میں اکثر سنتی ہوں اور  اس سے اتفاق کرتی ہوں کہ ‘کتاب کو اس کے سرورق سے پرکھنا نہیں چاہیے ۔ کیا اس منطق پر عمل کرتے ہوئے ہمیں کسی کتاب کو اس کے جائزوں سے پرکھنا چاہیے؟  بلاشبہ، ادبی تنقید صرف کتابی جائزوں سے کہیں زیادہ پر محیط ہے، اس میں مضامین اور گہرائی سے مطالعہ شامل ہیں جن میں ادبی تنقید کے بہت سے نظریات شامل ہیں جن کا تعلق شاید زیادہ علمی حلقوں سے ہے۔  ادب پر ​​تنقید نہ صرف کاموں کو فروغ دینے اور مصنفین کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کا ایک طریقہ ہے، بلکہ یہ ہمیشہ سے مصنف کے اپنے نقطہ نظر اور تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے معلومات کو ہضم کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کا ایک طریقہ رہا ہے۔  مثال کے طور پر، جدید نسائی تنقید کو 1960 کی دہائی میں اپنی آواز ملی اور وہ کتاب یا نظم میں خواتین کی نمائندگی کے طریقے پر ایک معروضی نظر ڈال سکتی ہے۔  کیا کسی کام کے ٹکڑے کو کسی خاص تنقیدی عینک کے ذریعے دیکھنا کسی ٹکڑے کو زیادہ معلوماتی بنا سکتا ہے یا یہ قاری کو جھپک سکتا ہے؟  ایک مثال کے طور پر حقوق نسواں کی تنقید کو جاری رکھتے ہوئے، تنقید کا یہ خصوصی اسکول سماجی اور ثقافتی طور پر کام کرنے میں مددگار ہے۔  یہ دیکھ کر سماجی منظر نامے کے بارے میں بہت کچھ سیکھنا ممکن ہے کہ ایک خاص وقت کے دوران ناقدین کا کیا تعلق ہے۔  میرے نزدیک یہ تنقید کی اہمیت پر زور دیتا ہے نہ صرف اس وقت جب نقاد جائزہ یا مضمون لکھتا ہے بلکہ پیچھے مڑ کر دیکھنے اور کتاب لکھنے کے وقت کو سمجھنے کی کوشش کرتاہے۔
جیسا کہ مصنفین نثر اور شاعری لکھتے رہیں گے، نقاد تبصرے کرتے رہیں گے اور چھان بین کرتے رہیں گے۔  یہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اس جدید دور میں ادبی تنقید کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔
حسین تاثیر ایک عمدہ محقق،نقاد اوراسکالر ہیں۔قطر میں اپنی تدریسی خدمات سرانجام دےرہے ہیں۔ان کی اول کتاب “اردوتنقید کی معاصرآوازیں ” عہدِ حاضر کے تین اہم ناقدین کے تنقیدی کام پرہے۔اکیسویں صدی میں جہاں اسکالر فکشن میں تحقیق کرنے کواولین ترجیح دیتے ہیں وہیں چیدہ چیدہ اسکالرز بھی موجود ہیں جوتنقید کے میدان کو ترجیح دیتے ہیں۔ناقدین ڈاکٹر روش ندیم،ڈاکٹر صلاح الدین درویش اورڈاکٹرفرخ ندیم کے تعارف وخدمات کے ساتھ انکی تنقیدی خدمات اورانکے نظریات کی تفہیم اس انداز سے مصنف نے کی ہے کہ قاری کو جاننے میں دقت محسوس نہیں ہوگی۔اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے کسی قسم کے تعصبات سے کام نہیں لیا بلکہ ایک محقق ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
مصنف نے تینوں ناقدین کے تعارف اور خدمات کے ساتھ ان کے افکار اور تصورات کاتذکرہ کیا ہے۔ہر نقاد کوالگ الگ باب میں منقسم کرکے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔اول نقاد ڈاکٹر روش ندیم ہیں جوترقی پسند نقاد ہیں۔ان کی کتب منٹو کی عورتیں،جدید ادبی تحریکوں کا زوال ،تیسری دنیا کا فلسفہ انکار،پاکستان : برطانوی غلامی سے امریکی غلامی تک ،ابرکی آہٹ کا فکری جائزہ عمدہ انداز سے لیا ہے۔علاوہ ازیں ان کی دیگرتنقیدی تحاریر کا بھی مختصر جائزہ ہے۔
دوسرے نقاد ڈاکٹر صلاح الدین درویش ہیں جن کی کتب تنقید اوربیانیہ ،فکراقبال کا المیہ،اردوافسانے کے جنسی رجحانات،انسان ،کائنات اورسماج اورانسان دوستی نظریہ اور تحریک کا فکری جائزہ لیا ہے۔تیسرے نقاد ڈاکٹر فرخ ندیم ہیں جن کی کتاب فکشن کلامیہ اورثقافتی میکانیت کا فکری جائزہ لیا ہے ۔مزید برآں ڈاکٹر فرخ ندیم کی دیگر تحاریر کا بھی تفصیلی تجزیہ کیا گیا ہے۔ڈاکٹر فرخ کی یہ کتاب اُن پہلووں کو بھی بے نقاب کرتے ہیں جو اوجھل محسوس ہوتے ہیں۔عہدِ حاضرکے نقاد ڈاکٹرناصرعباس نئیر کی اس کتاب پر رائے جاننے کے بعد اس کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے گا۔
” انہوں نے سادہ سلیس اسلوب میں ہمارے عہد کے ان تین اہم نقادوں کی خدمات سے قارئین کو متعارف کروایا ہے۔امید ہے یہ کتاب ترقی پسند تنقید کے معاصر اسلوب اورنہج کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی۔”
مصنف نے قاری کے لیے نہ محض کتب کی تفہیم میں مددکی ہے بلکہ ان تینوں نقادوں کے تنقیدی افکار وتصورات کو جامع انداز میں بیان کیا ہے۔مصنف نے صفحات کو طویل اورسیاہ کرنے کی بجائے ان کواختصار کے ساتھ فقط بامقصد کام کو شامل کیا ہے۔ان تینوں ناقدین کی کتب کو اوران کے تنقیدی تصورات کو جاننے کے لیے یہ کتاب مددگار ثابت ہوگی۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content