تحریر : لیکچرار نسیم امیر عالم۔ حیدر آباد ، سندھ
سنہرے لمبے بال ،متناسب جسم،سرو ساقد،سردیوں کی دھوپ جیسی رنگت،خوبصورت گورے گورے ہاتھ پاؤں ،کانوں میں آویزے ، ناک میں بالی ،صراحی دار گرد ن میں نیکلیس، سیاہ میکسی میں ملبوس جب وہ ہال میں داخل ہوئی تو سب کی نظریں بے اختیار اس کی جانب اٹھ اٹھ گئی اس کی اداؤں سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اسے بخوبی اندازہ ہو کہ وہ کتنی حسین ہے تقریب میں موجودکئی ادھیڑ عمر خواتین بے حد دلچسپی اور شوق کے ساتھ اس کا سراپا دیکھ رہی تھیں۔شاید وہ دل ہی دل میں میں یہ فیصلہ کر رہی تھیں کہ اس نازنین کو اپنی بہو بنائیں گی ۔ کئی ایک نے تو اس کی اتراتی ماں سے موبائل نمبر لے کر اپنے اینڈرائیڈ موبائل میں محفوظ بھی کر لیا تھا۔
اور پھر کچھ عرصہ بعد اس کی شادی ہو گئی۔ مسز خان بےحد خوش تھیں۔ جیسے انہوں نے بہت بڑی جنگ فتح حاصل کر لی ہو اتنی حسین و جمیل پری جیسی بہو پا کر ان کے پیر زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ لیکن وہ اپنے بڑوں کی یہ کہاوت بھول چکی تھیں کہ *چاند پیارا یا کام پیارا۔۔۔۔۔۔!* وہ یہ بھی بھول گئی کہ اپنی سگی بھانجی جس کی رنگت نسبتاً واجبی سی تھی اس کو کتنی سنگ دلی کے ساتھ ٹھکرا دیا تھا۔ یقیناً مسزخان کا یہ عمل اللہ تعالی کے سامنے نا پسندیدہ ٹھہرا اور اس کا احساس انہیں اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ہونے لگ گیا تھا۔ وہ حسین و جمیل تو تھی لیکن وفا شعار نہ تھی۔۔۔۔۔ وہ نازک اندام تو تھی لیکن معاملہ فہم ذہین اور سگھڑ بیوی نہ تھی۔۔۔۔۔۔ وہ گورے گورے ہاتھ پیر تو رکھتی تھی لیکن کھانا پکانے سے لے کر گھر داری کا کوئی سلیقہ اس میں نہ تھا۔۔۔۔۔ مسز عالم کو مکمل طور پر یہ احساس ہو چکا تھا کہ بہ ظاہر تازہ دم, ہنستی، مسکراتی، مہذب، دل کش، خوبصورت ماہ جبیں کے اندر ایک پھوہڑ جھگڑالو، زبان دراز، بد تمیز عورت چھپی ہوئی تھی، یا یوں کہہ لیں کہ اس نے خوبصورتی کا ملمع سا چڑھا رکھا تھا ۔ جب کہ در حقیقت وہ نا قابل برداشت چیز تھی۔۔۔۔!!
آج بھی مسز خان گھر میں اکیلی تھیں اور کچن میں برتنوں پر مکھیاں بھنبھنانا رہی تھیں۔ چونکہ بہو رانی کو کچھ پکانا نہیں آتا تھا اس لیے بہو بیٹا باہر ہوٹل میں کھانے چلے گئے تھے اور جاتے جاتے مسز خان کو کہہ گئے تھے بازار کی روٹی اور انڈا بنا کر کھا لیں۔ لیکن چونکہ ان کو تیز بخار ہو رہا تھا اور نوکر بھی چھٹی پر تھے تو وہ بھوکی پیاسی پڑی رہیں۔ تھوڑا ہمت کرکے اٹھنے کی کوشش کی تو چکر سے آگئے۔ اور آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا۔ اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجی وہ گرتی پڑتی اٹھیں اور دروازے کی طرف لپکی۔ انہیں اپنی بہو سے بہت خوف آرہا تھا کہ اگر ذرا سی دیر ہو گئی تو بہت سنائے گی چونکہ وہ مالدار باپ کی بیٹی تھی اس لیے غصہ اور نخرہ بھی ناک پر رہتا تھا۔ جو ہی دروازہ کھولا تو سامنے ایک سانولی لیکن پرکشش، سر پہ سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے، ہاتھ میں ٹرے اٹھاۓ جو کہ کپڑے سے ڈھکی ہوئی تھی ، مس خان کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی انہوں نے ایک جانب ٹرے کی طرف دیکھا اور دوسری نگاہ اس باوقار اور پر کشش لڑکی کے چہرے پر ڈالی ساتھ ہی ایک ننھے اور پیارے بچے کو بھی دیکھا جو یقیناً اس پیاری سی لڑکی کا بیٹا تھا۔ اور وہ بھی مس خان کی طرف مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ مس خان نے اجنبی نظروں سے جب یہ سارا منظر دیکھا تو اس لڑکی کے ہونٹوں سے گویا موتی جھڑنے لگے۔ دھیمے لہجے، شاہستگی اور آہستگی کے ساتھ مس خان سے یوں مخاطب ہوئی:
*خالہ جان کیا آپ نے مجھے نہیں جانا میں آپ کے پڑوس والے بنگلے میں آیٔ ہوں میرے شوہر کی اس شہر میں پوسٹنگ ہوئی ہے میں نے آپ کو کل شام دیکھا تھا اور سوچا تھا آج کچھ اچھا سا کھانہ بنا کر آپ کو “سرپرائز” دینے آؤں گی۔*
