نوید ملک کی تصنیف “منقوش”۔ تبصرہ نگار: نازیہ نزی

نوید ملک کی تصنیف “منقوش”۔ تبصرہ نگار: نازیہ نزی

 

نام کتاب   : منقوش

صنف شاعری   : طویل نظم

*شاعر   : نوید ملک

اشاعت 2021

صفحات 48

قیمت 180

رمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز

تبصرہ نگار : نازیہ نزی نوشہرہ ، پاکستان

سر ”نوید ملک“ کانام آزاد نظم کی دنیا میں ایک معتبر حوالہ ہے۔  ان کی حالیہ کتاب ”منقوش“طویل نظم کے حوالے سے بہت ہی منفرد اور دلوں کو جھنجھوڑنے والی کتاب ہے ۔ اُن کی یہ طویل نظم درد کا اعلامیہ ہے ۔

طویل نظموں میں یہ نظم نہ صرف سبق آموز ؛ بل کہ قفل لگے زنگ آلود اذہان کو کھولنے کا ذریعہ ہے ۔

منقوش کے معنی ہیں

نقش کیا ہوا / ثبت /جس کے نشانات موجود ہوں

 منقش ۔

۔ لکھا ہوا / مرقوم نیز کندہ ۔

نوید ملک کی شاعری کا ماخذ معاشرتی اور سماجی پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے  ۔ اس نظم کا عنوان” ہواؤں کے قبیلے “ ہے ۔انھوں نے معاشرتی استحصال کی بہترین منظر کشی کی ہے کہ غریب کا بچہ/بچی  ہر جگہ ہی ذلیل و خوار ہیں ؛ کبھی اس کا بچپنا چھینا جاتا ہے اورکبھی اس کی غربت اسے کم عمری میں ہی تعلیم سے دور اور کام کاج پر مجبور کر دیتی ہے ۔ آج کا بچہ صرف شر دیکھ رہا ہے اور بھلائی سے اس کا واسطہ ہی نہیں پڑ رہا ۔ یہاں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو ” ہواؤں کے قبیلے “سے موسوم کیا ہے ؛ جہاں نہ جمہوریت کا احساس ہے نہ ہی مساوات اور بھائی چارے کا ۔ ہر قبیلہ اپنی اپنی ذات میں مگن شخصی برائیوں کا مرتکب ہے ؛ کہیں   جنسی وارداتیں ، مذہبی فرقہ واریت ، دہشت گردی ، تو کہیں سیاسی انتشار ،دھوکے بازی ، معاشرتی استحصال اور ملکی سالمیت خطرے کے دہانے پر ہے ، ان سب باتوں کو نظم میں یکجا کر کے قبیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

ان کی نظم میں سماجی برائیوں کے ناسور کا نئی نسل میں تیزی کے ساتھ منتقل ہونے کا احساس غالب ہے ؛ جس نے ہماری نسل پر ایسے  ”نقوش “ چھوڑے ہیں کہ ہم ان برائیوں کے سحر میں گرفتار ہو کر اپنی شناخت کھو رہے ہیں ۔

نوید ملک کا ”نظمیہ ذوق“ بہت ہی منفرد انداز میں  پیش ہونے والے واقعات کو عمیقیت کے ساتھ  الگ ڈھنگ سے بیان کرنے کی  نمایاں خصوصیت رکھتا ہے ۔

انھوں نے اخلاقی اقدار اور رویوں کو موضوع بنایا اور زمانے کے سردو و گرم ،تلخ و شیریں واقعات کے ساتھ تہذیبی خاکہ پیش کیا ۔

انھوں نےعہد رفتہ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا  اور مطالعہ بھی ایسا کہ جب لفظوں کو قرطاس پر اتارا تو ان کے الفاظ نہ صرف تیر کی مانند سیدھے قلب میں جا کر پیوست  ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؛ بل کہ گہرے” نقوش“چھوڑ سکتے ہیں ۔ وہ جدت پسندی میں پرانی اقدار بھول جانے کے روا دار نہیں۔ ان کی طویل نظم  بین الاقوامی اثرات کے پیش نظر خود پرستی میں گرفتار لوگوں پر ایک گہرا طنز ہے ۔ وہ دنیا کی رنگینیوں میں گم نہیں رہنا چاہتے ؛ بل کہ انھوں نے لفظوں کے ذریعے حقائق سے  بغاوت اور انحراف کرنے والوں کے اندر کیا کیا رجحانات جنم لے کر نقش ہو چکے ہیں ؛ ان کا تقابلی جائزہ لے کر آئینہ دکھایا ہے  ۔ ہم انھیں رجحان ساز شاعر بھی کہہ سکتے ہیں ۔

