نام کتاب :  حصارِ نور میں ہوں

 شاعرہ : ڈاکٹر ثروت رضوی

تبصرہ نگار : مظہر اقبال مظہر

عشقِ رسول ﷺ کا ذکر آئے تو دل محبت میں ڈوب جاتا ہے۔ جب مدح سرائی خاتم الانبیاء ﷺ کی ہو، عقیدت و مجذوبیت عشقِ رسول ﷺ کی خوشبو میں ڈوبی ثروت رضوی کی، دعوت و ترغیب پیکرِ شفقت نصرت نسیم کی، سپاسداری مجسمِ ممنونیت صفدر ہمدانی کی، مصوری سید ابرار گردیزی کی، زیبائیِ قِرطاس  ماورا زیب  کی ،  اخلاص ِ نیت ظفر اقبال اور ان کے رفقاء کار کا ہو تو جو شاہکار سامنے آئے گا وہ ڈاکٹر ثروت رضوی کے نعتیہ مجموعہِ کلام “حصارِ نور میں ہوں” جیسا ہی ہوگا۔
“پریس فار پیس پبلیکیشنز” کی جانب سے شائع ہونے والی یہ نعتیہ کتاب، عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہک سے سرشار ہے۔ اس کا آغاز تعارفی تحریروں سے ہوتا ہے جو قاری کو ایک روحانی سفر پر نکلنے کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ سب سے پہلے پبلشر نے ڈاکٹر ثروت رضوی کی شخصیت اور ان کے علمی و ادبی کارناموں کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ روشنیوں کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والی یہ دانشور، مصنفہ، خطیب اور شاعرہ اپنے کلام میں عشقِ رسول ﷺ کے دیپ اس والہانہ انداز سے جلاتی ہیں کہ قاری بھی روشنی کے اس ہالہ میں محصور ہو جاتا ہے۔ اس نئی کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے والد گرامی کے نام کیا ہے۔
یہ محض ایک نیا مجموعہِ کلام نہیں بلکہ عشقِ رسول ﷺ کی ایک دلنشین داستان ہے۔ یہ فصاحت سے لبریز نعت نبی کا گلدستہ ہے۔ اس میں ڈاکٹر ثروت رضوی نے اپنے ہر لفظ کو نورِ محمدی ﷺ سے روشن کر کے قاری کو ایک روحانی سفر پر لے جانے کا مکمل اہتمام کر رکھا ہے۔ اس نعتیہ مجموعے کا عنوان “حصارِ نور میں ہوں” ڈاکٹر ثروت رضوی کی اس دلنشین تحریر کے ذریعے خود ان کے دل کی آواز بن کر ابھرتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں: ‘کب سے۔۔۔۔ شاید عالمِ زر سے حصارِ نور میں ہوں۔ حصارِ نور میں نہ ہوتی تو میں وہ نہ ہوتی جو آج ہوں۔ ایک پُر نور، روشن، شفاف اور نورانی راستہ ہے جس پر چلتی چلی جا رہی ہوں۔’ یہ الفاظ ان کی قلبی واردات، عقیدتِ رسول ﷺ اور عشق و جذب کی گہری عکاسی کرتے ہیں، اور پڑھنے والے کو ان کی روحانیت کی گہرائیوں تک لے جاتے ہیں۔
اس مجموعے کا دیباچہ ڈاکٹر صفدر ہمدانی نے لکھا ہے، جو انتہائی محبت بھرا اور فن نعت گوئی کی گہرائی کا احاطہ کرتا ایک دل افروز سپاس نامہ ہے۔ اس میں وہ نہ صرف ڈاکٹر ثروت رضوی کی عقیدتِ رسول ﷺ، عاجزی، انکساری، ایمان اور روحانیت کی حدت کا ذکر کرتے ہیں، بلکہ نعتیہ شاعری کے ادب و تعظیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ انہوں نے اردو شاعری میں نعت گوئی میں نام کمانے والی خواتین شاعرات کا بھی مختصر تذکرہ کیا ہے۔
