تحریر: کرن عباس کرن
شب کے دبیز سناٹے کو چیرتے ہوئے آواز ابھری۔
“کیا تلاش کر رہے ہو؟”
“خود کو تلاش کر رہا ہوں۔”
ہاہاہا۔۔۔ کیا تم پاگل ہو؟
“ہاں شاید۔”
ایک اور قہقہ بلند ہوا۔
دھیمی لو تھامے ایک تیسرا شخص گلی کے کونے سے ان کی جانب بڑھتے ہوئے آیا۔
’’احسن یہ تم کس سے بات کر رہے ہو؟‘‘
’’معلوم نہیں۔ شاید پاگل ہے کوئی۔‘‘
آنے والے شخص نے مندھم روشنی میں سر تا پا اس کا جائزہ لیا اور پھر کچھ خوف محسوس کرتے ہی وہ اپنے ساتھی احسن کا ہاتھ تھام کر اسے کھینچتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ وہ دونوں گہری تاریکی میں روپوش ہو چکے تھے۔
اس سے پہلے کہ اس کی مڈ بھیڑ پھر کسی اور سے ہوتی، پاگل کہلایا جانے والا شخص تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے گھر کے راستے پر چل پڑا۔
’’اف یہ انسان رات کی تاریکی میں تو سکون سے رہنے دیں۔‘‘ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا وہ گھر میں داخل ہو چکا تھا۔
تمام گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا البتہ سڑک کی جانب ایستاذہ برقی قمقمہ روشن تھا۔ اسی روشنی میں چلتے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا اور یکمشت اسے روشن کر دیا۔ آنکھوں میں تیز روشنی کی چبھن محسوس کرتے ہی وہ جھنجھلا اٹھا۔
ان دنوں ہر شے اس پر جھنجھلاہٹ طاری کر رہی تھی، حتیٰ کہ روشنی بھی۔
کمرے میں داخل ہونے کے بعد ایک بار پھر اس کی مڈ بھیڑ آئینے سے ہوئی۔ یہ آج دن میں دوسری بار ہوا تھا جب آئینے میں اس نے اپنی حقیقت یوں عیاں دیکھی تھی۔
عکس تو وہ روز کئی بار دیکھتا تھا۔ حقیقت دیکھنے کا تجربہ اسے ابھی دوسری بار ہو رہا تھا۔
’’میں لوگوں کی گفتگو میں بھی یہ حقیقت کئی بار دیکھ چکا ہوں، پھر میں نے توجہ کیوں نہ دی۔‘‘ اس نے سوچتے ہوئے تاسف سے سر ہلایا۔
’’دی ہی تو ہے، تب ہی تو آج ایک الگ زاویے سے خود کو دیکھ رہے ہو۔‘‘ اس کے من سے ایک صدا اسی کے خیالات کی نفی کرتے بلند ہوئی۔
’’تو کیا لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘
’’نہیں مگر تم لوگوں کی باتوں پر توجہ کرنا ترک کر دو۔ اپنا عکس لوگوں کے تراشے سراپے میں مت تلاشو، نہ ہی آئینے میں۔ اپنا عکس اپنے دل میں دیکھو۔ اکثر ہم اپنی صورت ہوبہو ویسی دیکھنے لگتے ہیں جیسے لوگوں کو دکھائی دیتی ہے مگر حقیقت نہیں ہوتی۔‘‘
’’اوں ہوں پتا نہیں یہ دماغ بھی کیا الا بلا سوچنے لگا ہے۔ کیسی کیسی باتیں بنا رہا ہے۔‘‘ ایک بار پھر اس نے تمام بے ہنگم سوچوں کو جھٹلایا اور آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
اپنے ہاتھوں سے چہرے کے ایک ایک حصے کو چھو کر دیکھا، اپنے آنکھوں میں جھانکا۔
یہ میں نہیں ہوں””
اپنی صورت دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔
’’لوگوں کی نظر سے خود کو دیکھو گے تو ایسا ہی پاؤ گے۔‘‘ من سے ابھرتی صدا پھر اس پر جھنجھلاہٹ طاری کرنے کو کافی تھی۔
میں کب لوگوں کی نظر سے خود کو دیکھ رہا ہوں، کیا یہ حقیقت نہیں میری۔ کیا میری روشن آنکھوں میں بےپایاں صحرا کی ویرانیوں کی طرح وحشت نہیں اتر چکی؟ کیا میرے پربہار مسکراتے چہرے پر بوڑھے خزاں کی سی ویرانیاں ثبت نہیں ہو چکیں۔ اگر کوئی مجھے میری اس بدتر حالت کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے تو کیا وہ غلط کہہ رہا ہے۔ نہیں نا؟
’’ابھی چند لمحے پہلے تمہیں پاگل کہا گیا اور تم نے من و عن اسے قبول کیا۔ حیرت ہے۔ تمہاری اپنی خود بینی کی صلاحیت سلب ہو چکی ہے؟ ‘‘ مجھ میں ایک دوسرا شخص مجھے کٹہرے میں کھڑا کر کے اپنا ہی مجرم ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔
’’لوگ غلط نہیں ہیں۔ وہ سب ٹھیک کہتے ہیں، کیا مجھے اپنی حالت دکھائی نہیں دے رہی۔ کیا میں اپنی ذہنی کیفیت سے نابلد ہوں۔‘‘ میں چلا اٹھا
