Skip to content

عابد محمود صاحب پیشہ قانون سے وابستہ ہیں ۔ ایک ماہر قانون دان اور قانون کے استاد بھی ہیں، قانون، فلسفے ادب ،تاریخ اور بالخصوص عوامی تاریخ سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں ۔قانون پر آپ کوباکمال عبورحاصل ہے جوآپ کی اس حوالے سے تحاریر سے نمایاں ہوتا ہے۔ایک عمدہ مترجم بھی ہیں اورافسانے لکھنے کا بھی اشتیاق رکھتے ہیں۔عابد محمود صاحب کا رجحان سیاست ,تاریخ اور ثقافت کی جانب زیادہ ہے۔
ان کی ترجمہ شدہ کتاب ” عہدِ ظلمات؛برصغیر میں برطانوی سلطنت

“An Era of Darkness ( The british empire in india)
جس کے  مصنف ششی تھرور ہیں۔یہ ہندوستانی سیاست دان اورڈپلومیٹ ہیں۔عابد محمود صاحب کا رجحان سیاست کی جانب زیادہ ہے۔اس کتاب کا انتساب  بہت ہی عمدہ ہے  جس میں یہ اپنے بیٹوں کے ساتھ ان لوگوں کے نام کرتے ہیں جو  تاریخ سے محبت کرتے ہیں لیکن اس کا علم مجھ سے زیادہ رکھتے ہیں اس میں ان کی عاجزی بھی جھلکتی ہے اور تاریخ سے محبت کرنے والوں سے لگاو بھی۔۔۔۔۔عہد ظلمات میں برطانوی سلطنت ہی نہیں بلکہ بہت سی ایسی حکومتیں اور پوشیدہ ہیں جو ہم عام قاری نہیں جانتے۔۔برصغیر میں برطانوی سلطنت کی تاریخ ایک پیچیدہ اور متنوع موضوع ہے۔ اٹھارویں  صدی سے لے کر بیسویں  صدی تک برطانوی سلطنت نے برصغیر میں اپنا تسلط قائم رکھا جس کے دوران وہ اپنے مفادات کے لیے مختلف پالیسیاں اور اقدامات کرتے رہے۔
برطانوی سلطنت نے ہندوستان میں اپنی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے جن میں ریلوے، سڑکیں، نہریں اور ٹیلی گراف کی تعمیر شامل تھی۔ ان اقدامات نے ہندوستان کی معیشت کو برطانوی معیشت کے ساتھ باہم منسلک کیا اور برطانوی سامان کو ہندوستان میں بڑھاوا دیا۔
تاہم، برطانوی سلطنت کی پالیسیاں ہندوستانی معاشرے اور معیشت پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ ہندوستانی صنعتوں کو نقصان پہنچایا گیا اور ہندوستانی کسانوں کو برطانوی سامان کی پیداوار کے لیے مجبور کیا گیا۔ میں عابد صاحب کی اس بات سے متفق ہوں کہ نو آبادیات کے حوالے سے اس طرح کی کتابیات بہت کم ہیں جن  کے تراجم ہونے چاہیں  اور و سامنے آنی چاہیئں  تاکہ قارئین اس سے استفادہ حاصل کر سکیں۔
مصنف نے کتاب کو آٹھ ابواب میں تقسیم کیا ہے دیپاچے میں وہ آکسفورڈ کی تقریر، ہندوستانی رد عمل، تنقید پر غور و فکر ،تاریخ نہ عذر خواہی کے لیے نہ ہی انتقام کے لیے پر مصنف کا اظہارخیال ملتاہے۔ باب اول ہندوستان کا مال غنیمت ہے اس میں اہم عناصر کی طرف روشنی ڈالی گئی ہے جس میں ایک کارپوریشن کی ہندوستان کی فتح، ہندوستانی صنعت کا قلع قمع ،کرپشن، مالیات کی وصولی اور وسائل کا اخراج، ہندوستان کی برطانوی سلطنت کے لیے عسکری شرکت وغیرہ کا ذکر ملتا ہے با ب دوم کیا برطانیہ نے ہندوستان کو سیاسی وحدت عطا کی ؟ اس میں قدیم ہندوستان کا تصور اور مرکزیت کی تحریک، تاریخی حقائق کے منافی ،سیاسی اداروں کی تباہی، برھتا ہوا برطانوی کنٹرول،  حکمرانی کے ادارے کا خاتمہ ،مقامی حکمران کمپنی سے بدتر نہیں تھے، تاج برطانیہ کا اپنے  نگینے پر قبضہ وغیرہ کو عمدہ انداز میں قلبند کیا گیا ہے ۔