بسمہ تعالٰی

مصنف۔۔ذیشان یاسین

تاثرات: قانتہ رابعہ

پبلشرز۔۔پریس فار پیس پبلیکیشنز

قرآن مجید میں ایک بہت خوبصورت تزکرہ اس منظر کا ہے جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے اور اپنے اپنے اس عمل کو یاد کریں گے جو ان کے خیال میں جنت میں داخلے کا سبب بنے ۔۔۔یعنی وہ اپنے دنیوی ماضی کو یاد کریں گے۔

قرآن مجید میں اسے ایام الخالیہ کہا گیا ہے۔

ماضی اچھا ہو تو اسے یاد کرتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے اور اگر تلخ اور افسردہ کردینے والا ہو تو چہرہ غم کا آئینہ بن جاتا ہے۔

معاملہ اس وقت ناقابل فراموش ہوجاتا ہے جب سفر کرنے والا پہاڑوں ، جنگلوں، صحراؤں کی خاک چھانے اس کا زاد راہ حددرجہ حساسیت ہو کسی قسم کا کوئی ہمسفر ساتھ نہ ہو اور وہ ماضی میں پہنچ جائے۔

اسے ماضی کی پرسکون زندگی ، پر شکوہ عمارات ، جنگلوں کی ہریالی یاد آئے اور وہ موجود سے سارے ناتے توڑ کر ماضی میں قیام کرے۔

اس کے پاس سوچنے والا دل ہو، اور وہ ماضی کی حسین یادوں میں سے کبھی اونٹوں کی آنکھوں میں جھانک کر داستان گوئی کی تلاش میں مصروف ہو، کبھی نہروں کا بہتا پانی سرگوشی میں اپنی داستان سنائے، کبھی صحرا کی چنچل دوپہریں اور اداس شامیں اسے بے چین رکھیں تو کبھی ٹیلوں کی اوٹ میں ستانے والے مسافر کا حال دل جاننے کی خواہش ہو۔

کتاب “اسیر ماضی” ادب کی کسی بھی  صنف سے بھی تعلق رکھتی ہو لیکن میرے خیال میں اس کے اندر ادب کی دونوں اصناف نثر اور نظم دونوں کے رنگ پائے جاتے ہیں اس میں داستان گوئی کا رنگ بھی ہے۔ خاص طور پر جب وہ چرواہوں ، ساربانوں اور کشتیوں کے ملاحوں کے دل کی داستان سناتے ہیں۔

میں سوچ رہی ہوں کہ لکھنے میں اگر وہ قاری کو خوبصورت لفظوں کی چاشنی سے مسحور کرتے ہیں ، فقروں کی بنت اور اٹھان ایسی ہے جیسے دریا کی روانی سمندر کی لہریں ، تو یہی لکھا ہوا جب قاری کو سنایا جائے بطور سامع اس کے کیا احساسات ہوں گے؟

“اسیر ماضی” میں تشبیہات اور استعاروں بھی ہیں، خوبصورت علامتیں بھی ہیں۔  در حقیقت اسیر ماضی ڈھیر سارے کاف کی کہانی ہے۔

کبھی انہیں جنگلوں کے درخت کٹنے اور نہروں کے پانی خشک ہونے کا کرب بے چین کرتا ہے تو کبھی وہ کائنات میں رب ذوالجلال کی مخلوقات کے دکھوں کی کھوج میں دکھائی دیتے ہیں۔

میں “اسیر ماضی” کے مطالعہ سے فارغ ہو تو گئی ہوں لیکن میرے دل و دماغ اس خوبصورت نثرپارے کے سحر سے نہیں نکل سکے!  مجھے لگتا ہے یہ احساسات ضروری نہیں کہ انسان کسی کہانی ناول افسانے کے مطالعہ کے بعد حاصل کرسکے۔ ان کی تحریر میں کائنات کے اسرار و رموز کی بات ہے۔ مثال کے طور پر وقت کی بات کریں تو اللہ رب العالمین نے اس کی قسم کھا کر اسے خاص کیا لیکن وقت کے چوبیس گھنٹوں میں سے ہم بس صبح دوپہر شام کے تذکرے تک محدود رہتے ہیں۔ ذیشان یاسین نے جب یہ لکھا:

“وقت کو یہیں روک دیجئیے میں نے حال سے جدا ہو کر ماضی میں جانا ہے مجھے ماضی میں لوٹا دیجئیے،”

مرشد نے بے چینی سے مسند پر پہلو بدلتے ہوئے فرمایا :” حال کے امر کو پہچانو ماضی خواب ہوچکا سراب کی جستجو مت کرو”۔

تو وقت کے پل پل کی تفصیل قاری کو اس لازوال نعمت سے آگاہ کرتی ہے ۔

“سرما کی خنک شامیں وصل کی بجائے فصل سے عبارت ہیں”۔

” سرد شام ایک ایسی غزل ہے جس کا مطلع اداسی اور مقطع تنہائی ہے،جبکہ درمیان کے سارے مصرعے ہجروفراق پر مشتمل ہیں “

” سرد شام میں دل کسی پرانی ویران آسیب زدہ حویلی کی طرح اداس اور تنہا ہوجاتا ہے”

” میں جب شام کے قدموں کی چاپ سنتا ہوں تو ذات کے حصار سے نکل کردوں سے جدا ہوجاتا ہوں گھر والے مجھے گھر کے کمروں اور برآمدوں میں تلاش کرتے ہیں “

قارئین صرف شام نہیں صبح، علی الصبح ، دوپہر سہہ پہر ، اترتی رات ” گہری اندھیروں والی سب گویا وقت کا کون سا پہر ہے جس پر انہوں نے نظریہ نثر میں قاری کے دلوں کے تار نہیں چھیڑے لکھتے ہیں۔

یہ  تزکرہ ، صبح صادق کا وقت تھا، باد صبا میں ان کی آوازوں کا ترنم ہے۔ پہاڑوں  وادیوں میں ان کے نغمے گونجتے ہیں۔

صبح کے وقت پرندے چہچہاتے  اور درختوں سے کچھ باتیں کرتے ہیں اور پھر تلاش رزق میں انجان راہوں کی طرف پرواز کرجاتے ہیں “

لیکن رات کا بزبان قلم تزکرہ تو عجب کیفیت ظاہر کرتا ہے۔

نیم شب کی ملگجی تاریکی،نصف شب کو کسی پرانی سرائے کی کہنہ سیڑھیوں پر بیٹھنا،تاریک شب کا اپنے عمیق دامن میں تمام رنج و الم سمیٹنا، ڈھلتی رات کے بدلتے رنگوں میں جاگتی آنکھوں کے خواب

 بکھرنا، رات جب آخری پہر میں داخل ہوتی ہے تو شب بیداروں سے جدائی کے غم میں خود بھی غمزدہ ہونا

ماضی میں مصنف کے خیال میں

زندگی کی جتنی بھی بھرپور  علامتیں تھیں وہ ان سب کے ختم ہونے یا جدا ہونے پر جس کرب کا اظہار کرتے ہیں اسے نوحہ کہا جاسکتا ہے۔ یوں سمجھئیے یہ کتاب ایک صاحب دل کا نوحہ ہے باغ کا تزکرہ ہے۔ اس سے وابستہ ہر چیز کے دکھ پر اگر جنگلوں کا تزکرہ ہے تو لگتا ہے وہ خود اپنے اندر جنگل بسائے ہوئے تھے جو اب اجڑ چکا ہے۔

لکھتے ہیں:

“جنگل میں دوپہر ڈھلنے اور شام کے اترنے کا منظر عجیب ہوتا ہے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ دوپہر شام میں داخل ہو رہی یے یا شام دوپہر میں،

لوگ جنگل کا بھید نہیں جانتےجنگل کے سکوت اور وحشت سے گھبراتے ہیں

جنگل میں پریاں آئیں یا خرگوش چاند کی کرنوں کے ساتھ جنگلوں میں بھاگتے پھریں ۔

اختتام بہت ہی عمدہ

جنگل بس پرندوں کا انتظار کرتا ہے۔

قصہ مختصر کتاب کیا ہے ؟کہانی اور واضح کردار نہ ہوتے ہوئے بھی تتلیوں، آبشاروں، نہروں ، صحراؤں کی کہانی ہے جس کی بابت لکھتے ہیں لگتا ہے اسی کردار کا حصہ ہیں۔

ہر جملے کے کئی مفہوم ہیں ۔ہر معنی کی تہہ تک اترنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ اقبال نے جس طوفان سے آشنا ہونے کی تمنا کی تھی جناب ذیشان یاسین کے دل میں بھی پوری کائنات کے حسن کو گھناؤنے والوں کا دکھ ہے ،تنہائی کا المیہ ہے ، نوحہ ہے ۔کتاب بہت خوبصورت انداز میں شائع ہوئی ہے ۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ پریس فار پیس اب معیاری عمدہ کتب کی اشاعت کا وہ ادارہ ہے جس کی کتب عام قاری کی رسائی میں ہیں۔

میں اس عمدہ کتاب کی اشاعت پر اپنے شہر جہانیاں کے درد دل رکھنے والے صالح فطرت جناب ذیشان یاسین کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ لغویات کے پیچھے دوڑنے کی عمر میں اللہ نے ان کو جس راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی کائنات اور مخلوق کے جس دکھ اور کرب سےانہیں آشنا کیا یہ محض خدا کی دین ہے ۔

میں پی ایف پی کی تمام ٹیم  اور بھائیوں جیسے مہربان پروفیسر ظفر اقبال صاحب کو بھی اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ خدا انہیں اس مشن میں کامیاب کرے جس کا بیڑہ انہوں نے اٹھایا اور اس کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact