۔
لیکن اللہ کی مصلحتیں ہماری سوچ سے بہت آگے کی ہیں ۔ ابھی دوبارہ سے (آغوش صدف ) کی رونمائی کا پروگرام بنا رہی تھی کہ مجھ سے بڑی بہن فوزیہ ڈاکٹروں کی غفلت کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار گئی ۔
ان حادثات نے گویا جیتے جی مار ڈالا ۔
لیکن پھر دل کو سمجھایا کہ ہم مسلمانوں کا اس بات پر یقین ہے کہ رب کی رضا میں ہم راضی ہیں ۔ وہ ہم سے بہت بہتر جانتا ہے کہ کس بات میں کیا مصلحت ہے ۔
بہرحال ان سارے حادثات کے بعد میں خواہش کے باوجود آغوش صدف کی رونمائی کی کوئی تقریب تو نا کروا سکی لیکن اس کی ترسیل کا سفر میں نے رکنے نہیں دیا ۔
میری کوشش ہے کہ یہ خوبصورت کتاب ادب کے ہر اس قدر دان تک پہنچے جو خالد بزمی جیسے بڑے اور نایاب شاعر کا کلام پڑھنے کا حق رکھتا ہے ۔
اس سلسلے میں کچھ لوگوں سے رابطہ ہوا اور ان کو والد محترم کی خوبصورت غزلوں سے سجی یہ شاہکار کتاب کا تحفہ پیش کیا ۔
ابھی بہت سے لوگوں تک اس کتاب کو پہچانا ہے کہ (آغوش صدف ) کا یہ سفر ابھی جاری و ساری ہے ۔
مجھے اس وقت سب سے زیادہ خوشی ہوئی جب میں نے ان کے پیارے دوست اور اپنے محترم استاد ڈاکٹر خواجہ ذکریا صاحب کو یہ کتاب بذریعہ ڈاک بھجوائی اور ان کا جواب أیا کہ بزمی صاحب کی کتاب والا پارسل مل گیا ہے ۔
کتاب قدر دانوں تک پہنچا کر مجھے حقیقی خوشی ملتی ہے اور یہی میرا مقصد بھی ہے کہ والد محترم کا کلام ہر اس شخص تک پہنچے جو ان کے کلام کو پڑھنے کا صحیح حقدار ہے ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.