’’تم نے یہ کیفیت خود ہی خود پر طاری کر رکھی ہے، لوگوں کی رائے تمہارا روپ بن چکی ہے۔ لوگوں کے کہے کو تم نے اپنی صورت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ‘‘ میں بےبسی سے سن رہا تھا
’’دیکھو تو سہی، ذرا غور کرو آئینے میں یہ جو شبیہ تمہیں دکھائی دے رہی ہے اس کے نیچے کیا ایک اور شبیہ موجود نہیں۔ غور سے دیکھو۔‘‘ میں پھر سے آئینے کی طرف متوجہ ہوا۔
میری آنکھیں اب بھی وہی دیکھ رہیں تھیں جو آئینہ دکھا رہا تھا۔ لوگ بھی تو آئینہ تھے۔
’’یہ دیکھو بنجر نگاہیں، شکستہ حالی، چہرے سے جھلکتی شکست و ریخت کی شرمساری۔ غم کی تہہ در تہہ لہریں جو میرے چہرے کا اہم ترین مرکب بن چکی ہیں۔‘‘
’’خاموش۔ میں تمہیں غور کرنے کا کہہ رہا ہوں اور تم ابھی بھی سطحی نظر سے دیکھ رہے ہو۔ یہ تاثرات ہیں تمہارا حقیقی چہرہ نہیں۔ اب دیکھو کہ کیسے تمہاری شخصیت مسخ ہوئی۔‘‘ وہ آواز اب قدرے تلخ ہو چکی تھی
میں نا چاہتے ہوئے بھی اپنے عکس کو غور سے تکنے لگا۔ آئینے میں عکس سمیت گزشتہ کئی واقعات بھی ابھرنے لگے۔ میں حیران اور خوف زدہ کھڑا دیکھ رہا تھا۔ آئینے پر ایک منظر ابھرا
’’تمہیں اپنی تنہائی سے خوف نہیں آتا؟‘‘ میں پرسکون بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا جب میرے ایک عزیز نے میری تنہائی میں مخل ہوتے ہوئے سوال کیا۔ میں جو اس کے یوں مخل ہونے پر بدمزہ ہوا تھا، اس کے سوال پر مزید جھنجھلا اٹھا۔
’’تنہائی سے نہیں مجھے لوگوں سے خوف آتا ہے۔‘‘
’’یہ سب تنہائی چھپںانے کے بےبنیاد بہانے ہیں۔ بھلا تنہائی کو کون بخوشی قبول کرتا ہے۔‘‘ پھر اس نے تنہائی کے اس قدر مضرات گنوائے کہ جیسے تنہائی ایک بھیانک عفریت ہے جو مجھے نگلنے کو تیار بیٹھی ہے۔
اس منظر کے روپوش ہوتے ہی آئینے پر ایک نیا منظر ابھرا
’’آج کے دور میں جینا ہے تو خود کو تبدیل کرو۔ بے حس دنیا میں روبوٹ بن جاؤ۔‘‘ ایک دوسرا قریبی عزیز مجھے نادر مشورہ دے رہا تھا۔ ’’ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر کڑھتے رہو گے تو زندگی کو کیا جیو گے۔ پتھر بن جاؤ پتھر۔‘‘
اور پھر اس جیسے مزید کئی واقعات آئینے پر چلنے لگے۔ جہاں میرے رہن سہن، میری عادات و اطوار کو اس طرح زیرِ بحث لایا کہ مجھے خود پر ترس آنے لگا۔ یہی نہیں میری مطمئن زندگی کو ناکام دکھا دکھا کر مجھے غیر مطمئن کر دیا گیا۔ یوں میں جو بے فکر جینے والا تھا اب ان گنت پریشانیوں کے گرداب میں جکڑ دیا گیا۔ آئینے میں میرے عکس میں ہر واقعہ کے بعد ایک نیا تغیر رونما ہو رہا تھا۔ ہر گزرتا چہرہ ایک نئے چہرے میں تبدیل ہو رہا تھا۔ بالآخر ایک بھیانک صورت ابھری۔ یہی میری آج کی صورت تھی جس کی جھلک کچھ لمحہ پہلے میں دیکھ چکا تھا۔
’’دیکھ لی اپنی حقیقت؟‘‘ کافی دیر سے خاموش آواز پھر ابھری۔
تم نے یہ صورت خود تشکیل دی ہے۔ ارد گرد لوگوں کی ہر رائے تمہارا سراپا بدلتی رہی۔ تمہیں تمہاری ہی نظر میں برا دکھا دکھا کر وہ رائے ہی تمہارا چہرہ بن گئی۔‘‘
یہ آواز مجھے حقیقتاً جھنجھوڑ رہی تھی۔ میرے سارے جسم پر کپکپاہٹ طاری تھی۔
’’خود کو دوبارہ دریافت کرو۔‘‘ اب کی بار میرا سر درد کی شدت سے ریزہ ریزہ ہونے لگا تھا۔
میرے ذہن میں بار بار یہی صدا گونجنے لگی۔ ’’خود کو دوبارہ دریافت کرو۔‘‘ میں دونوں ہاتھوں سے سر تھامے اس کے خاموش ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ وہ صدا لمحہ بھر کو دھیمی ہوئی اور اب کچھ لمحہ پہلے لگایا گیا لیبل میرے ذہن میں مسلسل گونجنے لگا۔ ’’پاگل ہے کوئی۔‘‘
میرے ذہن میں بیک وقت دو آوازیں گونج رہی تھیں اور میرا ذہن ان کے بیچ فٹ بال کی طرح پس رہا تھا۔ میں نے آؤدیکھا نہ تاؤ، پاس پڑا گلدان اٹھا کر آئینے کو ٹکرے ٹکرے کر دیا۔ ایک سسکی ابھری۔ آوازیں خاموش ہو چکی تھیں۔ کانچ میرے ہاتھوں میں پیوست ہو کر خوب لہو بہا رہی تھی، اور میں مکمل پرسکون ہو چکا تھا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.