روشنی کا مینار معلمہ : محترمہ سائرہ / پروفیسر خالد اکبر
عالمی یوم اساتذہ پر ایک عظیم معلمہ کو خراج عقیدت پروفیسر خالد اکبر ان کے نام سے میں واقف تھا… وہ پس منظر میں رہ کر سارے کھیل کو ڈائریکٹ کرتی ہیں۔۔ وہ سلف میڈ ہیں۔ ۔ محدود وسائل کے باوجود اپنی سیلف ڈیولپمنٹ اور ذہنی نمو میں تسلسل سے بہتری اور اضافہ کے رستہ […]
سفر نامہ ہندوکش کے دامن میں پر تبصرہ. پروفیسر خالد اکبر
تبصرہ. پروفیسر خالد اکبرجاوید خان کاپہلاسفر نامہ ’عظیم ہمالیہ کے حضور‘شائع ہوا تو راقم الحروف کو اس کے اولین قارئین میں شامل ہونے کا مو قع ملا۔پہلاتبصرہ بھی راقم نے کیا چونکہ جاوید خان ہمارے عہد رفتہ کے ہونہار طلبہ کی فہرست میں ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے دوست بھی ہیں۔اوربطور قلم کار اورکالم نگار […]
کچھ ماضی کے جھروکوں سے ! تحریر : پروفیسر خالد اکبر
تحریر : پروفیسر خالد اکبر ۲۲اپریل سرکاری کاغذات و اسناد کے مطابق ہمارا جنم دن ہے۔ سوشل میڈیا پر اس دن مبارکباد کے کئی پیغامات موصول ہوئے۔ ایک ساعت کے لیے یہ سب بھلا لگا مگر زماں و مکاں سے بالا، تخیل کی آنکھ دور ماضی میں لے گئی اور موڈ کچھ […]
باغ وبہاراں شخصیت کے مالک پرنسپل شوکت حسین ، تحریر : پروفیسر خالد اکبر
تحریر : پروفیسر خالد اکبر اُس کی امیدیں قلیل اُس کے مقاصد جلیل نرم دم گفتگو ،گرم دم جستجو سرخ اور سپید چہرہ،کشادہ پیشانی،دراز قد،گرجدار آواز، چہرے پر تمکنت ،اُجلا لباس اور ہجوم میں نمایاں دیکھائی دینےوالے باغ وبہاراں شخصیت کے مالک پرنسپل شوکت حسین ا لمعروف ڈی پی شوکت صاحب کے بارے میں ایک نظر یا ایک ملاقات میں رائے قائم کرنا مشکل ہوتی ہے۔ چند روز کی رفاقت کے بعد اُن کے شخصیت کی پرتیں کھلتی ہیں توآپ انہیں انتہائی خوش باش،ممان نواز، ہمدرد،ہم احساس،محنتی اور سنجیدہ شخصیت پائیں گے۔ آپ 1960 میں تراڑکھل کے نواحی گاؤں نڑیو لہ کے ایک متمول گھرانے میں متولد ہوئے۔ تاہم بعد ازاں تراڑکھل کے صدیوں سےمشہور تاریخی اور خوب صورت چار چناروں سے اس قد ر مسحور اور متاثرہوئے کے انکے عین رُو برو اپنے آشیانہ ایستاد کر دیا۔ ا نٹر میڈیٹ تک تعلیم تراڑکھل سے حاصل کی۔ گریجویشن اور فزیکل ایجوکیشن کی ماسٹر ڈگریاں پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں فٹ بال اور والی بال کے عمدہ کھلاڑی رہے اور طلبہ تنظیموں میں بھی فعال کردا ر ادا کیا۔ بطور ڈائریکٹر فزیکل ایجو کیشن شعبہ کالجز کو جوائن کیا اور یوں اپنے مادرعلمی انٹر کالج تراڑکھل سے ۱پنے کیریز کا آغاز کیا۔ سروس کے دوران خوش بختی کا بھر پور ساتھ رہا۔پورے 36 سال کے عرصہ میں صرف ایک دفعہ تبادلہ ہوا۔ وہ بھی گرلزانٹر کالج ترٓاڑکھل کے پرنسپل کے طور پر۔۔ یوں اپنا نشیمن سے دونوں جائے کار صرف Stone’s throw کے فاصلہ پر واقع ہوئی…بس ہاتھ کو زرہ سا twist دینے کی ضرورت رہی۔ گرلز کالج کا پرنسپل بننے کے بعد اُنھوں نے اس ادارہ کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ تراڑکھل اور نواح میں گرلز کی Strength کے بل بوتے پر بڑھتے ہوئے کئی کالجز کے قدم رک گئے۔ ایک غیر معروف کالج کو انتہائی کامیاب ادارہ میں ڈھالنے کاسہرا یقیناً انہیں کے سر ہے۔ بعد ازاں 2016 میں ان کی ٹرانسفر بوائز ڈگری کالج تراڑکھل میں بطور سر براہ ادارہ ہوئی جہاں انہوں نے اپنی بقایا سروس مکمل کی اور بیس فروری 2021 کو ملازمت سے سبک دوش ہو ئے۔ بے شک آپ نے بوائز دگری کالج تراڑکھل کو آزاد کشمیر کا صف اول کا ادارہ بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ انھو ں نے جب سے چا رج سمبھا لا اس ادارہ کے تما م شعبو ں میں اصلا ح او ر بہتری لا نے کی پو ری کو شش کی.. اور یقناً وہ بڑی حد تک اسے Turn around کر نے اور مطلو بہ اہداف حا صل کر نے میں کا میا ب ہو ئے۔انھو ں نے انفر ا سٹر ہکچر کی تعمیر، بہتر سولیا ت کی فراہمی،نظم نسق کی بہتر ی،عمو می ما حول کو آموزش پرو ردہ بنا نے اور سب سے بڑہ کر تعلیم کی مقداری حا لا ت کو کفیتی حا لت یعنی کوالٹی ایجو کیشن میں بد لنے کی ہمہ جہتی کو ششیں کی۔ اپنی پرو ایکٹو افتاد اور شخصی تعلقا ت کا فا ئدہ ا ٹھاتے تے ہو ئے انھو ں نے تما م ذرائع سے اس ادارے میں سہو لیا ت کےفر و غ کے لیے کا و شیں کی… مخیر حضر ات اور اداروں سے بھی تا ل میل پیدا کیا اور مدد حا صل کی۔۔ادارہ کے احا طہ میں خو ب صو رت مسجد کی تعمیر،پا نی کی سولیات کی فر اہمی اور اعلی قسم کے پودوں کی افزائش اس کی نمایا ں مثا لیں ہیں۔ اس کے سا تھ سا تھ کا لج کی تز ئین و آ را ئش اور صفا ئی ستھر ائی پر خصو صی تو جہ دی۔یہی وجہ ہے کہ بو ائز ڈگر ی کا لج کا شما ر اب آ زاد کشمیر کے خو ب صو ر ت تر ین کا لجز میں ہو تا ہے۔ ان کا سب سے اہم قدم اور حا صل محدو د سٹا ف کے سا تھ ادارہ میں ما ڈل سائنس کلا سز کا اضا فی آ غا ز اور اس کے نتیجے میں حا صل ہونے والی شا ند ار کا میا بی تھی …. یقیناً پہلے تعلیمی سا ل کے غیر معمو لی نتا ئج اس جو ہر ی تبد ہلی کا منہ بو لتا ثبوت ہیں۔پر ی میڈ یکل کی ایک طا لبہ نے ضلع بھر میں پہلی اور بور ڈ میں نما یا ں پو ز یشن حا صل کی۔اس کے علا وہ بارہ طلبہ نے اے پلس اور آٹھ نے اے گریڈمیں کامیابی حاصل کی – اس کے سا تھ سا تھ دیگر سا ئنس سکشینز اور علم و ادب گرو پ کے نتا ئج بھی صد فیصد ی رہے۔ اسی وجہ سے وہزہین طلبہ جو دیگر شہروں خصوصاً پاکستان کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے تھے اس کا لج کا رخ کر نے پر مجبور ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتہائی محدود وسائل کے باوجود بی ایس کے چار شعبوں کی شروعات کی اور یوں عام زہین طلبہ کی بھی ماسٹر ڈگری کی سطح تک تعلیم تک رسائی مقامی طور پرممکن ہوئی۔ لا ریب ،بو ائز ڈگر ی کا لج ہمیشہ تر اڑکھل کے تعلیمی ادا رو ں میں سب سے نما یا ں رہاہے بلکہ اس کا شما ر آ زادکشمیر کے اچھے تعلیمی ادارو ں میں ہو تا رہا ہے۔ اس ادارہ کی کا ر کردگی ما ضی میں ہر دور میں نما یا ں رہی۔ اس ما درعلمی نے کئی اسا تذہ،پرو فیسرز،انجنیرز ، بیورو کر یٹس،بز نس مین، سما جی اور سیا سی شخصیا ت کو جنہم لیا…بلکہ زند گی کے تما م شعبو ں کے لئے قا بل قدر انسا نی سر مایہ تیار کیا…سردار شوکت حسین سے قبل کئی علمی اور ادبی شخصیات اس کالج کے سر براہ ادارہ رہے جنھو ں نے اپنی بساط کے مطابق اس ادارہ میں بہتری کے لئے کاوشیں کی مگر جس جانفشانی،حکمت و تدبر اور منصوبہ سا زی سے انھو ں نے اس ادارہ کو بہتر کیا،اسے چار چاند لگائے ، اسے ایک کامیاب اور صف اول کی درس گا ہ بنایا وہ صرف انھی کا خاصہ رہا۔ اس حوالے سے ان کا نا م سنہری حروف سے لکھے جانےکے قابل ہے اور یقیناً لکھا جائے گا۔ پبلک سیکٹر میں اونرشپ کے احساس کا فقدان ہمار ا بڑا المیہ ہے جس کی وجہ سے ہماری کارکردگی من حیث القوم ایک سوالیہ نشان ہے۔ اسی کے سبب ہمارے ہاں روز افزوں حالات میں ابتر ی،شخصی اور نجی اجار داریوں کا فروغ اور مابعدا ستحصال فی زمانہ فروغ پاتا آیا ہے ۔سردار شوکت کی بحثیت منتظم سب سے بڑی خوبیی قابل تقلید مثال ادارہ کو پوری روح کےساتھ اون کرنا کرناہے۔ اوقات کار کی بندش سے آ زاد اپنے زاتی دولت خانہ کی طرح ادارہ کی ساکھ اور اچھے امیج کے فروغ کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا ان ہی کاامتیاز رہا ۔ ان کے اس جذبہ اور غیر معمولی کار کردگی کے سبب بہت کم عر صے میں بوائز ڈگری کالج تراڑکھل آزاد کشمیر کے صف اول کے اداروں میں اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ اور اسمیں کام کرنا اورخدمات انجام دینا سب احباب کے لئے باعث افتخار اور طمانیت کا باعث بنا۔ شوکت خان صاحب کی کمیونٹی سے روابط اور رسوخ بھی اتنہائی گہرا اور و سیع رہا۔وہ تمام طلبہ اور ان کے پور ےپس منظر سے مکمل متعارف اور آگاہ رہتے ۔ اس حوالے سے ان کا حافظہ بھی با کمال تھا۔۔ ان کے انتہائی کامیاب منتظم رہنے میں ان کی اس خوبی کا بڑا عمل دخل تھا۔ طلبہ کی تربیت اور نمو اور اداروں کے انتظام و انصرام میں یہی خوبی سب سے حاوی اور بھاری شمار کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں پبلک تعلیمی ادارے معاشرہ کے درمیان میں جزیرہ بننے اور رہنے کے متمنی رہتے ہیں حالانکہ کسی بھی تعلیمی ادارہ کا مقصد معاشرے کے لیے تربیت یافتہ، تہذیب یافتہ،متمدن اور تخلیقی صلاحیت سے بھر پور نسل نو کی تیاری ہوتاہے ۔بے شک تعلیمی و تربیتی عمل میں کمیونٹی کی شمولیت […]
بنجونسہ جھیل کی توسیع : مضمرات اور امکانات، پروفیسر خالد اکبر
بنجونسہ جھیل کو پورے پونچھ ڈویژن میں بالخصوص اور پورے آزاد کشمیر میں بالعموم سیرو سیاحت کی سرگرمیوں کا Hubاور علامت قرار دیا جائے تو یہ بات کسی بھی قدر مبالغہ آمیز نہ ہوگی۔ گھنے جنگلات، صنوبر، دیاروں اور بیاڑ کے دیو قامت درختوں کے دامن میں واقع یہ جھیل اپنے دلفریب نظاروں کے سبب […]
ریٹائرڈ اورڈھلتی عمر کے افراد اور حیاتِ نو- پروفیسر خالد اکبر
وہاں کے نفسیا ت دانوں، محققین اور ارباب صحت کو اس بات کی تشویش ہوئی..اور بہت زیادہ ہوئی کہ ایک ایسا ملک جس میں ایک فرد کی اوسط عمر 70سے 75سال ہے وہاں ریٹائرمنٹ کے کچھ سالوں بعد اچھے خاصے صحت مند اور دوران ملازمت تندرست و توانا ملازمین اتنے جلدی کیوں مر جاتے ہیں۔ ہمارے […]
رفتگا ن دل میں بسا کر تے ہیں کیسے کیسے
مر حوم ڈی آئی جی الیاس کی یاد میں پروفیسر خالد اکبر بیتے دنوں کی بات ہے۔ ہم جامعہ کشمیر میں انگر یزی زبان و ادب میں ما سٹر ڈگری کی دیر ینہ خوا ہش دل میں سمائے داخل ہو ئے۔ انگر یزی زبان کی ہماری شُدبُد اور آگہی روا یتی اداروں میں پڑھنے […]