کتاب: اسیرِ ماضی
مصنف: حافظ ذیشان یاسین
تبصرہ نگار: حفصہ سلطان
فطرت سے محبت تو بہت سے لوگ کرتے ہیں، مگر الفاظ میں فطرت کی خوشبو بسا دینا صرف چند ہی خوش نصیبوں کا کمال ہوتا ہے ۔ “مصنف حافظ ذیشان یاسین” بھی ان چند لوگوں میں شامل ہیں جن کے دل میں فطرت اور ماضی سے گہری انسیت ہے، اور یہ انسیت ان کی تحریروں میں یوں جھلکتی ہے کہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ واقعی “اسیرِ ماضی” ہیں۔
قلیل عرصے میں، حافظ ذیشان یاسین صاحب نے مختلف تحاریر کے ساتھ ساتھ خوبصورت کتب کی اشاعت کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔ وہ اپنی طبیعت اور کیفیت کے مطابق لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ اسیرِ ماضی جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے، اس کے علاوہ انھوں نے پانی کے “مسائل و وسائل اور شرعی احکام اور آداب و اسباب اختلاف” جیسی عمدہ کتب بھی قلمبند کی ہیں، جو ان کی گہرائی، مشاہدے اور علمی وسعت کی عکاسی کرتی ہیں۔
کتاب “اسیر ماضی” کے سرورق کو دیکھ کر ایک گہری نوستالجیائی اور یادوں میں کھو جانے والی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ سرورق پر ایک گھڑی، اونٹوں کے کارواں، پرانے لباس میں ملبوس افراد، اور پہاڑوں کا منظر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ کتاب ہمیں ماضی کی ایک ایسی دنیا میں لے جانے والی ہے جہاں روایتیں، پرانی یادیں اور بھولے بسرے قافلے ہیں۔ رنگوں کا امتزاج اور سرورق پر موجود عناصر ایک ایسی کہانی کا عندیہ دیتے ہیں جو ماضی کی خوبصورتی اور اس کے زوال پر مبنی ہے۔
یہ سرورق قاری کو کتاب میں جھانکنے اور ان کہانیوں میں کھو جانے کی دعوت دیتا ہے، جیسے یہ تصویریں ہمیں ماضی کی ایک خوبصورت لیکن اداس یادگار کے سفر پر لے جا رہی ہوں۔
کتاب کو کھولنے پر انتساب پر نظر پڑی۔ کتاب “اسیر ماضی” کا انتساب پڑھ کر ایک گہری درد اور نرمی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ الفاظ ماضی کی ان تلخ اور خوبصورت یادوں کی عکاسی کرتے ہیں جو وقت کے دھارے میں کہیں کھو گئی ہیں۔ انتساب میں ذکر کیے گئے عناصر جیسے کہ “سنہرا ماضی، گم شدہ بچپن، کٹتے درخت، در بدر پرندے، اداس چرواہے، گمنام قافلے” ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جو اپنی اصل خوبصورتی اور شاندار تاریخ کے باوجود زمانے کے ہاتھوں شکستہ ہو چکی ہے۔
یہاں “بجھتے چراغوں، لرزتی قندیلوں” اور “مسمار فصیلوں” جیسے الفاظ ایک زوال پذیر معاشرتی اور ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتے ہیں۔ “سوکھتی جھیلیں، ٹوٹتے حوصلے، مرجھائے پھول” اور “سلگتے دل” ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کس طرح ماضی کا حسن زوال پذیر ہو رہا ہے اور ہم ان قدروں اور روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو ہماری پہچان تھیں۔
انتساب کے الفاظ مصنف کے دل کی گہرائیوں اور ماضی کے بکھرتے ہوئے عکس کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ہمیں نہ صرف ماضی کے خوبصورت اور غمگین لمحات کی یاد دلاتا ہے بلکہ یہ بھی سوال اٹھاتا ہے کہ کیا ہم ان یادوں اور قدروں کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ انتساب قاری کو دعوت دیتا ہے کہ وہ خود کو اپنے ماضی سے جوڑے اور ان چیزوں کی قدر کرے جو وقت کے ساتھ کہیں کھو گئیں ہیں۔
“سرد شام” سردیوں کی ان تنہا شاموں کی عکاسی کرتی ہے، جہاں ایک مزدور کی بیٹی کے خواب سرد ہوا کی طرح خاموشی سے بکھر جاتے ہیں۔ اس کی آنکھیں خواب بُنتی ہیں، مگر وہ خواب بھی اس کی زندگی کی طرح ٹوٹ کر خاموشی میں ڈوب جاتے ہیں۔
خواب سرائے کے الفاظ پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے میں بھی ان لوگوں کے ساتھ رات کی خاموشی اور سناٹے میں جاگ رہی ہوں، جن کی آنکھوں سے نیند چھن چکی ہے اور جو رات کے دکھ میں ادھورے خوابوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی راتیں یادوں کے سہارے گزرتی ہیں اور صبح ہوتے ہی وہ اپنے خوابوں کو طاقچوں میں احتیاط سے رکھ دیتے ہیں۔ رات کا سناٹا اور تاریکی ان کے دلوں میں ایک عجیب سی اداسی اور ملال بھر دیتی ہے، اور جیسے جیسے رات ڈھلتی ہے، ان کی آنکھوں میں جاگتی ہوئی راتوں کا نشان اور خوابوں کا بکھرنا رہ جاتا ہے۔
کہیں چناب کے دکھ تو کہیں خزان کی شامیں تنہائی کا بسیرا کیے ہوئی ہیں تو کہیں گرمی کی تنہا دوپہر میں قافلے اپنی منزل پر رواں ہیں تو انہیں شام کے سلگتے سائے اپنی لپیٹ میں لینے لگتے ہیں لیکن کہانی ابھی نامکمل ہے ،داستان ابھی ادھوری ہے!
“اسیر ماضی” محض ایک کتاب نہیں بلکہ گزرے ہوئے وقت، گمشدہ یادوں، اور بچھڑ جانے والے لمحات کا ایک جذباتی سفر ہے۔ اس کے عنوانات اور انتساب ہمیں اس خوبصورتی اور دکھ کی یاد دلاتے ہیں جو وقت کے ساتھ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ حافظ ذیشان یاسین صاحب نے اپنے منفرد اسلوب میں ان موضوعات کو چنا ہے جو انسانی دل کو چھو لینے والے ہیں۔ چاہے وہ درختوں کا کٹاؤ ہو یا پرندوں کی بے گھری، چناب کے دکھ ہوں یا سلگتے سائے، یہ کتاب ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کس طرح ہمارا ماضی ہماری ذات کا حصہ ہے اور کیسے وہ ہمارے حال کو متاثر کرتا ہے۔
یہ کتاب محض پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ محسوس کرنے کے لیے ہے۔
اسیر ماضی” ایک لازمی مطالعہ ہے جو قاری کو ایک منفرد تجربہ فراہم کرتا ہے اور اسے اپنے حال، ماضی، اور مستقبل کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔
کتاب کا اسلوب و بیان نہایت شاندار ہے، جہاں تشبیہات و استعارات کا استعمال اتنی خوبی سے کیا گیا ہے کہ ہر لفظ ایک تصویر بناتا ہے اور قاری کو گہرے احساسات میں ڈبو دیتا ہے۔
حافظ ذیشان یاسین صاحب نے “اسیر ماضی” کے ذریعے ایک اہم ادبی خدمت انجام دی ہے۔ ان کی یہ کاوش انفرادی زندگیوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑتے ہوئے قاری کو ایک گہری بصیرت فراہم کرتی ہے۔ مصنف کی تحریر میں ایسی سچائی اور خلوص جھلکتا ہے جو نہایت کم تحریروں میں نظر آتا ہے۔ حافظ ذیشان یاسین صاحب کا اسلوب قاری کے دل کو چھو لیتا ہے اور اسے اپنی یادوں کے قریب لے آتا ہے۔
مصنف کو اس یادگار اور دل کو چھو لینے والی کتاب کے لیے شکریہ اور خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ امید ہے کہ حافظ ذیشان یاسین مستقبل میں بھی ہمیں ایسی ہی پُر اثر اور جذبات سے بھرپور تحریریں پیش کرتے رہیں گے۔
پریس فار پیس بالخصوص ظفر اقبال صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ انہیں “اسیر ماضی” جیسی شاہکار کتاب شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
یہ کتاب ماضی کی یادوں، فطرت کے مناظر، اور انسانی جذبات کو جس خوبصورتی سے سمیٹتی ہے، اس کے لیے پریس فار پیس کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.