اس کے بعد نصرت نسیم نے ڈاکٹر ثروت رضوی کے ساتھ اپنی قلبی اور روحانی وابستگی کا ذکر کیا ہے۔ ان کی تحریر میں وہ ڈاکٹر ثروت رضوی کے نعتیہ مجموعے سے منتخب اشعار کے ذریعے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں، مترنم بحروں، تشبیہات و استعارات، اور لفظوں کے انتخاب کو عشقِ رسول ﷺ کے جذبے سے جوڑتی ہیں۔ نصرت نسیم کے خیال میں ایسا لگتا ہے ثروت نے واقعی روشنی کا قلم لے کر حرف حرف ستارے جڑے ہیں کہ پورا قرطاسِ نعت دمکتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ مجموعہ  نبی پاک ﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت کے جذبات سے لبریز 59 نعتوں کا  گلدستہ ہے، جو عاشقانِ رسول ﷺ کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ ہر نعت میں لفظوں کا چناؤ، خیال کی لطافت اور واردات قلبی کی گہرائی ایسی ہے کہ پڑھتے ہوئے  قاری اس کے سحر میں بندھ جاتا ہے۔  کتاب کی ابتدائی نعت “انگشتری ادب کی نگینہ ہے نعت کا” میں ایسے ہم قافیہ الفاظ جیسے “نگینہ”، “قرینہ”، “سفینہ”، “زینہ”، “دفینہ” وغیرہ، کلام کو ایک نیا رنگ اور لذت بخش دیتے ہیں۔ اگلی نعت میں  وہ جنبش نوک قلم سے  دم بخود ملتمس ہیں کہ انہیں، مدینے کی سمت بصورت نعت نبی پرواز کا اذن عطا ہو، کیا خوبصورت التماس اذن عطا ہے کہ اس کی لطافت وہی جان سکتے ہیں جن کے قلب عشق رسول میں مچلتے ہیں۔  صرف یہی نہیں بلکہ ہر نعت کا کلام ایک ایسی تحریر ہے جسے پڑھتے ہوئے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
جب کلام اس حد تک تاثیر کا حامل ہو، تو یہ محض  شاعری نہیں، بلکہ ایک  مچلتی روح کی تڑپ اور نمناک آنکھوں کا جذب و کیف کا سفر ہے جو کسی خاص اذن و عطا کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر ثروت رضوی کا قلم، خود بخود اُٹھنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا  بلکہ اسے صحیفوں کے سفر سے ہوتے ہوئے کوثر و تسنیم تک پہنچنے کی سعادت حاصل ہوئی، اس کلام میں تمام تر قبولیت و بخشش کی علامات ہیں۔ ان کا قلب مضطرحجرہ تنگ میں بھی روشنی کی کرن ڈھونڈ لیتا ہے۔ جب حرف در حرف صحیفے اترتے ہوں تو تخیل میں کسی نعت کی تشکیل ہوتی ہے۔
نعت لکھنا، پڑھنا اور سننا  یہ سبھی سعادتیں ہیں مگر جس انداز سے یہ سعادت ڈاکٹر ثروت رضوی  کے حصے میں آئی ہے وہ خود اس شعر سے عیا ں ہے    ؎
کتاب عشق میں خوشبو ہے میرے لفظوں کی
مثال ِ بابِ موّدت، رقم ہوئی میں بھی
وہ نعت گوئی سراہے جانے کے مقصد سے نہیں کرتیں بلکہ   ایک  الہامی کیفیت  سے گزرنے کے بعد نعت لکھتی ہیں ۔ ان ابلاغی کیفیات میں  ان کا قلم زمزم و کوثر سے پاکیزگی حاصل کرتا ہے۔  اسے وہ رحمت رب  ، دعائے زہرااور عطائے خاص کہتی ہیں۔
وہ جن خاص کیفیات سے گزر کے نعت کہتی ہیں  ان میں شب گئے  باب ِ حرم کھلتا ہے اور ان کے اطراف  مہکنے لگتے ہیں۔  ان کی  نعت گوئی  نور تفسیر ، فکر معراج ، تطہیر ِ دل   ہی نہیں ر زق سخن بھی ہے۔  ان کا قلم جب مدح رسول ﷺ میں رواں ہوتا ہے تو فرش سے عرش تک نور فشاں ہوتا ہے۔ سادات کی نسبت سے انہیں شرف ملنے کا یقین تو ہے، مگر وہ اپنی نعت گوئی کو اپنا کسبِ کمال، اپنا وسیلہ اور اپنی شناخت بنانا چاہتی ہیں۔ زاہد شرف عز و جل! جب انسان نعت میں ڈوب کر لکھتا ہے تو گویا سارا وجود ہی درود کا ورد کرنے لگتا ہے۔ ان کی نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ہدیہ بھی ہے، گریہ بھی، درود بھی اور قلبی سکون کا ذریعہ بھی۔ یہ سب بڑی نعمت ہے۔ دعا ہے کہ یہ ان کی اخروی نجات کا بھی وسیلہ بن جائے۔ بلاشبہ ڈاکٹر ثروت رضوی کی نعت گوئی ایک انمول تحفہ ہے۔ ان کی نعتوں میں ایک ایسی روحانی کیفیت ہے جو دلوں کو سکون اور اطمینان بخشتی ہے۔ ان کی نعت گوئی صرف فن نہیں بلکہ عبادت ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content