You are currently viewing اہل اللہ کی صحبت کے کرشمے ۔تحریر: سویرا جاوید
بک فائو

اہل اللہ کی صحبت کے کرشمے ۔تحریر: سویرا جاوید

تحریر: سویرا جاوید
اگر ہم اپنے گرد و نواح کا جائزہ لیں تو ہم پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کون ایسا مسلمان ہے جس کو یہ معلوم نہیں کہ نماز فرض ہے لیکن کتنے لوگ پڑھتے ہیں ۔اسی طرح  بدنظری ،رشوت ،سود ، چوری ڈ کیتی  گناہ ہے ۔لیکن دیکھئے  ان گنت لوگ اس میں مبتلا ہیں۔ ان سب سے بڑھ کرموت کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ یقینا ایک روز مرنا ہے ۔یہاں تک کہ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی ایک جماعت بھی اگر کسی شخص کو یہ کہہ دے کہ تم نہیں مرو گے تو وہ ماننے کے  لیےتیار نہ ہو گا ۔جتنا زیادہ یقینی علم موت کا ہوتا ہے اتنی زیادہ بے فکری دیکھنے  میں آتی ہے ۔۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہےکہ لوگ جانتے بوجھتے بھی غفلت میں پڑ جاتے ہیں؟
اس کا ایک ہی سبب اور ایک ہی وجہ ہے اور وہ کسی عالم باعمل کی صحبت کا نہ ہونا۔بے عملی کا یہی علاج ہےکہ کسی عالم باعمل کی صحبت اختیار کی جائے۔
جیسا کہ کلام پاک میں اللہﷻ فرماتے ہیں۔۔
واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغدواة و العشی یریدون وجھہ وﻻ تعد عینک عنھم ۔۔
ترجمہ :”اور آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ مقید کر لیجئے جو صبح و شام (علی الدوام ) اپنے رب کی عبادت محض اسکی رضا جوئی کے  لیےکرتے ہیں”
صبر کے معنی ہیں مقید رکھنا ۔۔رسول ﷺ کو ارشاد ہو رہا ہے کہ آپ خود کو صحابہ کی تربیت کی خاطر مقید رکھیں ۔ان کو اپنی صحبت بابرکت سے مستفیض ہونے کا موقع دیں۔ تاکہ لوگ دین حاصل کرسکیں اور نبوت کے انوار و برکات سے اپنے دلوں کو مجلی کرسکیں ۔علم پر عمل جب ہی ہو سکتا ہے جب کسی باعمل عالم کے پاس بیٹھ کر دیکھا جاۓ۔
اہل اللہ کی پہچان یہ ہےکہ ان کے دل لوگوں کے پاس بیٹھنے سے خوش نہیں ہوتے بلکہ خلوت محبوب ہوتی ہے کہ ذرا سا موقع ملے اور اپنے محبوب حقیقی سے لو لگاۓلیکن جب محبوب حقیقی حکم فرما دیتے ہیں کہ اب ان کے جمال کو  آئینہ میں دیکھیں تو اہل اللہ اہل دنیا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
بقول اقبال:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں  کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرد منزل ہی  نہیں
مولانا روم فرماتے ہیں :”جب تک مولانا روم کو شمس تبریزی کی صحبت اور غلامی نصیب نہ  ہوئی  اس وقت تک وہ صرف مولوی تھے ۔شمس تبریزی کی صحبت نے انھیں مولوی سے مولانا روم بنا دیا“
قرآن میں اللہﷻ نے صحبت بد کی مثال دی ۔۔
(انھاکانت من قوم کافرین )
ترجمہ :بے شک کہ (ملکہ سبا)وہ نافرمانوں کی قوم سے تھی ۔
اس سے یہ بتلانا مقصود یہ کہ ملکہ سبا کفار کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے کفر میں مبتلا تھی ۔
صحابہ کرام اجمعین کے لیے نبی ﷺ کی صحبت کا یہ اثر تھاکہ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب دفن کر دیا گیا تو ہم نے اپنے دلوں کو متغیر پایا اسکی کیا وجہ تھی؟یہی کہ رسولﷺکے وجود مبارک سے  اس دنیا کے خالی ہو جانے پر آپ کے اصحاب نے اپنے دلوں میں خلا محسوس کیا کیونکہ آپ کا وجود مسعود باعث انوارو برکات تھا۔
صحبت کا اثر مشاہدات اور تجربات سے ثابت ہے اور روز روشن کی طرح واضح ہے اسی لیے یہ حقیقت پوری دنیا کی مسلمات میں سے ہے ۔انسان تو انسان بے جان جمادات پر بھی صحبت کے اثر کا مشاہدہ مسلم ہے ،مقناطیس کی صحبت سے لوہے میں کشش پیدا ہو جاتی ہے ۔اور پھول کی صحبت سے مٹی میں خوشبو پیدا ہوجاتی ہے ۔
اسی طرح اہل دل حضرات کی صحبت میں غضب کی تاثیر ہوتی ہے ۔بعض مرتبہ آن واحد میں انسان کی کایا پلٹ جاتی ہے ۔۔
شاعر کہتے ہیں ۔۔
”جس قلب کی آہوں نے دل پھونک دیے لاکھوں
اس قلب میں یا اللہ !کیا آگ بھری ہوگی“
___________________________________
(مری محفل میں  جو بیٹھا اٹھ آتش بہاں ہوکر
دل میں آگ بھر دیتی ہے آہ آتشیں میری )

Leave a Reply