کتاب کا نام: خونی جیت
مصنف کا نام: محمد احمد رضا انصاری
تبصرہ نگار: اُم ابراہیم
کتاب “خونی جیت” میں نے عید الفطر پر لی تھی لیکن مصروفیات کے باعث پڑھ نہ سکی تھی۔ آج ہی کتاب مکمل کی ہے۔ کتاب کا موضوع بچوں کی دلچسپی کے عین مطابق جنگلی حیات اور پرندے ہیں۔ ہر کہانی میں بچوں کے لیے ایک خوبصورت سبق موجود ہے۔
کہانیوں میں جانوروں کے کرداروں کو مزے مزے کے نام دیے گئے ہیں جس سے دلچسپی بڑھتی ہے اور کہانی مکمل پڑھے بغیر چین نہیں ملتا۔
“اور سوچ بدل گئی” میں کوکو کینگرو کے ساتھ ایسا کیا واقعہ پیش آیا کہ انسانوں کے متعلق اس کی سوچ ہی بدل گئی؟ یہ تو آپ کو کہانی پڑھ کر ہی پتہ چلے گا۔
چنٹو اور پنٹو کے رات کو بولنےکی کیا وجہ تھی جو اسمر کو معلوم ہوئی اور اس نے اس کا کیا حل نکالا ؟ یہ آپ تبھی جان پائیں گے جب آپ پڑھیں گے “اور وجہ معلوم ہوگئی” اسی کتاب میں۔
کتاب کی اہمیت صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو کتابیں پڑھتے ہیں اور کتابوں کی قدر کرتے ہیں۔ کتابیں انسان کی بہترین دوست ہیں۔۔۔انسان کے اخلاق سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ کوئی اگر اپنی عادت و اخلاق پر کام کر کے ان کو بہتر کر رہا ہو تو لوگ اس کو بار بار اس کا برا ماضی یاد دلانے لگ جاتے ہیں جس سے اصلاح کے سفر پرمنفی  اثر پڑسکتا ہے۔۔۔اور وہ انسان بجائے سنورنے کے واپس انہی عادات کو اپنا لیتا ہے۔
کتاب پڑھنے کے شوق نے کیسے ریٹو کے اخلاق و عادات بدلے؟ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو آج ہی “خونی جیت” خرید کر پڑھیے۔
یہ کتاب پڑھ کر مجھے معلوم ہو کہ انگور صرف کھٹے نہیں ہوتے میٹھے بھی ہوسکتے ہیں، جیت ہمیشہ کچھوے کی نہیں ہوسکتی،خرگوش کی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔بھلے ہی وہ نیند کا شوقین ہو لیکن ہمیشہ مقابلے کے وقت نہیں سو سکتا۔
کتا بھی اب سمجھدار ہوگیا ہے۔۔۔پانی میں نظر آنے والے عکس کو دوسرا کتا نہیں سمجھتا اور گوشت کا ٹکڑا بچا لیتا ہے۔
جگنو کی کہانی سے ایک نہایت اہم سبق جو میں نے اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ خلوص دل سے اللہ سے دعائیں کی جائیں تو وہ بند دروازے بھی کھول دیتا ہے۔
“تومڑے والی بڑھیا”کی کہانی سے مجھے ایک بھولی بسری کہانی یاد آ گئی جو بچپن میں شاید کہیں پڑھی تھی۔۔۔تھوڑی تھوڑی ملتی جلتی تھی۔
“خونی جیت” میں شارک سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔۔۔لیکن باقاعدہ پلاننگ سے یہ ممکن ہوگیا۔
بی بطخو کو ہے ایک اچھے دوست کی تلاش۔ بی بطخو کی دوستیں کون بنیں؟
“بی لومڑی کا احسان” کیا ہے؟
اور “بیل کے بندر”کی کیا کہانی ہے؟
مہرو نے کس طرح مجرموں پکڑنے میں مدد کی؟
یہ سب اور بہت کچھ آپ پڑھ سکیں گے اس کتاب میں۔
اور ہاں۔۔۔۔اس کتاب میں ایک ناولٹ بھی ہے۔۔۔جو یقیناً آپ کو پسند آئے گا۔
ظلم کی رات بھلے ہی کتنی طویل کیوں نہ ہو ایک نہ ایک روز اس کی سحر ضرور ہوتی ہے۔ اندھیرے کے بعد اجالا ہے اور ہر پریشانی کے بعد آسانی۔
امید بھری یہ سطریں اس ناولٹ کا حصہ ہیں۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact