از قلم : عصمت اسامہ ۔
ذوہیب ! بیٹا کہاں جارہے ہو ؟ ماما نے آواز دی تو ذوہیب رک گیا۔
ماما ،میں بیڈمنٹن کھیلنے جارہا ہوں۔ ذوہیب نے جواب دیا اور باہر کی طرف چل دیا۔
بیٹا ،سنو تو ۔۔۔۔آج شام تمہاری آپی نے آنا ہے تو وقت پر گھر آجانا ! ماما نے کہا۔
جی ٹھیک ۔ یہ کہہ کے وہ باہر چلا گیا۔
ذوہیب نویں جماعت کا طالب علم تھا اور تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ۔دو بڑی بہنیں شادی شدہ تھیں اور ایک اس سے چھوٹی تھی۔ والد زاہد صاحب ایک پرائیویٹ کمپنی میں جاب کرتے تھے ،وقت جیسا تیسرا گذر رہا تھا۔
شام ڈھلے زاہد صاحب سامان کے شاپرز اٹھاۓ گھر داخل ہوئے تو ذوہیب اپنے بھانجوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ،کبھی بلی کی آواز اور کبھی میاں مٹھو کی آواز میں باتیں کرکے بچوں کو ہنسا رہا تھا۔
ذوہیب ،ذوہیب یہ سامان پکڑو آکے ! زاہد صاحب نے آواز لگائی تو اس نے سارے شاپرز ان سے لے کر کچن میں رکھ دئیے جہاں اس کی والدہ اور بہن کھانا بنارہی تھیں۔ اسے دیکھ کے آپی نے کہا کہ ذرا پانی کے کین بھرواکے لے آؤ۔وہ چپ چاپ کین اٹھا کے چلاگیا۔
ماشاءاللہ کتنا لمبا ہوگیا ہے نا ،آپی نے کہا تو امی مسکرادیں۔
اکلوتا بیٹا اور وہ بھی اتنا سلجھا ہوا ہوتو گھر بھر کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے۔وہ کچھ سوچنے لگیں۔
ماما ،ماما یہ دیکھیں ذرا بھائی کا رزلٹ کارڈ ! اس نے تکیے کے نیچے چھپایا ہوا تھا ! چھوٹی بیٹی ماریہ بھاگتی ہوئی کچن میں آگئی۔
دکھانا ،آپی نے رزلٹ کارڈ پکڑ لیا ۔
یہ کیا ماما ،پچھلے امتحانات میں اس کے75٪ مارکس تھے اور اب صرف 63٪ آۓ ہیں ؟ آپی نے پریشانی کا اظہار کیا۔
ارے رکھ دو کہیں الماری میں ،تمہارے بابا نہ دیکھ لیں ۔امی نے آپی کے ہاتھ سے کارڈ لے کر ماریہ کو واپس پکڑا دیا۔
دراصل تمہارے بابا نے ذوہیب کا اسکول تبدیل کروایا ہے ،اس کی فیس بہت زیادہ ہوگئی تھی تو ہمارے لئے دیگر تعلیمی اخراجات کے ساتھ فیس ادا کرنا مشکل ہوگیا تھا،لیکن موجودہ اسکول ذوہیب کو پسند نہیں ہے۔امی نے آہستہ سے آپی کو وجہ بتائی۔
ہمم ، یہ تو مسئلہ ہے پھر ۔آپی دوبارہ ہانڈی کو دیکھنے لگی۔
رات کے کھانے کے بعد سب مہمان واپس چلے گئے تو کچن سمیٹتے ہوۓ امی کو ذوہیب کا خیال آیا جو چھت پر چلا گیا تھا اور ابھی تک نیچے نہیں آیا تھا۔وہ بھی سیڑھیاں چڑھ کے اوپر جانے لگیں تاکہ ذوہیب کو دیکھیں۔
اوپر اندھیرے میں ایک ہیولا سا دکھائی دیا جو چاروں شانے چت لیٹا ہوا تھا۔
بیٹا ،کیا ہوا ؟ امی نے گھبرا کے پوچھا۔
کچھ نہیں ماما ،بس ویسے ہی لیٹا ہوا تھا ۔ذوہیب نے اٹھتے ہوۓ کہا۔
تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا ،یہاں اکیلے اندھیرے میں کیوں لیٹے ہوۓ ہو ؟ چلو نیچے آؤ اور کھانا کھالو ۔یہ کہتے ہوۓ امی نیچے چلی گئیں۔
ذوہیب اٹھ کے بیٹھ گیا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے سر پر مکیاں مارنے لگا ،اس کے سر میں شدید درد تھا ،بادل نخواستہ وہ سیڑھیاں اترنے لگا۔کھانا کھاتے ساتھ ہی اپنے کمرے میں جا کے لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں۔
ذوہیب ،اٹھو بیٹا صبح ہوگئی ہے ،امی نے کھڑکیوں سے پردے ہٹاتے ہوئے آواز دی۔
ماما ،مجھے سونے دیں ،میں نہیں جارہا،دل نہیں کر رہا اسکول جانے کو ۔۔۔۔ذوہیب نے کروٹ بدل لی۔
کیوں بیٹا ؟ تمہارے بابا خفا ہوں گے ،اٹھ جاؤ ،بلاوجہ چھٹی نہیں کرتے ۔۔۔۔امی نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔
جلدی سے ٹیبل پر آجاؤ ،ناشتہ تیار ہے ،امی یہ کہتے ہوۓ کمرے سے نکل گئیں اور ذوہیب اسکول جانے کے لئے تیار ہونے لگا لیکن امی کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ دو گھنٹے بعد ہی اسکول سے واپس اگیا۔
