مصنفہ: فوزیہ سعید
تبصرہ نگار: تہذین طاہر
زیر نظر کتاب ”پس آئینہ“ اک امید ہے، سلگتے معاشرتی مسائل پر پُراثر سچی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ فوزیہ سعید کی یہ پہلی کتاب ہے۔ مستقبل میں وہ نوجوان نسل کے لیے منشیات سے آگاہی سمیت کئی کتب لکھنے کا جذبہ رکھتی ہیں۔ پس آئینہ میں جن کہانیوں کا ذکر کیاگیا ہے وہ سب سچی کہانیاں ہیں۔ کہانیاں پڑھتے وقت ایسا لگتا ہے۔ جیسے یہ سب واقعات ہم اپنی آنکھوں سے کہیں نہ کہیں دیکھ چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان میں سے کسی واقعہ کا سامنا زندگی کے کسی موڑ پر آپ کو بھی کرنا پڑا ہو۔ آج کے اس دور میں جہاں کسی بھی وقت کوئی بھی حادثہ آپ کی زندگی میں رونما ہونے کے لیے سر اٹھائے آپ کا پیچھا کر رہا ہے وہاں اس کتاب کا منظر عام پر آنا ہماری تربیت کا ایک حصہ بن سکتا ہے۔
فوزیہ سعید صاحبہ ماہر نفسیات ہیں۔ وہ ایک اچھی کونسلر کے ساتھ ساتھ خوش مزاج طبیعت کی مالک ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے ہلال احمر میں تھیلیسیمیا کے بچوں کی خدمت کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ اپنے پیشے سے بالکل الگ تھلگ ان کی یہ کتاب خاص اہمیت کی حامل ہے، اس کی وجہ فوزیہ صاحبہ کا قلم ہے جس نے کورے کاغذ پر چلنا شروع کیا تو دنیا کا ایک بھیانک رخ پیش کیا۔ کتاب میں موجود ہر کہانی دل کو چھولینے والی ہے۔ کئی کہانیوں کو پڑھتے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ہر کہانی اپنے اندر ایک سبق لیے ہوئے ہے۔ سادہ اور عام الفاظ میں لکھی جانے والی یہ کتاب نوجوان نسل کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں۔
زیر نظر کتاب میں 36کہانیوں کو قلم بند کیا گیا ہے۔ یہ کہانیاں ان کی اب تک کی لکھی جانے والی کہانیوں میں سے چند ایک ہی ہیں کیونکہ جس تسلسل سے ان کا قلم چل رہا ہے اس کتاب کا دوسرا حصہ بھی جلد منظر عام پر آ جائے گا۔ کتاب میں آج کے معاشرے میں رونما ہونے والے ہر طرح کے حالات پر کہانی موجود ہے۔ اجنبی سے اپنائیت تک کے سفر کی داستان سمیت، یتیموں کا حق کھانے والے، جادو ٹونے پر بھروسا کرنے والے، غیروں پر یقین کرنے والے اور اپنوں سے منہ موڑنے والوں سے لے کر محبت و ہوس، مکافات عمل، اندھا پیار، معذور محبت، پگلی، طمانچہ، تقاضہ الفت جیسے کئی موضوعات شامل ہیں۔
کتاب کے بارے میں خود فوزیہ صاحبہ کہتی ہیں” یہ سب کہانیاں سچی ہیں۔اصل میں یہ سب میرے اپنے کونسلنگ کے کیس ہیں۔ان کو مسلسل لکھنے کی ایک بڑی وجہ وہ سب لوگ ہیں جنھوں نے میری کہانیاں فیملی میگزین میں پڑھیں ، مجھے ان کے بارے میں فیڈ بیک دیئے اور میرا حوصلہ بڑھاتے رہے۔میری کہانیوں کا کوئی نہ کوئی سبق اور مقصد ہوتاہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کو بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔اس کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں زیادتی ہو رہی ہے۔ جس میں معاشی، معاشرتی،نفسیاتی پہلوﺅں کے علاوہ آگاہی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اورلوگوں سے التجا کی گئی ہے کہ عورت کو بھی انسان سمجھا جائے نہ کہ صرف عورت“۔
