“تمہارے بالوں کی سفیدی ، چہرے کی جھریاں، ویران آنکھوں کی بے جان پتلیاں گواہی دے رہی ہیں کہ تم زندگی کے آخری پڑاٶ کی چوکھٹ پر پہنچ چکے ہو ۔
میں چہرے کو پڑھنے کا ہنر جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے ذریعے بیان کیا گیا سچ قابل قبول نہیں ہوتا ۔
میں نے زندگی کے کئی رنگ دیکھے ہیں ۔ میں گواہ رہا ہوں ان تمام اتار چڑھاٶ کا جو تم نے اپنی زندگی میں دیکھے ہیں ۔
تمہاری صحبت کا حصہ میں تب سے ہوں جب تمہاری زندگی میں پریرنا ئی تھی ۔پریرنا سے تمہاری رفاقت نہ ہوتی تو میں بھی تمہارا رفیق نہ ہوتا ۔
مجھے یاد ہے ۔۔ اب بھی ۔۔ بالکل صاف صاف ، ٹھہرے ہوۓ جھیل کے پانی میں نظر آنے والے نیلے آسمان کے عکس کی طرح ، میں گواہ ہوں اس محبت کے جذبات کا جو میں نے تمہارے لیے پریرنا کی آنکھوں میں دیکھے ۔
میں نہیں جانتا تم دونوں کب اور کہاں ملے ؟ محبت کی راہ پر پہلا قدم کس نے بڑھایا ؟
میں نے محسوس کیا تم اپنے چہرے کی بناوٹ اور رنگت کے سبب احساس کمتری کا شکار ہو جایا کرتے تھے مگر تمہارا یہ وہم بے وجہ تھا پریرنا کو تم سے نہیں تمہارے وجود سے محبت تھی”۔
کرونا کا ہلاکت خیز سال تھا ۔
شمشان گھاٹوں سے اٹھنے والا تعفن اور قبرستانوں سے برآمد ہوتی موت کی خاموشی پورے شہر کے منظر نامے پر چھائی ہوئی تھی ۔
ہوٹل ، دکانیں ، کاروباری مراکز ، بنک اور سکول کالج سے لے کر رینگتی ہوئی زندگی کا ہر دفتر بند تھا ایسے میں شہر کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر (جنہیں روز مرہ اموات کی تعداد شمار کرنے سے فرصت نہ ملتی تھی) ایک خوش کن خبر نشر کی گئی کہ عالمی ادارے گوگل کی طرف سے انگریزی زبان کے ایک معلم کو کورونا پیریڈ میں بہترین آن لائین تعلیم دینے پر اعزازی ایوارڈ سے سرفرازی کا اعلان کیا گیا ہے ۔
یہ پڑوسی دیش سے ادبی شناخت کے حامل شہر مالیگاؤں کی پہچان اور اعزاز یافتہ معلم و افسانہ نگار عظمت اقبال صاحب تھے۔
محترم مصنف اپنے دیگر کمالات کے علاوہ شہر کے ادبی افق پر اوٹوپسی ، جنگلی کتے ، ہم نفس ، کٹھ پتلیاں اور مائی لائف جیسے افسانے لکھ کر بطور افسانہ نگار اپنی منفرد شناخت تسلیم کروا چکے ہیں ۔
اپنے موجود معاشرے کی دو زندہ تہذیبوں اور دو مخالف سوچ ، عقاٸد اور مذاہب کو جانچنے ، پرکھنے اور انہی کرداروں کی کہانیاں لکھنے والے عظمت اقبال صاحب کے ہر افسانے میں بین السطور ایک ہی دکھ نمایاں ہے کہ اپنی کاملیت کے ہیچھے بھاگتا اور خوشیاں خریدنے کیلیے ہر جتن کرتا انسان دراصل اندر سے خالی ہے ۔
ان کا ہر کردار اپنے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ایک گہری سی اداسی کا تاثر چھوڑ جاتا ہے ۔
اسلوب کی چاشنی ان کے قلم کا اضافی ہنر ہے ۔ وہ معلم ہیں ، انسانی نفسیات کو پڑھنے کا ہنر رکھتے ہیں اور یہی نفسیاتی جنگ وہ اپنے کرداروں میں کچھ اس ہنر سے سمو دیتے ہیں کہ قاری کلائمکس تک پہنچتے پہنچتے اپنے خود احتسابی کے عمل میں داخل ہو چکا ہوتا ہے ۔
مذہبی تنفر ، عالمی و ہندوستانی منظر نامے پر برپا ہو چکی جنگی تباہ کاریاں ، ہندو مسلم تفرقہ بازی اور اپنے اردگرد سانس لیتے زندگی کرتے کرداروں کی نفسیاتی جنگ ادھوری تخلیق میں شامل افسانوں کے موضوعات ہیں ۔
جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ ”نضال “ اور ایک فاحشہ کی خود داری کا احاطہ کرتا افسانہ ” عورت کہیں کی“ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔
” بات نکلی ہے مردوں کی حیوانیت کی تو تمہیں بتاتا چلوں وہ تمہارا عزیز دوست ، اٰس روز جب تم اور پریرنا گھر نہیں تھے ۔ تمہاری معصوم لاڈلی اپنے کھلونوں میں گھری فرش پر بیٹھی کھیل رہی تھی ۔۔۔ اور مالا ، تمہاری آیا کسی کا سے باہر گئی ہوئی تھی ۔
تمہارا عزیز دوست تمہارے گھر میں داخل ہوا اور اس نے پھول سی بچی سے دست درازی شروع کر دی ۔ سماعتوں سے محروم میں; یہ منظر دیکھ کر تڑپ اٹھا اس سے پہلے کہ چیخ پڑتا مالا کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی اور اس شیطان نے یکلخت انسان کا روپ دھار لیا ۔۔۔ حیوان کہیں کا “
“ادھوری تخلیق ” عظمت اقبال صاحب کا اولین افسانوی مجموعہ ہے جو پریس فار پیس پبلیکیشن کی زیر ادارت شائع ہوا ہے
یہاں کتاب کی طباعت و اشاعت کی تعریف نہ کرنا یقیناً ادبی ناانصافی شمار ہوگی کہ افسانہ پڑھتے ہوۓ ، ورق پلٹتے ہوے محسوس ہوتی نفاست اور ہر عنوان سے متعلقہ عکس دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ کتاب کا کوئی بھی اچھا قاری ادارے کی محنت و لگن پر داد د یے بغیر نہیں رہ سکتا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.