دانیال حسن چغتائی
“زمین اداس ہے ” یہ نام پڑھ کر آپ نے بھی حیرت سے انگلیاں منہ میں داب لی ہونگی کہ زمین کیوں اداس ہونے لگی ۔ لیکن جناب حیران مت ہوں ، یہ واقعی ایک کتاب ہے جسے پریس فار پیس فاؤنڈیشن جیسے عہد ساز ادارے نے شائع کیا ہے۔ پریس فار پیس فاؤنڈیشن جیسے ادارے کے لئے اگر یہ بات کی جائے کہ وہ آیا ، اس نے دیکھا اور فتح کر لیا تو بے جا نہ ہوگا ۔
سال رواں میں جون میں ماحولیات کے عالمی دن پر فیس بک کے ایک گروپ ادیب نگر میں قلم کاروں کے مابین من ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں ایک مقابلہ کروایا گیا۔ ادیب نگر کی بانی تسنیم جعفری صاحبہ ہیں ، اور انہی کے ذہن میں یہ اچھوتا آئیڈیا آیا کہ مقابلہ میں شامل کہانیوں کو مجتمع کر کے کتابی شکل دی جائے۔ تسنیم جعفری صاحبہ خود بھی ادبی حلقوں میں سائنسی موضوعات پر لکھنے کے حوالے سے جانی جاتی ہیں اور اب یہی موضوعات ان کی پہچان بن چکے ہیں۔
خیر اگر کتاب کی بات تو سرورق انتہائی دیدہ زیب جسے کارڈ شیٹ پر شائع کیا گیا ہے۔ سرورق میں زمین کی پریشانی کو خاص طور پر اجاگر کیا گیا ہے ۔ اگر سوچا جائے تو ان سب ماحولیاتی تغیرات میں ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ کتاب کا انتساب زمین سے محبت کرنے والے سب لوگوں کے نام کیا گیا ہے ۔ اگلے صفحہ پر قلم کاروں کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ کتاب میں تقاریظ کے علاؤہ اکتیس کہانیاں اور ایک نظم شامل کی گئی ہے۔ اس کتاب میں دیگر کہنہ مشق لکھاریوں کے ساتھ راقم الحروف کی ٹنکو کی ذہانت نامی تحریر بھی شامل ہے ۔ کتاب میں کہانیوں کی مناسبت سے تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں ۔ اگر کاغذ کے معیار کی بات کی جائے تو پریس فار پیس فاؤنڈیشن نے اس ضمن میں سبھی معاصر اداروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ جس معیار کا کاغذ مجھے اس ادارے کی کتب میں دیکھنے کو ملا ہے ، دیگر اداروں کی کتب میں نہیں ملتا ۔ اس کے ساتھ ساتھ پروف ریڈنگ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔ اور غلطی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ۔ اگر بشری تقاضوں کے مطابق ایک آدھ نکل آئے تو الگ بات ہے ۔
اس کتاب میں بچوں کو کہانیوں کے ذریعے زمین کے تحفظ کا جو پیغام دیا گیا ہے ، وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ کیونکہ کل کو انہی بچوں نے ہی زمام کار سنبھالنی ہے ۔
میں پریس فار پیس فاؤنڈیشن اور ادیب نگر کو اس عظیم الشان کاوش پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ یہ کتاب ہر گھر کی لائبریری میں موجود ہونی چاہیے تاکہ نسل نو کو ماحولیات کے تحفظ کا ادراک ابھی سے ہو سکے ۔