کتاب میں عورت پر ہونے والے مظالم سے لے کر عورت کے ظالم ہونے تک کے تمام پہلو موجود ہیں۔ میں کہتی ہوں اس میں عورت کا جس جس طرح استعمال اور عورت کا جو جو روپ دیکھایا گیا ہے وہ سب ہمارے معاشرے کا وہ رُخ ہے جس سے نظریں پھیرکر عورت کو وقت کے رحم و کرم پر زندگی گزارناپڑتی ہے۔
”ارے سنو!! ایک عورت کو معاشرے میں کیسی کیسی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ تم تب ہی لگا سکتے ہوجب خود کو عورت کے جگہ پر ایک عورت سمجھ کر دیکھو گے“۔
لیکن ایک بات یاد رکھیں! عورت صرف مظلوم ہی نہیں ہے، ظالم بھی ہے۔ اور مرد صرف ظالم ہی نہیں ہے انسان بھی ہے۔ محبت کرنے پر آئے تو اپنی انا کو منوں مٹی تلے دفنا کر خود کو فنا کر لیتا ہے اور اف تک نہیں کرتا۔ مرد اگر نبھانے والا ہوتو دنیا کی کوئی طاقت اسے اپنے مقصد میں ہارا نہیں سکتی۔ اس لیے عورت کو مظلوم ضرور سمجھیں لیکن مرد کو انسان بھی سمجھیں کیونکہ ہر مرد ایک جیسا نہیں ہوتا۔
کتاب کے بارے میں ماہنامہ ”پھول“ کے ایڈیٹر محمد شعیب مرزا لکھتے ہیں”ہر انسان کی زندگی خوشیوں اور غموں سے عبارت ہے۔ زندہ دل لوگ اپنے غموں اور دکھوں کو نظر انداز کرکے خوشیاں تقسیم کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ سعید نے اپنے مطالعے اور مشاہدے کے ذریعے اپنے قلم کو متحرک کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعے نوجوان نسل خاص طور پر لڑکیوں کی رہنمائی اور کردار سازی کا بیڑہ اٹھایا۔انہوں نے نوائے وقت گروپ کے ہفت روزہ ”فیملی میگزین“ میں لکھنا شروع کیا تو لکھتی ہی چلی گئیں۔ اتنی مصروفیات کے باوجود اس قدر تسلسل سے لکھنا ان کا ہی کمال ہے۔ ان کی ہر کہانی میں ایک سچی کہانی پوشیدہ ہوتی ہے۔ نام اور مقامات بدل دیتی ہیں۔وہ معاشرے کی چکا چوند میں آنکھیں چندھیانے اور قدم ڈگمگانے والی لڑکیوں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کرتی ہیں، وہ مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر امید کی روشنی دکھاتی ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اس کتاب کا نام”پس آئینہ، اک اُمید ہے“ رکھا ہے۔ تمام کہانیاں دلچسپی اور مقصدیت سے معمور ہیں۔ ہرفرد کے لیے اس کا مطالعہ مفید ہے خاص طور پر نوجوان نسل کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ انسان ہر تجربے سے خود گزرے بلکہ سمجھدار انسان وہ ہے جو دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتا ہے“۔
ہر شخص دوسرے سے الگ ہے اسی بات کو بنیاد بنا کر ہمارا نوجوان طبقہ تجربہ کر کے ایسا سبق سیکھتا ہے جس سے یا تو وہ سنور جاتا ہے یا بگڑ جاتا ہے یا مایوسیوں کے گھپ اندھیروں میں کھو کر اپنی زندگی سے مایوس اور اللہ کی رحمت سے دور ایک انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے۔ محترمہ فوزیہ صاحبہ نے پس آئینہ میں جس امید کا ذکر کیا ہے وہ وہی چراغ ہے جو مایوسیوں کے گھور اندھیرے میں زندگی کی کرن ثابت ہوتا ہے۔ یہ وہ امید ہے جو منزل کا پتہ دے کر راستے کی دشواریوں سے آگاہ کرتی ہے۔ لہٰذا کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
