تاثرات: ارشد ابرار ارش

ایچ جی ویلز نے کہا تھا کہ ہم انسانوں کے پاس ٹائم مشینیں ہیں ۔۔۔ کیا نہیں ہیں بھلا۔۔۔؟
وہ جو ہمیں ماضی میں لے جاتی ہیں یادیں ہیں اور وہ جو ہمیں مستقبل میں لے جاتی ہیں خواب ہیں
انسان ماضی کا بندہ ہے ۔
ہم چاہ کر بھی گزرنے دنوں سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے ۔ کہیں کسی موڑ پر ، کہیں کچھ پڑھتے ہو
ۓ ، کہیں کوٸی منظر دیکھتے ہی یاد کی انگلی تھامے ماضی کے دریچوں سے جھانکنے لگ جاتے ہیں ۔ در حقیقت ہم سب اپنے اپنے “ماضی کے اسیر ” ہیں
انہیں گزری یادوں کے عنوان سینچ کر لکھی گئی ایک کتاب  “اسیرماضی” آج میرے ہاتھ میں ہے ۔
حافظ ذیشان یاسین  صاحب سے تعارف ان کی یہی کتاب بنی جو پریس فار پیس پبلیکیششنز کے بینر تلے شائع ہوئی ہے ۔ کتاب کی طباعت اور اشاعت بے مثال ہے ۔ ادارے کی روز افزوں محنت ورق ورق سے عیاں ہے۔
حافظ صاحب فاضل منصف ہیں ، قاری قران ہیں اور عرصہ دراز سے درس و تدریس جیسے معتبر اور پیغمبری پیشہ سے وابستہ ہیں ۔ تالیف و تصنیف میں آپ کے نام پر نمایاں کام موجود ہے جو انہیں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہونے دیتا۔
میں یہاں شکر گزاری کے کچھ کلمات کہنا چاہتا ہوں جو لازم ہیں
دیگر ہزارہا انعامات میں سے ایک قدرت کا انسان پر خاص کرم یہ ہے کہ ہمیں قوت گویا
ٸ عطا کی گئی ۔
ہم انسانوں نے اپنا دکھ ، درد ،غم ، رنج ، الم ، خوشی اور مسرت کو بیان کرنے کا ہنر سیکھا یا پھر سیکھے بغیر ہی یہ سب ہمیں ودیعت کر دیا گیا ، ہماری سرشت میں شامل کر دیا گیا  ۔
ایک نومولود بھی اپنی تکلیف آنسو بہا کر ، رو کر ، اپنے ننھے دہن سے چیخ چلا کر بیان کر سکتا ہے یا پھر ماں کے شفیق اور پرمحبت چہرے کو دیکھ کر مسکرا بھی سکتا ہے
دوسری مخلوقات میں ہم ”خاص الخاص “ ہیں کہ ہم بول کر ، لکھ کر ، گا کر ، نقش ابھار کر یا کسی بھی دوسری صورت میں اپنے احساسات کے ترجمان بنتے ہیں ۔
سب سے بڑھ کر ہم عطا
ۓ ہوۓ ہیں کہ ہمیں ”قلم “ تھمایا گیا ۔۔۔ ہمیں لکھنا سکھایا گیا یوں ہم نے اپنے کتھارسس کا ایک نیا طریقہ تراش لیا۔
اسیر ماضی ایک ایسے ہی قلمکار کی کتھارتھسس ہے جو ہمہ وقت اپنی یادوں کے نخلستان میں ننگے پاوں چہل قدمی کرتا ہے ۔
کتاب کی تمام تحاریر مظاہرٍ فطرت کی خوبصورت عکاس ہیں ۔دوسرے لفظوں میں لفظی سکیچ ہیں۔
کتاب کا لفظ لفظ شاہد ہے کہ ہمارے مصنف عہد گزشتہ کی مر مٹ چکی یادوں ، منظروں ، مسمار فصیلوں ، لرزتی قندیلوں ، پرندوں ، پیڑ پودوں ، جگنو
ٶں ، فاختاٶں ، شتربانوں ، پت جھڑ موسموں ، جاڑے کی سرد شاموں ، گرم دوپہروں اور تپتے صحراٶں کی محبت میں صرف مبتلا ہی نہیں بلکہ پور پور وہ اس عشق میں ڈوبے ہوۓ ہیں ۔
اسیر ماضی پڑھ کر کو
ٸ بھی حساس انسان اپنے گزرے ایام کے نقش قدم پر چلتا ہوا کہیں ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو سکتا ہے ۔
یہ کتاب کسی بھی ادب کے قاری کیلیے لفظی ذخیرہ بننے کی اہلیت رکھتی ہیں ۔
حافظ ذیشان یاسین بھائی کا قلم حیران کن حد تک رواں ہے ۔
لفظ ان پر کچھ اس طرح مہربان ہیں کہ پڑھتے ہو
ۓ رشک آتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں تو قرطاس پر گویا موتی بکھیرتے چلے جاتے ہیں جیسے کسی لفظی خزانے کا دہانہ سا کھل گیا ہو ۔
آپ کو دینی و دنیوی علوم پر دسترس ہے ۔
کثرت مطالعہ نے ان کی نثر کو شاندار حد تک دلکش و دل پزیر بنا دیا ہے ۔ حافظ صاحب اپنی فصیح البیانی سے مجھ جیسے کسی بھی قاری کو اپنی نثر سے باندھے رکھنے کے ہنر سے واقف ہیں ۔
زیر نظر کتاب کا انتساب اس قدر خوبصورت ہے کہ اس مختصر سے انتساب میں قاری مکمل کتاب کا خلاصہ پا لیتا ہے ۔
۔
بحثییت انسان ہم میں سے کوئی بھی خامیوں سے مبرا نہیں ہوتا ۔ ہم مکمل نہیں ہوتے ہم سب کے اندر کہیں نہ کہیں کوئی می ضرور رہ جاتی ہے۔  ہمارے شاہکار کسی نہ کسی آنکھ کو ضرور کھٹکتے ہیں دوسرے لفظوں میں کسی نہ کسی پہلو سے ادھورے رہ جاتے ہیں ۔
حافظ صاحب کے افسانوں کا سقم ان کی تحاریر کی یکسانیت ہے ، موضوعاتی تنوع کا فقدان ہے ۔
رد و تسلیم قبول ۔۔۔۔اگر ہم اسیر ماضی کو افسانوی مجموعہ مان لیں تو بیشتر افسانے کرداروں اور کہانی پن سے عاری ہیں ۔
محض لفظی ملمع کاری کسی افسانے کو مقبول نہیں بنا سکتی ۔
ہم داستانوں کے عادی لوگ ہیں ۔ ہمارے قاری کو کہانی اور کچھ کردار درکار ہوتے ہیں ۔
اگر ہم  اس کتاب کو علامتی افسانوں کی کتاب کہہ لیں تو بھی حافظ صاحب کے افسانے میں علامتی افسانوں کے لوازمات ادھورے ہیں ۔
یہاں محض تنقید یا دل آزاری مقصود نہیں ۔۔۔ ادبی دیانت داری سے کہوں تو اگر  اس پہلو پر توجہ دے دی جا
ۓ تو مجھے یقین ہے ہمارے فاضل مصنف کی آئندہ تصنیفات ادبی شاہکاروں کی فہرست میں شامل ہوں گے ۔

 

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact