تحریر: نسیم امیر عالم

تم پر کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ تم اپنے بھائی کا حق مارو ۔۔۔!!

 غصے سے بپھری ہوئی بڑی بہن نے مُٹھیاں بھینچتے ہوئے چھوٹی بہن کو ڈانٹا، لیکن ڈانٹتے وقت وہ یہ بھول گئی تھی کہ چھوٹی اب بڑی ہو چکی ہے بل کہ بہت بڑی ہوچکی ہے ،وہ اتنی بڑی ہو چکی ہے کہ اب رشتے ناتے ، بڑے بہن بھائی حتی کہ ماں بھی اس کے آگے بہت چھوٹی ہوچکی ہے!!

*اپنی حد میں رہو سائیکو ۔۔۔۔!!*

 دفعتاً اس کی ڈانٹ کے جواب میں چھوٹی دبے بغیر رعونت کے ساتھ چلائی۔ وہ غصہ بھول کر حیرت و شدید دُکھ کے  ُملے جلے جذبات کے ساتھ چھوٹی کو دیکھتی رہ گئی ۔۔۔!!

 ایسی بات نہیں تھی کہ پہلی دفعہ اسے *سائیکو* بولا گیا ہو, اُسے خاندان کے تمام بڑے اس لیے سائیکو بولتے تھے کیوں کہ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور لاچار و بے بس ماں کی خاطر ہر صاحبِ جاہ و منصب سے لڑ پڑتی تھی ۔ پھٹا ہوا برقعہ اور ٹوٹی ہوئی چپلوں سے بے نیاز جب وہ اپنے مال دار رشتہ داروں کی نقل میں کیک،پھل، مٹھائی اور دیگر امیروں والے چونچلے غریب بہن بھائیوں اور بے بس ڈری ہوئی ماں کے لیے کرتی تو مانو سب کے سینے پر جیسے سانپ سے لوٹ جاتے!!

 تمسخر آمیز انداز ، طنزیہ لہجے اور حقارت آمیز رویوں کے ساتھ صرف ایک لفظ ” سرگوشی ” کی صورت میں سننے کو ملتا ۔۔۔ “سائیکو”!!وہ لفظ جسے اس کے دشمن بھی اس کے سامنے ادا کرنے کی ہمت نہ کر سکے وہ لفظ کتنی بے غیرتی اور ڈھٹائی کے ساتھ “چھوٹی” بول چکی تھی!!

پورے مہینے اسکول میں شدید محنت کرنے کے بعد،کوچنگ سینٹرمیں اضافی کمانےکےبعد، باقی بچے ہوئےوقت میں گھرپر ٹیوشنزدینےکےبعدبھی اس نے کبھی نئے جوتے ، کپڑوں ، برقعے کی تمنا یا چاہت نہیں کی تھی، وہ “سائیکو”ہی توتھی۔۔۔۔۔۔!

 جب جب کوئی اس کے بہن بھائیوں یا صابر ماں سے الجھتا یا حقارت آمیز رویہ اختیار کرتا یہ لڑنے پہنچ جاتی کوئی اس کے معصوم بہن بھائیوں کو دھتکارتا  تووہ احتجاج کرتی کہ غریب ہونا جرم نہیں ہے ۔جس طرح باقی امیر رشتہ دار اشرف المخلوقات ہیں ، اسی طرح اس کی ماں بہن بھی عزت و تکریم کے لائق ہیں ۔ لیکن دولت و طاقت کے نشے میں چور رشتہ داروں کو غریب”سائیکو”کی محنت کےپیسوں سےخریدی ہوئی خوشیاں ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔۔۔۔۔!

وہ اپنی ماں کو جب خاندان کی دوسری عورتوں کے درمیان مجرموں کی طرح سہمے ہوئےاندازمیں پھٹے ہوئے دوپٹے کے ساتھ بیٹھےدیکھتی تو دکھ اور اذیت سے جیسے بے قرار سی ہوجاتی اور یوں تمام کمائی ماں اور بہن پر نچھاور کر دیتی جیسےکوئی جواری اپنی آخری جمع پونجی بھی داؤ پر لگا کر بازی جیتنے کا انتظار کرے ۔۔۔۔! لیکن چونکہ اس کی فیملی بہت غریب تھی لہٰذا ان کا مقدر صرف دال دلیہ ہی ہونا چاہیے تھانا کہ اچھےکپڑے اور کھانا ۔۔۔ اور پھر وہ جو بوسیدہ سے برقعےمیں رہتی تھی ۔امیروں والے چونچلے کیوں کر پال سکتی تھی !!!

 انسان کو اپنی اوقات میں ہی رہنا چاہیے ۔ اس طرح کے جلے کٹے رویے اس کے لیے نئے نہیں تھے ۔ لیکن وہ ہر چیز سے بے نیاز ماں کے صابر چہرے کو دیکھ کر جیتی تھی ۔

جب مہینے کی پہلی تاریخوں میں وہ ڈھیرسارا اشیائے خورد و نوش کا سامان گھر میں لاتی تو بہ ظاہر ماں مصنوعی غصہ دکھاتی کہ وہ کتنی فضول خرچ ہے اور پھر چور چور نظروں سے چہرے پر بچوں جیسی خوشی اور اشتیاق جھلک رہا ہوتا ۔۔۔۔۔ سامان کی جانب دیکھتی رہتی کہ وہ کیا کیا لائی ہے ۔۔۔۔ لیکن یہ معصوم خوشیاں اور شوق و اشتیاق اس کے اپنوں کے لیے ناراضی و بےزاری کا باعث تھا ، جس کا وہ اظہار پیٹھ پیچھے ” سائیکو کہہ کر کرتے ۔ عقل مند ہوتی تو پیسہ دانتوں سے دبا کر رکھتی یوں گھر والوں پر نہ لٹاتی اور پھر بہنیں بڑی ہونے لگیں اور ان کی شادیاں بھی کر دی گئیں ۔ چھوٹی کچھ زیادہ ہی تیز طرار نکلی اور بھائی اور شوہر کے مشترکہ کاروبار پر خود ناگن بن کر بیٹھ گئی اور شوہر کو خزانے کا ناگ بنادیا ۔ قصہ مختصر بھائی نے سالوں بعد اپنا حصہ مانگا تو صاف انکار کردیا ۔۔۔ وہ یہ بھی بھول گئی کہ شہر کے مہنگے ترین بیوٹی پارلر سے سجنے کا ارمان ماں سے ڈر کر صرف اس ” سائیکو”بہن  کے سامنے ہی خواہش کی صورت میں رکھا تھا کہ *دلہن یہاں سے بنوں گی!!* وہ ” سائیکو” کہتے وقت یہ بھی بھول گئی کہ پسند کی شادی سب سے لڑ کر اسی “سائیکو” نے ہی کروائی تھی ۔ دولت نئی نئی دیکھی تھی چھوٹی نے ۔۔۔ !

اس لیے انداز بھی نودولیتوں والے ہی تھے۔معصوم ماں اور بے لوث بھائی چھوٹی کے گھر پر دولت کی بارش برستے دیکھ کر خوب خوش ہوتے ، بھائی مزید محنت کرتا کہ ایک دن اس کے ہاتھ بھی خوشیوں کی سکھ کی سوغات آئے گی لیکن یہ کیا ہوگیا ۔۔۔!!

 آج جب بھائی کو ضرورت پڑی تو چھوٹی کی آنکھوں سے لپٹی دولت کی پٹی نےاسےاس حدتک اندھا کردیا کہ ہمیشہ کی طرح جائز اور کمزور کے حق میں بولنے والی ” محنتی اور پیاری ” بہن کو ” سائیکو” کہہ دیا۔

 وہ دکھ اور صدمے کی آخری حدوں پر تھی :

   *خود کو میری جگہ پہ رکھ*         *تجھے ترس نہ آئے تو چھوڑ دینا*

چھوٹی نے صحیح کہاتھا ۔۔۔ رشتہ دار بھی ٹھیک کہتے ہیں ۔ وہ سائیکو ہی تو تھی ۔۔۔۔ عقل مند انسان پہلے اپنا نفع نقصان سوچتا ہے ، نارمل لوگ پہلے اپنا پہلو بچاتے ہیں ، زمانے کو دیکھ کر چلتے ہیں ۔ حالات کے مخالف نہیں چلتے ۔ اپنا مطلب و غرض پہلے دیکھتے ہیں ۔ وہ تو پاگل ہوتے ہیں جو دوسروں کی مصیبتوں کو گلے لگاتے ہیں ۔ دوسروں کی تکلیف کو اپنا غم سمجھتے ہیں کیسے رشتے ناطے ۔ کون سا خاندانی پن ۔۔۔۔!! جس بےحس معاشرے میں اعلیٰ اقدار دم توڑ رہی ہوں ۔۔۔۔ انسانیت سسک رہی ہو ۔۔۔۔ رشتہ داری کا معیار صرف پیسہ ہو ۔۔۔ وہ سائیکو ہی تو تھی جو ان سب باتوں کو خاطر میں نہیں لاتی تھی ۔

*تیرےدن اچھے ہیں،سوہم سے کنارا کرلے*

*ہم برےلوگ،برےوقت میں کام آتے ہیں*

دنیا بھر سے لڑنے والی ہر طنز سہہ جانے والی آج”سائیکو”لفظ برداشت نہیں کر پائی۔سانس جیسے سینے میں اٹک سا گیا اور پھر ایک چیخ”سی”اس کے سینے سے نکل کر فضا میں پھیل گئی *وہ ہنس رہی تھی ۔ مسلسل قہقہے لگا رہی تھی ۔۔۔!!*

 *سائیکو جو تھی۔۔۔!!*

اس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے ، ہاتھ رعشےزدہ مریض کی طرح کانپ رہے تھے۔۔۔۔جسم کو جھٹکےسے لگ رہے تھے۔اُس کا وجود جیسے زلزلوں کی زد میں تھا ۔ اس کے سیاہ بال کب سفید ہوگئے۔۔۔۔ کب وہ توانا اور مضبوط سے ڈھلکتے ، کمزور وجود میں تبدیل ہوئی۔۔۔۔۔اسے پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔۔ آج چھوٹی کے منہ سے نکلے ہوئے لفظ ” گولی ” کی طرح اسے لگ چکے تھے ۔۔۔۔!! وہ گر رہی تھی ۔ جس پر اس غریب گھر کی عمارت کھڑی تھی ۔ وہ گر رہی تھی ۔۔۔ سب ساکت تھے ۔ ماں کی بوڑھی آنکھیں پتھرائی ہوئی نظروں سے یہ دل دوز نظارہ دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ بھیا اپنا غم بھول کر ” سائیکو ” کے گرتے وجود کو تھامنے لپکا ۔۔۔ بہنوں کی آہوں اور چیخوں نے جیسے آسمان پر شگاف کردیا ۔۔۔۔ ” سائیکو ” ساکت ہوچکی تھی ۔

*وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا*

*سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ*

لکھاری  کا تعارف

نسیم امیر عالم   افسانہ   نگار اور کہانی کار ہیں۔  وہ شعبۂ تدریس سے تعلق رکھتی ہیں۔آپ کے مضامین  اور دیگر تخلیقات مؤقر اخبارات ورسائل میں پاکستان اور بیرون پاکستان شائع ہوتے رہتے ہیں۔ تعلیمی سفر میں شاندار کارکردگی  پر  متعدد گولڈ میڈل چکے  ہیں۔آپ کو حکومت پاکستان کی جانب سےصدارتی تمغہ براۓ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا ہے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content