اس کتاب میں ایک کہانی ہے ”تلاش“۔ میری نظر میں اس کہانی کا عنوان ادھورا ہے۔ کیونکہ کہانی میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اسے پڑھ کر واقعی میری آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ امیری بھی کیسی غریبی ہے نا جس میں ہم مکمل طور پر دوسروں پر انحصار کرتے ہوئے خود کو اندھا کر لیتے ہیں اور بچوں کو بچہ سمجھ کر اور”تم ابھی بچے ہو، تمہیں کچھ نہیں پتہ“ جیسے الفاظ بول کر ڈانٹ ڈپٹ کر کے خاموش کروا دیتے ہیں۔ خدارا میری والدین سے گزارش ہے بچوں کو سنیں، انہیں سمجھنے کی کوشش کریں ان کے بدلتے رویوں پر نظر رکھیں، تاکہ آپ اپنی معصوم جان کو کسی ذہنی اذیت میں مبتلا ہونے سے بچا سکیں۔ اس کہانی میں موجود لڑکی کی تلاش آج بھی جاری ہے ،وہ اکثر آئینہ میں کھڑی خود سے سوال کرتی ہے”میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں؟“ ۔ روحیں جب زخمی ہوں تو مٹی کا وجود مٹی کے اندر ہو یا باہر فرق نہیں پڑتا۔ فاؤنٹین ہاؤس میں بیٹھی وہ لڑکی آج بھی اپنے گناہگار کی منتظر ہے۔ اُف!!!۔
خاموشی جب قہر بن کر ٹوٹتی ہے تو ذہنی صدموں کے بوجھ لیے مرنے تک جینا ہی پڑتا ہے۔
مجھے آج بھی وہ جگہ وہ وقت اچھے سے یاد ہے۔ لکسیس گرینڈ ہوٹل میں بچوں کے تحفظ پر ہونے والے سیمینار میں شرکت کے موقع پر سننے والاایک جملہ میرے ذہن کے نہاں خانوں میں ایسے مقید ہو گیا جیسے جسم میں دوڑتا خون۔ سنا تھا”جس گھر میں بچے کو تحفظ نہیں ملتا، اسے گھر نہیں کہا جاتا“۔ اب ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ، نہیں بلکہ اپنے اندر جھانک کے دیکھیں کتنے ٹارچر سہہ کر آپ نے اپنے بچپن اور لڑکپن کازمانہ گزارا اور پھر جوانی میں داخل ہوتے کن کن نظروں سے کوفت کا شکار ہونے کے بعد ایک مضبوط عورت بنی ہیں؟۔ میں کہتی ہوں اس دنیا میں مکان صرف اینٹوں کے ہیں گھر تو اللہ کا ہی ہے جہاں نظروں کے ساتھ ساتھ سر بھی جھکا رہتا ہے۔ آپ کہیں کہ آپ گھر میں رہتی تھیں تو میں اس بات سے متفق نہیں ہوں گی کیونکہ بچپن میں آپ کے ساتھ بھی کوئی نہ کوئی ایسی انہونی ضرور ہوئی ہوگی جس کا ذکر آپ نے کبھی ڈر کے اپنی ماں سے بھی نہیں کیا ہوگا۔اور ایک عورت یا لڑکی ہونے کے ناطے آج بھی وہ بات آپ کے دل میں ایک زار کی طرح دفن ہوگی۔
واپس کتاب کی طرف جائیں تو زیر نظر کتاب328صفحات پر مشتمل ہے۔ ان صفحات میں ایک دنیا مقید ہے۔اپنی پہلی کتاب کا انتساب فوزیہ صاحبہ نے اپنے پیارے بیٹوں ”دانیال سعید مرزا اور دانش سعید مرزا“ کے نام کیا ، جن کے وقت سے وقت نکال کر لکھا“۔ کتاب کی قیمت 1200/-روپے ہے۔
میری خیال میں اس کتاب کا مطالعہ آج کے نوجوانوں سمیت والدین کو بھی ضرور کرنا چاہیے تاکہ وہ بچوں کی تربیت کے دوران ہونے والی غلطیوں سے آگاہ ہو سکیں۔ آج کل ہم آنکھوں دیکھیں مکھی نگل ہی لیتے ہیں کہ شاید جس مکھی کے پَر میں شفا کا ذکر ہوا ہے وہ یہی مکھی ہو لیکن اکثر وہ مکھی بدہضمی کا شکار کر دیتی ہے۔ اس لیے آنکھیں کھول کر زندگی کو حقیقت کی نظر سے دیکھیں۔
میری دعا ہے کہ اللہ پاک مجھ سمیت سب کے نگہبان ہوں اورڈاکٹر فوزیہ سعید کے قلم میں اتنی وسعت پیدا ہو کہ وہ معاشرے کے ہر رُخ سے پردہ اٹھاتی چلی جائیں اور ہمیں آگاہی فراہم کرتی رہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
کتاب ”پس آئینہ اک امید ہے“ تعمیر پاکستان پبلی کیشنز اینڈ فورم کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
0322-4348169
٭….٭….٭
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.