بسمہ تعالی
۔۔نام کتاب۔۔عورت ، حلیف یا حریف
مصنف۔۔ڈاکٹر محمد آفتاب خاں

تبصرہ نگار۔ آپا قانتہ رابعہ
ناشر۔۔ادبیات  اردو بازار لاہور
قیمت۔۔900 روپے
صفحات۔۔445
قارئین جب سے دنیا وجود میں آئی ہے اور جب تک قائم رہے گی عورت کے کردار پر رائے ایک ہو ہی نہیں سکتی ۔ہر مذہب میں عورت کے کردار کو مرد سے مختلف سمجھا گیا ہے اور ان کی تعلیمات سے پتہ بھی چلتا ہے تاہم اسلام عورت کے بارے میں ایک ہی رائے پیش کرتا ہے کہ عورت اور مرد کی تخلیق  میں کوئی فرق نہیں دونوں کی تکریم میں کوئی فرق نہیں اگر فرق ہے تو بس ایک درجے کا اور وہ ایک ڈگری زاویہ کا فرق قوام ہونے کا ہے۔
اس لفظ قوام کی ہر کس و نا کس نے اپنے تئیں وہ تشریح کی، وہ معنی نکالے کہ عقل دنگ رہ جائے ۔۔۔جب مفہوم کو کچھ سے کچھ کردیا جائے تو شکوک و شبہات کے دروازے کھلتے ہیں اور انسان صحیح سمت سے ہٹ جاتا  ہے۔
عورت کو بھی اسی ایک درجہ کی کمی کی مار ماری گئی اور مساوات مردوزن کے نعرے سے تباہی کا وہ آغاز ہوا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ عورت مادر پدر آزاد ہونا چاہتی ہے اور اس چیز نے جنسی بے راہرو کے وہ سلسلے شروع کردییے معاشرہ میں وہ تباہی پیدا کی جو شاید ایٹم بم کی تباہی سے بھی زیادہ ہے۔
زیر نظر کتاب ” عورت حلیف یا حریف ” ایسی کتاب ہے جو عورت کے وجود ، اس کی تخلیق کے مقاصد اس کے مقام و مرتبہ اور اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں واضح دوٹوک نظریہ پیش کرتی ہے۔
چونکہ ہمارا پڑھا لکھا بلکہ اب نوجوان طبقہ عربی اور فارسی سے نابلد ہے تو بدقسمتی سے یہ عورت کے بارے میں دینی تصور سے آگاہ ہی نہیں جو تصور عیسائیت اور دوسرے الہامی اور غیر الہامی مذاہب میں عورت کے بارے میں موجود ہے اس کو تھامے اندھا دھند پیروی میں مصروف ہیں۔
یہ کتاب ان سب کے غلط نظریات یا خیالات کی تردید اور عورت کی قرآن و حدیث کے علاوہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام کی روشنی میں اس کا صحیح مقام یا حیثیت بتانے کے لئے لکھی گئی ہے۔
دور جدید کے تضادات کے اس دور میں ایسی کتب ذہن کو یکسو کرتی ہیں۔
کتاب فاضل مصنف کے متعلقہ موضوع پر بھرپور مطالعہ کا نچوڑ ہے۔ آپ اسے ایک طرح سے عورت کے بارے میں انسائیکلوپیڈیا سمجھ سکتے ہیں جو بہت عام فہم انداز میں تحریر کی گئی ہے۔
کتاب کے آغاز میں دنیا کے مختلف مذاہب میں عورت کے مقام لا طائرانہ جائزہ بہت مفصل دیا گیا ہے۔
کتاب چونکہ تحقیق اور بھرپور مطالعہ کا نچوڑ ہے تو کئی ابواب یا ان کے حصے ایسے ہیں جہاں یہودیت ؛ عیسائیت اور اسلام تینوں الہامی مذاہب میں عورت کا تقابلی جائزہ محققانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ظاہر ہے تحقیق یا مقالہ پڑھنا افسانہ یا کہانی پڑھنے کی مانند نہیں ہے ۔کئی کئی صفحات مشہور کتب میں سے منتخب اقوال یا حوالہ جات پر مبنی ہیں تو ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب میں ہر دو تین صفحات کے بعد حاصل مطالعہ کو جلی حروف میں لکھا دیا گیا ہے تاکہ جو حوالہ جات وغیرہ سے دلچسپی نہیں رکھتے ان کو ان کے مطلب کی چیز بغیر مشقت کے مل جائے۔
تینوں مذاہب میں عورت کے مقام سے پہلے عورت کی تخلیق کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔
آخر میں اسلام کی رو سے اس کی حیثیت کا تعین کرنے کے بعد مستشرقین کے اعتراضات اور ان کا جواب مدلل طریقہ سے دیا گیا ہے۔
ان میں چھوٹے بڑے تمام وہ نکات شامل ہیں جو ہر زمانے میں ہی ہوتے رہے ہیں تعدد ازدواج ، لونڈیوں کی حیثیت،وغیرہ وغیرہ۔
باب چہارم مسلم معاشرے میں شادی/ نکاح کے عنوان سےشادی کی اقسام،نکاح کا مقصد،اور شادی کے قانونی پہلووں کے بارے میں ہے۔
ان نکات میں حق مہر ، ناں نفقہ سے رضاعت تک کے بیسیوں پر تفصیلی گفتگو موجود ہے۔
باب پنجم میں نظریہ مساوات مردوزن کے طائرانہ جائزہ میں صرف مستشرقین ہی نہیں ان مسلمان دانشوروں کے اعتراضات کا علمی جائزہ لیا گیا یے جو مغربی مصنفین کے پروپیگنڈہ کا شکار ہو گئے۔
یہ پورا باب آدم اور حوا کی تخلیق کا عہد قدیم اور قرآن کی تعلیمات کے بتائے نکات کی روشنی میں مرتب کیا ہے۔
یہ بات نمایاں طور پر رکھی گئی کہ تخلیق آدم کے تقابلی جائزہ میں سارے نکات اختلافی نہیں بلکہ گونہ مطابقت والے احکامات بھی موجود ہیں۔
کتاب میں بہت ساری وضاحتیں کراچی یونیورسٹی کی ریٹائرڈ پروفیسر آف فلاسفی محترمہ عارفہ فرید کی کتاب میں اٹھائے ہوئے نکات پر ہیں۔
ان کے ہر نکتے کا مدلل جواب پڑھنے کے لائق ہے۔
کتاب میں عورت کے ہر رشتے کو خوبصورت انداز میں قرآن، حدیث اور اقبال کی شاعری کی روشنی میں پیش کرکے نفس مضمون کو ادبی رنگ دیا گیا ہے۔
چونکہ مغربی پروپیگنڈہ سے متاثر یا مستشرقین کے اعتراضات میں ایک اعتراض شاعر مشرق کے عورت کے بارے میں خیالات پر تھا اس کا جواب لکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے شاعرانہ ذوق کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔
کتاب کا حسن ان آخری ابواب میں بہت بڑھ جاتا ہے جن میں اقبال کے ضرب کلیم، ارمغان حجاز، اسرار بےخودی سے عورت کے بارے میں اقبال کے اشعار منتخب کر کے ان کی شرح بیان کی گئی ہے۔
بہت سے اشعار ہیں جن کو پڑھنے کے بعد اقبال کی عورت شناسی کا قائل ہونا پڑتا ہے صرف اشعار سے ہی نہیں ڈاکٹر صاحب نے علامہ اقبال کے ان لیکچرز سے بھی پیراگراف پیش کئے ہیں جو عورت کے بارے میں اسلام کے نظریات کی واضح تفسیر ہیں۔
انہوں نے اپنے اشعار اور لیکچرز میں عورت کو تہذیب انسانی کی بنیاد قرار دیا عورت محبت کا نقطہ آغاز ہے لکھتے ہیں۔
رسول اللہ جس شفقت کا پیکر تھے اس کا پرتو اللہ نے ماں کے دل میں ڈالا یوں ایک پیغمبر جس طرح قوموں کو سیرت کے سانچے میں تیار کرتا ہےماں اپنے دائرے میں یہی کام کرتی ہے۔
اقبال کے شعری شرح میں بہت خوبصورت نکتہ ہے۔
اگر تیری عقل بات کی تہہ تک پہنچ سکتی ہے تو لفظ امت پر غور کر لفظ امامت اور امت دونوں کا مادہ ایک ہی ہے۔
جو معترضین نے نکات اٹھائے وہ دراصل اقبال کے اس نظرئیے کی وجہ سے تھے جس میں انہوں نے گھر کو عورت کا مرکزی نکتہ قرار دیتے ہیں۔
مزید یہ کہ انہوں نے رموز بے خودی کی اس فارسی نظم کو بطور حوالہ پیش کیا ہے جس میں اقبال نے سیدہ فاطمہ الزہراء کی تین حیثیتوں کو مسلمان عورتوں کے لئے مثال بنایا ہے
1۔۔سیدہ فاطمہ بطور بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
2۔سیدہ فاطمہ الزہراء بطور زوجہ علی کرم اللہ
3۔۔سیدہ فاطمہ الزہراء بطور والدہ حسن و حسین علیھالسلام
قصہ مختصر کتاب علم و  تحقیق کانادر شاہکار ہے جس کے مطابق مغربی تہذیب کی بنیاد الحاد ہے اور اختتامی صفحات میں ماضی کی درخشاں مثالی خواتین کے تعارف اور خراج عقیدت کے ساتھ دور حاضر کی زندگی کے ان شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا تزکرہ بھی موجود ہے جو علم ہو یا قلم طب ہو یا وکالت ہر سطح پر عورت کو اسلام کے تحت دئیے رتبے کی حامل ہیں دن رات اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں۔
میں اس کتاب کی اشاعت پر ڈاکٹر آفتاب خاں کے علاوہ  ناشر عروہ وحید اور عمار وحید کو مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ ذہنوں میں پیدا ہونے والے بہت سے سوالات کا موثر انداز میں تسلی بخش جواب لکھ کر اور اس کتاب میں شامل کر کے تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں بے شک ایسے راسخ العقیدہ اور محب وطن لوگ ہمارے لئے بہت بڑا سرمایہ ہیں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content