مس خان کے دل میں جیسے کوئی چیز سی ٹوٹ گئی ہو اور ذہن میں زوردار چھناکا ہوا۔۔۔۔۔۔۔! قسمت نے یہ دن بھی دکھانے تھے۔۔۔۔۔وہ غریب بھانجی جسے انہوں نے معمولی رنگت، واجبی شکل و صورت اور کم حیثیت جان کر بڑے غرور و تکبر کے ساتھ دھتکار دیا تھا یہاں تک کہ سگی بہن کے آنسوؤں کی پرواہ بھی نہیں کی تھی کیونکہ مس خان کی آنکھوں پر تودولت کی پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ اس زمانے کی بھیڑ چاڑ کا شکار تھی انہیں حسین ترین اور دولت مند ترین بہو لانے کا جنون سر پر سوار تھا۔ جو ان کے پیارے اکلوتے، خوبصورت فرماں بردار، اور قابل بیٹے کے ساتھ جچ سکے۔ بھانجی کی آواز مس خان کو خیالات کی دنیا سے کھینچ لائی۔
خالہ جان میں نے بھی مقابلے کا امتحان پاس کر لیا ہے اور ساتھ ساتھ گھر داری بھی چلتی رہی اتنے میں ایک انتہائی ہینڈسم لڑکا سامنے آیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا ساری بات یہاں دروازے پر کرلوں گی اندر نہیں جاؤ گی گویا اندر آنے کی اجازت مانگ رہا ہو اپنے شوہر کی آواز سن کر مس خان کی بھانجی جیسے مسکرا اٹھی اور اس کے چہرے پر دھنک کے رنگ سے بکھر گئے خالہ جان حسرت سے سارا منظر دیکھ رہی تھی اور پھر انہوں نے چونک کر کہا آؤآؤ۔۔۔۔۔ اندر آؤ۔۔۔۔۔۔!!
بھانجی نے چونک کر ایک نظر اندر ڈالی کھلا بےترتیب کچن , مٹی سے اٹے ہوئے صوفے اور بے ترتیب گھر مس خان کا بس نہیں چل رہا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں آ انہوں نے دھیان بٹانے کو پوچھا ۔۔۔اچھا کیا لائی ہو؟
بھانجی نے چونک کر کہا ہاں آپ کو پتا ہے مجھے بچپن سے کھانے پکانے اور گھر سنبھالنے کا کتنا شوق رہا ہے اس لیے آپ کے پسندیدہ کڑی چاول، قورمہ، اور کھیر لائی ہوں ان کو ایک دم یاد آیا کہ انہیں اپنی سگھڑ بھانجی کے ہاتھوں کا بنایا ہوا ہر کھانا لذیز اور مزے دار لگتا تھا وہ بھوکوں کی طرح ٹرے پر ٹوٹ پڑی۔ بھانجی اور اس کا شوہر حیرت اورافسوس کے ملے جلے جذبات لیے ان کو دیکھتے رہ گئے اور بھانجی کے ذہن میں دفعتاً وہ منظر گھوم گیا کہ جب خالہ جان نے انتہائی غرور کے ساتھ نانی کو اس کا رشتہ یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ کہ وہ ایک معمولی شکل و صورت والی یتیم بچی کو اپنے لائق قابل بیٹے کی بہو نہیں بنا سکتی کیونکہ زمانہ کیا کہے گا۔۔۔
بھانجی کے شوہر نے یہ وحشت ناک سکوت توڑا ۔۔۔۔۔۔ خالہ جان سے مخاطب ہوکر شگفتگی سے بولا آپ کی بھانجی کے آنے سے پہلے ہمارا گھر بے ترتیب اور اور غیر منظم تھا ۔انہوں نے میری بیمار والدہ کی اور میری اتنی خدمت کی ہے کہ میں انہیں جنتی بیوی کہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔!
مسزخان حسرت اور دکھ کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بھانجی کے روشن چہرے کو دیکھتی رہ گئیں کیوں کہ اس چہرے پر نہ صرف سادگی شرافت۔۔۔۔۔حیا۔۔۔۔۔۔ پاکیزگی معصومیت کے کتنے ہی رنگ تھے جو بھانجی کے وجود کو باوقار اور رعب دار کر رہے تھے اور پھر مس خان کے ذہن میں اپنی اکلوتی اٹھلاتی ہیروئینوں کی طرح ادائیں دکھاتی غیر سنجیدہ گھر داری سے نا آشنا ہمہ وقت ہینڈ فری لگائے میوزک لگائے۔۔۔۔ تھرکتی ناچتی بہو یاد آئی ,جسے نہ بچوں کا شوق تھا اور نہ روایات کی پاسداری کا لحاظ، اور میں قلم ہاتھ میں پکڑے یہ سوچ رہی ہوں کہ اور کتنی مس خان ہیں جو اپنی بھانجی اور بھتیجیوں کو چھوڑ کر مفت کا عذاب خوبصورت بلا کی شکل میں مول لینے والی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
مس خان جیسی بے وقوف , کم عقل خواتین کی وجہ سے نہ ہمیں اچھی مائیں مل پا رہی ہیں اور بیٹیوں کی مائیں اچھی باوقار تہذیب یافتہ بیٹیوں کے بجائے اپنی بیٹیوں کو ماڈل بنانے پر ترجیح دیتی ہیں۔ کیونکہ مسز خان جیسی عورتوں کوماڈل جیسی بہو چاہیے اور *ہمارے معاشرے کی یہ ایک تلخ حقیقت اور المیہ ہے۔۔۔۔۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.