باب سوم جمہوریت پریس پارلیمانی نظام اور قانون کی حکمرانی جس میں تفصیلی نکات آزادی اور پابندیاں، ہندوستانی اخبارات کا عروج، دیسی زبانوں کا پریس ایکٹ، برطانوی قوانین نو آبادیات کے بعد بھی قائم وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے۔باب چہارم حکومت کرنے کے لیے تقسیم کرو اس میں تقسیم کرو اور حکومت کرو، بطور نو آبادیاتی منصوبہ ذات پات، نسل اور درجہ بندی،  مردم شماری سے اتفاق رائے کیسے ختم کیا گیا ؟برطانوی نو آبادیات کی خود توجیہی، نو آبادیاتی  نظام میں ذات پات کی تجسیم وغیرہ کو عمدہ انداز میں بحث کیا گیا ہےباب پنجم روشن خیال استبدادی حکومت کا افسانہ جس میں روشن خیال استبدادی حکومت کا معاملہ، ضیافت و قحط:  برطانوی اور فاقہ زدہ ہندوستان، برطانوی نو آبادیاتی بالو کاسٹ، قحط اور برطانوی پالیسی وغیرہ کو احسن انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔باب ششم  سلطنت کا باقی ماندہ کیس جس میں برطانوی تعلیمی پالیسی ،مل کا فلسفہ افادیت پسندی، ووڈی ہاؤس، نو آبادیات اور انگریزی زبان، بغیر ہمدردی کے چائے وغیرہ کو بھی تفصیل بحث کیا گیا ہے ۔مصنف نے تمام ابواب  مزید روشنی ڈالنے کے لیے اس کو مختلف نکات میں بیان کیا ہے جس سے اس موضوع پر تفصیلی معلومات ملتی ہے اور تمام مخفی پہلووں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ان کو عیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔باب ہفتم
اس میں ہم عصر مذمت، معاشرتی اصلاح خصوصا ہندوستانیوں کی جانب سے، مسلمان حکمرانوں کے برعکس، برطانوی غیر ملکی ہی رہے وغیرہ جیسے نکات کو بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے ۔باب  ہشتم نو آبادیت کے بعد کی ابتر زندگی اس میں سلطنت کا خمیازہ، استعماری نسیان، آج کی دنیا میں صدائے بازگشت ،نو آبادیات کی مزاحمت گاندھی ازم کی اپیل ،جدید تشدد کے خلاف گاندھی کی غیر حقیقت پسندی وغیرہ کو بھی بہت اچھے انداز میں تفصیل  کے ساتھ بیان کیا گیا ۔کتاب کا موضوع جہاں عمدہ ہے وہیں  مترجم نے اس کو بہتر انداز میں ترجمہ کیا ہے ۔مترجم کا کام بہت اہم ہے کیونکہ وہ مختلف زبانوں کے درمیان میں رابطہ کا ذریعہ بنتا ہے۔ وہ نہ صرف زبانوں کے درمیان میں ترجمہ کرتا ہے بلکہ وہ ثقافتوں، خیالات اور تصورات کے درمیان میں بھی ترجمہ کرتا ہے۔مصنف نے تو کتاب بہترین لکھی لیکن اس کو دوسری زبان میں تبدیل کرنا اور اس کو عمدہ الفاظ میں ڈھال کر ایک عام قاری کے سامنے لے کر آنا یہ سب مترجم کا کریڈٹ ہے  کیونکہ ایک اچھا مترجم وہی ہوتا ہے جس کے ترجمے میں بناوٹ نہ جھلک رہی ہو بلکہ یوں محسوس ہو آپ اصل متن پڑھ رہے ہءں ۔ہمارے ہاں زیادہ تر فکشن کے تراجم  کی جانب رجحان زیادہ  ہے جبکہ ایسی اہم کتابوں کے تراجم  وقت کی ضرورت بھی ہے اورا
یسی کتب کے تراجم کرنا کوئی آسان کام نہیں  اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تاریخ پر مبنی کتابیں ہیں جن میں جگہ جگہ  مترجم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہےان کے ترجمے میں سادگی اور روانی ہے کوئی بے ربط جملے نہیں جس سے محسوس ہو کہ یہ محض ترجمہ شدہ کتاب ہے جو ہمارے ہاں اکثر تراجم میں دیکھنے کو ملتی ہےایک اچھی کتاب کا ترجمہ کرنے کے لیے  مترجم داد کے مستحق ہیں۔!


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact