بسمہ تعالی
۔نام کتاب۔۔ادھوری تخلیق۔۔(افسانوی مجموعہ )
مصنف ۔۔عظمت اقبال
ناشر ۔۔پریس فار پیس پبلیکیشنز
قیمت۔250 انڈین روپے
قارئین ! ادب معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے کی عکاسی کا نام ہے۔۔واردات قلبی کو قلمی جامہ پہنانے کا نام ہے اپنے اردگرد ایک لکھاری جو دیکھتا ہے ان احساسات کو اپنی تحریر میں کیسے پیش کرتا ہے افسانہ ہو یا کہانی یہ سب صرف مصنف کا تخیلاتی سفر نہیں ہوتا بلکہ جیتے جاگتے کرداروں کی شکل میں انہی کی زبان میں پیش کرنے کا نام ہے۔
عظمت اقبال صاحب کا تعلق شعبہ تعلیم سے بھی ہے اور کامیاب مدرس وہ ہوتا ہے جو طالب علم کی نفسیات کو سامنے رکھ کر خشک سے خشک اور ثقیل چیز کو دلچسپ انداز میں بیان کرے جبکہ کامیاب قلمکار وہ ہوتا ہے جسے پڑھ کر قاری محسوس کرے
میں نے جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
فاضل مصنف کی خوش قسمتی ہے کہ وہ انڈیا میں کامیاب مدرس اور نمائندہ قلمکار ہیں۔
ان کی تحریر ان کے اردگرد کے لوگوں کے مسائل لئے ہوئے ہے اسے ضبط تحریر میں لاتے ہوئے وہ کرداروں سے وابستہ مقام ، وہ تہذیب جس میں ان کے کردار رہتے بستے ہیں کو بھرپور انداز میں پورٹرے کرتے ہیں۔
مسائل سنگین ہیں خواہ وہ فرد کو زیر بحث لائیں یا معاشرے کو ان کا قلم رواں ہے کوئی رکاوٹ نہیں انداز بیان قاری کو اپنی گرفت میں لینے والا لیکن حددرجہ حساس
ان کے ہاں حساسیت کی بڑی قیمت ہے خواہ ادھوری تخلیق ہو یا نضال،
تاہم لکھتے ہوئے چند چیزیں جو سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں کہ جناب عظمت اقبال جو دیکھتے یا سوچتے ہیں وہ جوں کا توں سپرد قلم نہیں کرتے۔
ان کے ہاں ہر چیز سادہ اور عام فہم نہیں بالخصوص کہانیوں کے انجام تو بالکل غیر متوقع ۔۔۔قاری جس انجام کا منتظر ہوتا ہے وہ اس کے بالکل برعکس پراسرار انداز میں پیش کرتے ہیں آپ کہہ سکتے ہیں وہ اپنے افسانوں کوتر نوالہ بنا کر قاری کے ہاتھ میں نہیں تھماتے بلکہ دل و دماغ کو اس انجام کے سمجھنے کے لئے پورا زور لگانا پڑتا ہے۔
ان کے افسانوں کے موضوعات میں عورت کی نسائیت اس کے جزبات ،مرد کی ہوس ، معاشرتی بے انصافی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
مرد جتنا سفاک ہے تو عورت اتنی ہی بے بس
آوٹاپسیی کی ساری کہانی سسپنس سے بھرپور ہے۔ افسانے کا کردار انوکول طریقہ واردات میں سیر ہے تو مرکزی کردار سرمد کو سوا سیر کہا جاسکتا ہے۔
اسے پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قاری کوئی جاسوسی ناول پڑھ رہا ہو یا فلم دیکھ رہا ہو۔
اسی طرح افسانہ ” آگ ” بھی ہے تو ہندو مسلم فسادات کے پس منظر لیکن انجام اتنا غیر متوقع ہے کہ قاری کا دماغ جھنجھنا اٹھتا ہ۔ے
تقصیر کی ارجنا کا کردار ہو یا نضال میں نضال کا کردار سب بے بس ہیں۔
عظمت اقبال صاحب کا اقبال ہمیشہ بلند رہے لکھتے ہوئے قلم کی کاٹ تیز اور بے باک ہے بالخصوص عورت مرد کے تعلقات( خواہ حرام ہوں یا حلال)لکھتے ہوئے بس رال ٹپکتے مرد ہی ذہن میں آتے ہیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ جنسی مسائل یا موضوع پر لکھتے ہوئے قلم قدرے بہک جاتا ہے۔
کچھ افسانوں میں ہندوستان کے مختلف علاقوں کی زبان میں اتنے خوبصورت مکالمے ہیں کہ مزہ آجاتا ہے ۔پاکستان میں تو یہ لہجے اور زبانیں کسی حد تک متروک ہوچکی ہیں
ادھوری تخلیق، نضال،مایا از مائی لائف ، تعزیر نفس یہ سب افسانے در حقیقت کرب ہیں۔۔جنہیں مصنف نے ان افسانوں کے کرداروں کے ذریعے قاری تک منتقل کیا ہے۔
کتاب میں پچیس افسانے شامل ہیں۔کتاب کے اختتام پر کچھ افسانچے بھی شامل ہیں موضوع وہی سفاک جسے پڑھتے ہوئے بھی دل کٹتا محسوس ہوتا ہے۔
بے شک یہ عمدہ افسانوں کی کتاب ہے جو انہیں اردو ادب کے بہترین افسانہ نگاروں کی صف میں شامل کرنے کے لئے کافی ہے۔
کتاب کا پیش لفظ جناب عمران جمیل ،قانتہ رابعہ، ڈاکٹر اعظم اور ڈاکٹر اقبال حسن آزاد نے لکھا ہے جو بہت خوب صورت انداز میں ان کے خدادا فن کا اعتراف ہے۔ کتاب کا سرورق علامتی اور عمدہ طباعت شاندار ہے ۔میں جناب عظمت اقبال اور پریس فار پیس پبلیکیشنز کو اس نئی کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
قانتہ رابعہ
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.