بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.

نام کتاب:کھلی آنکھوں کا خواب  (سفرنامہ عراق)

مصنفہ: پروفیسر نصرت نسیم

مبصر: ڈاکٹر سیما شفیع

پبلشرز۔۔شعیب سنز۔۔جی ٹی روڈ مینگورہ سوات

ڈسٹری بیوٹرز۔۔۔پریس فار پیس پبلیکیشنز

قیمت۔۔700 روپے

صفحات۔۔136

ابواب: 23

ڈاکٹر سیما شفیع پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے عالمی اردو سیمینار میں مقالہ پیش کر رہی ہیں

*روحانیت کا سنگیت*

کہتے ہیں:

*نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں سے ملیں*

*پروفیسر نصرت نسیم* کی ایک تحریر کئی طرح کی شرابوں کا نشہ ایک ساتھ چڑھاتا ہے۔

آپ پڑھیں گے ان کا سفر نامہ *”کھلی آنکھوں کا خواب”* مگر آپ نشے میں دھت بے اختیار اپنی آنکھیں موند لیں گے، کہ اس ایک ہی سفر نامے میں آپ کو ملے گی ناول کی جزئیات، افسانوں کے خوابیدہ لمحات،  خوشگوار شاعرانہ احساسات، داستانوں کی تبرکات اور خود نوشت کی تلخیاں و شیرینیات (یہ شیرینیات میری اپنی اختراع ہے۔)

سفر نامہ نہ ہوا کوئی *پولی کریسٹ ریمیڈی* ہو گئی جو ہر بیماری میں کارآمد و شفا یاب۔

پہلا پہلا تاثر جو اس سفرنامے سے ملتا ہے وہ روحانیت کا ایک گہرا، سکون بخش نوعیت کا احساس ہے۔ زائر کے دل و دماغ میں آیات اور حدیث کی گونج، ان کی دعائیں ، نعت، منقبت اور تلاوت آیات، ان کی زبان پر شکر کے کلمات اور ان کے دل میں احساسِ محبت و عقیدت کا جو سمندر موجزن ہے، وہ ایک ایسی کیفیت پیدا کرتا ہے جو نہ صرف اس لمحے کی تقدس کی عکاسی کرتی ہے بلکہ ایک زائر کی زندگی میں اس مقام تک پہنچنے کی خواہش اور دعا کی شدت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

*پروفیسر نصرت نسیم* کا طرز تحریر نہایت پُرکشش اور دلنشیں ہے۔ وہ روزمرہ کے واقعات کو ایک فلسفیانہ انداز میں بیان کرتی ہیں، جس میں نہایت سادگی اور خلوص جھلکتا ہے۔ ان کا بیان ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ، ہر احساس اور ہر سفر، چاہے وہ بظاہر کتنا ہی عام کیوں نہ ہو، اپنے اندر ایک منفرد حسن اور گہرائی رکھتا ہے۔ ان کی یہ تصنیف قارئین کو زندگی کے سفر کو گہرائی سے سمجھنے کی دعوت دیتی ہے۔

یہ ایک عجیب سفرنامہ ہے جس میں ملک کا طول و عرض، آبادی اور رسم و رواج کے بیان کے بجائے دل کا طول و عرض، جذبات کی آبادیاں اور احساسات کے رسم و رواج پر بات کی گئی ہے۔ یہ جسمانی سفر نہیں بلکہ ایک جذباتی سفر ہے۔

آج کی نسل کے لئے تو یہ سفرنامہ کسی تحفے سے کم نہیں، مگر ہماری نسل جنہوں نے اپنا بچپن انہی رنگین نظاروں کی چھاؤں میں گزارا ہے،  ہمارے لئے تو یہ کتاب ایک ٹائم مشین میں لگے ماضی کے دریچے کی مانند ہے۔

بحیثیت قاری کبھی آپ کو لگے گا کہ آپ سفرنامہ پڑھ رہے ہیں تو کبھی آپ داستان کربلا کے کرب و بلا کو اپنے دل پر ہتھوڑوں کی طرح برستا محسوس کریں گے۔ پھر اچانک ہی ماحول بدلے گا اور آپ زیارات مبارکہ کے افسانوی حسن میں ڈوب جائیں گے۔ کیونکہ اس سفرنامے میں بچپن کی یادوں، ادب سے محبت، اور عقیدت کی داستان کو خوبصورتی سے بُنا گیا ہے۔ جو ہمیں پیغام دیتا ہے کہ بچپن میں بوئے گئے محبت اور عقیدت کے بیج زندگی بھر انسان کو ایک مضبوط اخلاقی و روحانی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ *نصرت نسیم* کا اندازِ بیان اتنا دلکش اور پُرتاثیر ہے کہ قاری خود کو اس سفر کا حصہ محسوس کرتا ہے۔

انہوں نے ایک مسحور کن انداز میں محرم اور اہل بیت سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ یہ تحریر ایک طویل سفر اور اس میں ماضی کی یادوں کے حسین رنگوں کو اس طرح بکھیرتی ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اسی تجربے سے گزر رہا ہے۔

*نصرت نسیم* نے آغاز میں سفر کے دوران اپنے شوہر کے ساتھ بیتے لمحات کو بہت فطری انداز میں بیان کیا، جس میں محبت اور دعا کا جذبہ نمایاں ہے۔ اس کے بعد محرم کے مہینے میں بچپن کے وہ دن یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کیسے محرم کا چاند نظر آتے ہی ماحول اداس اور سوگوار ہو جاتا تھا۔ خاص طور پر ریڈیو پر نشر ہونے والے نوحے، اہل بیت کے فضائل، اور مسجد میں ہونے والی مجالس کا ذکر کیا گیا، جو اس وقت کے خلوص اور سادگی کو اجاگر کرتے ہیں۔

پھر اپنے بچپن کی ان خوشبوؤں کو تازہ کرتی ہیں جب محرم کے موقع پر گھر کی بزرگ خواتین اہتمام سے مختلف پکوان بنا کر تقسیم کرتیں اور بچوں کو خاص حصہ دیا جاتا تھا۔ اُف کیا پرخلوص محبتیں تھیں جو ہر طرف بکھری پڑی تھیں۔

یہ روایتیں اور رسمیں آج کے جدید دور میں معدوم ہوتی جا رہی ہیں، مگر ان کی یاد ہمیں اپنے ثقافتی ورثے سے جوڑتی ہیں۔

انہوں نے مرثیوں کا تذکرہ بھی بڑی خوبصورتی سے کیا جس میں زیڈ اے بخاری، رشید ترابی اور میر انیس کے ذکر سے ایک عہد کی یاد تازہ ہوتی ہے، جب محرم کا عشرہ، ادب اور عقیدت کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ مرثیوں کے اثر اور ان کی گہرائی کو محسوس کرتے ہوئے مصنفہ بتاتی ہیں کہ کیسے ان کے الفاظ دل پر گہرا اثر ڈالتے تھے، اور یہ بھی کہ کس طرح انہوں نے انیس و دبیر کے مرثیے تدریس کے دوران پڑھائے۔

*نصرت نسیم* نے اہل بیت سے محبت کے بیج کو “دل کی زمین میں بوئے جانے” سے تشبیہ دی ہے، جو اس عقیدت کو اجاگر کرتا ہے کہ یہ محبت بچپن سے ہی دل میں بسی ہوئی تھی۔ آج کل کی نسل کے سامنے اس محبت کا عملی اظہار دیکھ کر وہ حیران بھی ہیں اور خدا کی شکرگزار بھی کہ وہ نجف کی زیارت کا سفر کر رہی ہیں۔

تابندہ فرخ جیسی نوآموز لکھاری کی تصنیف “پشاور سے کربلا تک” کا ذکر مصنفہ کی نثر کو مزید دل نشین اور مصنفہ کے ادبی قد کو مزید قدآور بناتا ہے، کیونکہ آج تک میں نے کسی بڑے ادیب کو نوآموز کا ذکر کرتے نہیں دیکھا۔تابندہ کے خواب کی کہانی ان کے سفر کو ایک روحانی سفر میں بدل دیتی ہے جس میں خوابوں اور حقیقی زیارتوں کا ملاپ قاری کو ایک گہرے تاثر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ مصنفہ نے اِسے اپنے سفر سے جوڑ کر اپنی روحانی کیفیت کا اظہار کیا، جو قاری کے دل میں بھی محبت اور احترام کے جذبات پیدا کرتا ہے۔

سفرنامے میں مصنفہ نے اردو زبان کی چاشنی اور اس کی مٹھاس کو بھی بیان کیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں اپنی زبان سے کتنی محبت ہے اور زبان کی خوبصورتی، بیان کی شیرینی، اور خیال کی لطافت سے قاری کو محظوظ کیا جا سکتا ہے۔ اس سفرنامے میں ماضی اور حال کو بڑے سلیقے سے جوڑا گیا ہے اور ایک گہرے جذبے اور عقیدت کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے۔

“ہوا کے دوش پر ماضی کی یادیں” میں *نصرت نسیم* اپنے قارئین کو اپنے ساتھ ماضی کی یادوں کی “رتھ پر سوار” محو سفر رکھتے ہوئے، بچپن اور جوانی کے عہد کے دریچوں سے جھانک کر اپنے دل کے قریب بسے یادگار لمحوں کو بھرپور جذبات اور اہل بیت سے محبت کے واقعات گوندھ کر شوق اور عقیدت سے نجف، سیہون شریف، اور عراق کی زیارات کراتی نظر آتی ہیں۔

کربلا کا منظر بھی آپ نے انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے، جہاں ایک طرف تجسس اور بے چینی کا سامنا ہے تو دوسری طرف وہاں کی تاریخ اور روحانیت کا احوال بھی پیش کیا گیا ہے۔ ہوٹل سے لے کر مختلف تاریخی مقامات کی تفصیل میں جو احساسات ہیں، وہ ایک گہری روحانیت اور محبت کا بیان کرتے ہیں۔ کربلا کا منظر نہ صرف ایک جغرافیائی حقیقت ہے بلکہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر ایک کا دل بے ساختہ مقناطیسی انداز میں جڑ جاتا ہے۔ آپ اس کی تفصیل میں کربلا کی اہمیت، اس کے تقدس، اور وہاں کی ثقافت و تاریخ کی جھلکیاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

*خلاصہ:* یہ تحریر سفرنامے، عقیدت، اور جذبے کا ایسا امتزاج ہے جو قارئین کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں محبت، عقیدت، اور خدا پر یقین کی خوشبو رچی بسی ہے۔ مصنفہ نے اپنے سفر کو اتنے مؤثر انداز میں بیان کیا کہ قاری ان کی یادوں اور خوابوں کا شریکِ سفر بن جاتا ہے۔

مجموعی طور پر، یہ تحریر یادوں، روایات، اور عقیدت کا ایسا مرکب ہے جو ہمارے معاشرتی اور مذہبی ورثے کو زندہ رکھتا ہے۔ مصنفہ کی زبان کی مٹھاس، الفاظ کی چاشنی، اور خیالات کی گہرائی ادب کے سنجیدہ طالب علموں کے لیے بھی ایک سبق ہے اور ادبی حسن کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

میں نے تو سفر نامے کے انیس ابواب مسکراتے ہوئے پڑھنا شروع کئے اور پتہ بھی نہ چلا کہ کب میں نے ناول یا ڈرامے کی ہیروئین کے ساتھ مل کر رونا اور مناجات کرنا شروع کر دیا۔ چونکہ اس کتاب میں کل تئیس ابواب ہیں لہٰذا ابھی بھی یہ میرے زیر مطالعہ ہے۔ تبصرہ لکھنے بیٹھی تو ہر باب پر ایک لمبا چوڑا تبصرہ لکھ بیٹھی جسے مختصر کرنا نہایت مشکل امر تھا۔ کیونکہ ہر باب کا تبصرہ میری نظر میں ابھی بھی نامکمل ہے۔ مگر

کوشش کر کے ایک مجموعی جائزہ آپ کے سامنے پیش کر دیا۔۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content