کتاب کا نام؛اسیرِ ماضی
مصنف؛ حافظ ذیشان یاسین
ناشر؛ پریس فار پیس پبلی کیشنز
صفحات کی تعداد؛ ۱۲۳
تبصرہ نگار؛ انگبین عروج۔کراچی
مصنف کا تعارف
حافظ ذیشان یاسین صاحب عالمِ دین،محقق،مدرس و خطیب اور مصنف ہیں۔آپ نے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان ا سے گریجویٹ جبکہ جامعہ اشرافیہ سے فاضل تحصیل بھی ہیں۔اس سے قبل مصنف کی دینی مسائل کے متعلق دو کتب شائع ہو چکی ہیں۔آپ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔
“اسیرِ ماضی” ان کی تیسری کتاب ہے،جس کی دوسری ایڈیشن کی اشاعت و طباعت کا سہرا پریس فار پیس کو جاتا ہے۔بہترین علامتی افسانوں اور مناظرِ فطرت کی عمدہ منظر نگاری کے ساتھ مصنف نے اچھوتے اسلوپ پر طبع آزمائی فرما کر افسانہ نگاری کو ایک نئی جہت سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔
تبصرہ “اسیرِ ماضی”
فیض احمد فیض صاحب فرماتے ہیں؛
گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادِ صبا
پھر سے چاہے کہ گل افشاں ہو تو ہو جانے دو،
عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بِسرا ہوا درد،
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو تو ہو جانے دو
کچھ لوگوں کی نظروں میں ماضی وہ ہے جو گزر گیا،جسے یاد کرنا یا اُس کا ذکر کرنا محض اَمرِ لایعنی ہے جبکہ ہم جیسے لوگ بھی ہیں،جن کا ماضی کبھی گزرا ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت ہماری ذات سے جُڑا ہوا ہے۔غالباً حافظ ذیشان یاسین صاحب کا ماضی بھی اُن کے ساتھ کہیں آس پاس رہتا ہے۔جس ماضی کے زنداں کے ہم قیدی ہیں،اُسی ماضی پر محترم حافظ ذیشان صاحب نے “اسیرِ ماضی” جیسی فقید المثال کتاب لکھ ڈالی۔
اس کتاب کے سرورق پر نظر پڑتے ہی مُجھ جیسے حال میں رہتے ہوۓ ماضی سے جُڑے لوگ ایک عجیب سُرور میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔گھڑی کی سوئیوں کا بھاگتے دوڑتے ماضی کو کہیں پسِ پشت دھکیل کر مستقبل کی سمت دوڑ لگانا اور ہم ماضی میں رہنے والوں کی وقت سے التجا کرنا کہ اپنی سبک رو رفتار کو تھوڑا دھیما کر کے چلے کہ ہمیں عہدِ رفتہ کو بھی تھام کر چلنا ہے۔
کتاب کے سرورق پر فلک بوس پہاڑوں میں گھری سر سبز وادیاں،فضا میں رقص کرتے محوِ پرواز پرندوں کی ڈار،ساربانوں کی اطاعت میں آہستہ آہستہ منزل کی جانب رواں دواں صحرا کی گَرد اڑاتے اونٹ آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو گم گشتہ ماضی کے سفر پر لے جائیں گے۔
اسیرِ ماضی،جس کے دیدہ زیب سرورق سے ہی ماضی کے خیال کے دریچے کُھل جاتے ہیں۔کتاب کھولتے ہی جب انتساب پر نظر پڑتی ہے حسّاس طبیعت پر اُسی دَم اُداسی کے بادل چھا جاتے ہیں،دِل سے ایک آہِ سرد نکلتی ہے۔خیال آتا ہے کہ عصرِ حاضر میں جب حضرتِ انسان زمین کو لوہے و تانبے کی چادر سے لپیٹ رہا ہے،جب انسانوں کی جگہ مصنوعی ذہانت سے لیس جدید روبوٹ نے لے لی ہے اور انسان زمین کو بنجر کر دینے کے بعد اب دوسرے سیاروں پر زندگی بسانے کے ذرائع تلاش کر رہا ہے۔ایسے جدید دور میں ایسا دردمند دل رکھنے والا یہ کون ادیب ہے جو ماضی میں واپس جانا چاہتا ہے۔جو چڑیا کی اداسی،پرندوں کی دربدری،کٹتے درختوں کی آہ و بکا،لہو رنگ زخمی فاختاؤں کی نم ناک آنکھیں،فضاؤں میں پھیلی پے چین صدائیں ،بین کرتی ہوائیں،صحراؤں،دریاؤں،چرواہوں،ملاحوں اور ساربانوں کے اَن کہے دُکھ دیکھنے اور سہنے کا متحمّل نہیں ہے۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوۓ بارہا ایسا محسوس ہوا کہ مصنف نے یہ کتاب خود نہیں لکھی بلکہ اجڑتے آشیانوں پر بے بسی کی تصویر بنی مغموم چڑیوں نے،سہمے ہوۓ اور اپنی بے وقعتی پر ماتم کناں کٹتے درختوں نے،زخمی طوطا مینا اور فاختہ نے،اپنے دامن میں ہزاروں درد سمیٹے بہتے دریاؤں نے،اداس ساربانوں اور بے بس چرواہوں نے،چرخہ کاتتے رنج و الم کے دھاگوں سے چادروں پر درد کے پھول کاڑھتے جولاہوں اور سمندر کے سارے بھید جاننے والے بوڑھے ملاحوں نے بذاتِ خود یہ کتاب مصنف سے لکھوائی ہے۔
اردو ادب کی تاریخ میں تجریدی افسانوں کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔حافظ ذیشان صاحب کے خونِِ جگر سے لکھے یہ افسانے میرے نزدیک حکایتوں کی صورت اختیار کیے ہوۓ ہیں۔ان حکایتوں کا تمثیلی انداز،زبان و بیان،فصاحت و بلاغت اس قدر اعلٰی پاۓ کا ہے کہ انہیں پڑھنا،سمجھنا اور ہضم کرنا بھی عام قاری کے بس کی بات نہیں۔مصنف نے ماضی کی خوشگوار یادوں اور حال میں رَستے ہوۓ زخموں اور دُکھوں کو سمیٹنے اور قرطاس کی نذر کرنے میں نہ معلوم کتنا وقت صَرف کیا لیکن مُجھ جیسا قاری اس بظاہر کم حجم پر مشتمل کتاب کی عرق ریزی پر سالوں لگا سکتا ہے۔
جب مصنف اپنے افسانوں میں مرشد سے ماضی میں واپس جانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور چاند پہ چرخہ کاتتی بڑھیا،عینک والا جن،سرد شاموں،تپتی دوپہر اور گھنے درختوں کے ساۓ،مدرسہ کے کونے میں بیٹھ کر سبق پڑھنے کی منظر کشی کرتے ہیں تو قاری بھی خود کو کہیں عہدِ رفتہ میں چاند تاروں سے سجے آسمان کے نیچے صحن میں بان کی چارپائی پر بیٹھا کبھی تارے گنتے ہوۓ تو کبھی چاند کی پریاں دیکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوۓ محسوس کرتا ہے۔آنگن میں بیلے،چنبیلی کی کلیوں کی خوشبو فضا کو معطر کرتی محسوس ہوتی ہے،چڑیوں کی ڈار صحن میں لگے آم اور امرود کے پیڑوں کے گرد منڈلاتی اور اُن پر اپنے گھونسلوں کے لیے چونچ میں تنکے دباۓ نظر آتی ہیں۔قاری خود کو تتلیوں اور جگنوؤں کے دیس میں موجود پاتا ہے۔پس ثابت ہوتا ہے کہ “اسیرِ ماضی”میں شامل تجریدی افسانوں کی منظر نگاری کرتے ہوۓ عمدہ ترین تشبیہات و استعارات کے استعمال سے مصنف نے تمثیل نگاری میں اپنا لوہا منوا لیا ہے۔
عظیم مصنف لیو ٹالسٹائی اپنے مشہور ناول “جنگ اور امن” میں لکھتا ہے؛
“انسان تاریخ کا ایندھن ہے۔”
اسیرِ ماضی کو پڑھتے ہوۓ محسوس ہوا کہ انسان ماضی میں سَرزد ہوئی غلطیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ترقی یافتہ ہونے کی دوڑ میں سبقت لے جانے کا نشہ اُسے تاریخ کا ایندھن بناتا جا رہا ہے۔
معدوم ہوتی پرندوں اور جانوروں کی نسلیں،ہزاروں کی تعداد میں کٹتے درخت،اُجڑتے آشیانے،ناپید ہوتے جنگلات،سوکھتی جھیلیں،کم مائیگی پر بین کرتے دریا،صحراؤں اور بیابانوں میں پیاسے مویشی،کائنات کے اسرار پر غور و فکر کرتے اُداس اونٹ انسانوں کی ترقی کا نوحہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔
جہاں ایک طرف حافظ ذیشان یاسین صاحب اپنے گُم گشتہ ماضی کو یادکرتے ہوۓ مغموم دکھائی دیتے ہیں وہیں دوسری طرف یہ کتاب عصرِ حاضر میں ماحولیات،جنگلی حیات اور آبی ذخائر و وسائل کے ساتھ حضرتِ انساں کی بدسلوکی کا نوحہ بھرپور انداز میں پیش کرتی نظر آتی ہے۔اِس کتاب کو پڑھتے ہوۓ آپ کو بھی یہ درد ضرور محسوس ہو گا کہ گمشدہ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر ہم جس قدر آگے بڑھتے جا رہے ہیں،اُسی قدر زمین پر تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔فطرت ہم سے روٹھتی جا رہی ہے۔چرند و پرند،دریا و صحرا ہم سے نالاں ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.