گھر میں داخل ہوتے ساتھ ہی غصے سے شوز اتار پھینکے ،بیگ رکھا اور اپنے کمرے میں جاکے دروازہ اندر سے بند کرلیا۔
ذوہیب ! کیا ہوا بیٹا ؟ اتنی جلدی کیوں آگئے ؟ امی نے دستک دی۔
اندر مکمل خاموشی تھی ۔امی دو تین بار دستک دے کے کچن میں چلی گئیں کہ اچھا سا کھانا تیار کر کے پھر اسے بلائیں گی لیکن اس کی نوبت ہی نہ آئی ۔
امی جب کھانے کی ٹرے اٹھا کے ذوہیب کے کمرے تک گئیں تو یہ دیکھ کے ان کی جان ہی نکل گئی کہ دروازے سے خون کی پتلی سی لکیر بہتی ہوئی باہر تک آرہی تھی ۔ وہ بے تحاشا چیخنے لگیں ۔
شور کی آواز سن کے گیٹ کے قریب سے گذرنے والے دو تین ہمساۓ اندر آگئے ۔ زاہد صاحب گھر نہیں تھے تو انھوں نے مجبوراً ذوہیب کے کمرے کا دروازہ توڑ ڈالا۔ اندر ذوہیب خون سے لت پت بے ہوش پڑا تھا۔ کسی نے ایمرجنسی میں ایمبولینس بلائی اور ذوہیب کو ہسپتال پہنچایا گیا۔ زاہد صاحب کو بھی کسی نے کال کردی تھی اور وہ آپریشن روم کے باہر بیٹھے رو رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر باہر آیا اور ذوہیب کے والدین کو ساتھ والے روم میں آنے کا کہہ کے چلاگیا۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا خود کشی کی کوشش کرے ،سوالات تو اٹھتے ہیں لیکن والدین کے پاس ڈاکٹر کے سوالات کا کوئی جواب نہ تھا۔ان کے پاس صرف آنسو تھے اور ہچکیاں تھیں۔
ڈاکٹر نے ان کو پانی اور ٹشو پیپر پیش کیا پھر بولا :
دیکھیں زاہد صاحب ، آپ کے بیٹے نے اپنی جان لینے کی کوشش کی ،اسے آخر کوئی تو پریشانی تھی ،اس نے اپنی کلائی کو بلیڈ سے کاٹنے کی کوشش کی اور بری طرح زخمی ہوگیا ،یہ تو قسمت اچھی تھی کہ بروقت ہاسپٹل پہنچ گیا ورنہ خون زیادہ بہہ جاتا تو جان بچانی مشکل ہوجاتی۔ بہرحال آج رات وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ رہے گا ،ہم اپنے طریقے سے اس سے بات کریں گے ۔
اگلے دن ڈاکٹر صاحب نے والدین کو بلا کے ذوہیب کے بارے میں جو بات بتائی وہی ذوہیب کی ڈیپریشن کی بنیادی وجہ تھی ،وہ وجہ کلاس ٹیچر کا تشدد اور تذلیل آمیز رویہ تھا ۔ ذوہیب سلجھا ہوا بچہ تھا، نویں جماعت میں بچے خود کو بڑا تصور کرنے لگتے ہیں اور ان کی عزت نفس بھی نازک ہوجاتی ہے مگر معمولی غلطی پر استاد اسے بری طرح مارتا پیٹتا ،کئی بار اس کے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کردیتا اور کئی بار صرف پانچ منٹ لیٹ ہونے پر کان پکڑا کے بنچ پر کھڑا دیتا اور باقی طالب علموں سے ڈیسک بجانے کا کہہ دیتا۔ اس ذلت آمیز سلوک اور سزاؤں نے بچے کی نفسیات پر بہت برے اثرات مرتب کئے اور وہ ڈیپریشن میں چلا گیا۔اس اسکول میں وہ نیا تھا اور کلاس فیلو اس کے دوست نہیں تھے ،وہ خود کو بالکل اکیلا محسوس کرتا تھا ۔ ذوہیب نے کئی بار والدین سے درخواست کی کہ پچھلا اسکول ٹھیک تھا لیکن یہ اسکول ٹھیک نہیں ہے مگر والدین نے اس کی باتوں پر کبھی توجہ نہ دی اور آخر اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔
ڈاکٹر نے زاہد صاحب سے یہ ساری بات بتانے کے بعد کہا : دیکھیں اب آپ کو اپنے بچے کا بہت خیال رکھنا ہوگا ،ٹین ایج بہت حساس عمر ہوتی ہے ،اس عمر میں والدین کو بچے کا دوست بن کے رہنا چاہئیے تاکہ وہ اپنے مسائل آپ سے شئیر کرسکے۔ یاد رکھیں کہ آپ کے بچے کی جان ہر چیز سے ذیادہ قیمتی ہے ، اس کے گریڈز ،اس کی فیس ،ہر چیز سے زیادہ یہ جان قیمتی ہے !
جی ٹھیک ہے ،میں ذوہیب کو دوبارہ واپس اسی اسکول میں ایڈمیشن دلواتا ہوں جہاں وہ خوشی سے پڑھ رہا تھا۔
~ باغباں ہو تو آندھی کا خیال رکھنا
پھولوں کو بکھرنے سے بچانا بھی ہے !
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.