انھوں نے ملمع کاری  کی بجائے سچائی پر قائم رہ کر اپنے قلم کو برائیوں کے خلاف استعمال کیا اور یہی بے باکی ان کے نڈر ہونے کا ثبوت ہے  ۔

نوید ملک نے جو کچھ لکھا اس کے ذریعے  دوسروں کو درست سوچنے کی دعوت بھی دی ۔ ان کا کردار اس نظم میں  ”داعی “ کا ہے ؛ جو تنِ تنہا اس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔  نہ جانے کب سے ان کے سینے میں  خیالات کا لاوا پک رہا تھا ؛ جس کو وہ قرطاس پر ایک” ناصح ” کی حیثیت سے منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے  ۔ قاری اس نظم کے ذریعے لفظوں کی دہک محسوس کر سکتا ہے ۔ میں نے کئی بار نظم پڑھی، اس کی روانی  ایسی تھی کہ میں اپنی سانس کو توڑنے سے روکتی رہی، میں پڑھتی رہی ربط نہیں ٹوٹا ، تسلسل قائم رہا ، البتہ ! میری سانس ضرور ٹوٹتی رہی ۔ نظم کی یہ روانی قابل ستائش ہے ۔ قاری خود کو لفظوں کے دھارے میں بہتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔  انھوں نے اولاد آدم کی کجیاں اس خوبصورتی سے بیان کیں ؛ جن میں  استعاروں، تشبیہات کا نئے انداز میں برملا استعمال کیا ؛ جس میں ہر لفظ اپنی گواہی پیش کرتا محسوس ہوتا ہے کہ ”میں سچ ہوں“ ۔ نوید ملک کا یہی ہیجان جب سوچوں پر قابض ہوا  تو قرطاس پر منتقل ہوتا چلا گیا ؛ جس کا خود نوید ملک صاحب کو بھی احساس نہ ہو سکا کہ وہ احساس کی شدت سے تڑپ کر کیا کچھ لکھ چکے ہیں ۔ یہاں نہ وہ خود کو روک سکے ،اور نہ کوئی طاقت ایسی تھی کہ ان کو روک سکتی ۔ وہ اپنے ضمیر کے سامنے یہ سب کہنے پر  اس وقت تک کمر بستہ رہے ، جب تک ان کے وجود سے نکل کر حقائق لفظوں میں نہ ڈھل گئے ۔ یہ ایک انوکھا تجربہ تھا ۔ آج تک عشق اور محبت پر ہزار ہا نظمیں لکھی جا چکی ہیں؛ جن میں عشق معشوقی کی داستانیں رقم ہیں ؛ مگر وہ تو انسانیت کی تباہی اور اخلاقی خستہ حالی پر نوحہ کناں ہیں  ؛ کیوں کہ ”ہواؤں کے قبیلے“ کی فضا مایوس کن ہے ۔

ان کے ”ادبی پارے“ کے مطالعہ سے بالخصوص زمانے کی قدروں کا علم ہوتا ہے  کہ یہ کس دور کی آگاہی دے رہے ہیں ۔ انھوں نے اپنے” فن پارے “میں  نظم و ضبط کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھ کر اس سے عملِ جراحی کا کام لیا ۔ ایک نظم کے اندر مختلف موضوعات کو یکجا کرنا ، نوید ملک صاحب ہی کا خاصہ کہلائے گا ۔ ان کا ادبی ذوق انتہائی پختہ اور رچا ہوا ہے ۔وہ حقیقت پسندی سےسمندر کو کوزے میں بند کرنا جانتے ہیں ۔ وہ لایعنییت سے زیادہ فکر کی تربیت کرتے ہیں ؛ ان کا ” فکری آہنگ “نہ ہی پُرفریب ہے اور نہ ہی بہلاوں سے بہلانے کی کوشش کرتا ہے ؛ بل کہ ان کا تخلیقی عمل ” فکر“ میں توازن کی تمیز کرنا سکھاتا ہے ۔

ان کی ادبی فضا نہ صرف  نصیحت آمیز ہے؛ بل کہ ان کا اندازِ تخلیق دانشورانہ رنگ لیے ہوئے ہے ۔ یہی طرزِ نگارش ان کو دوسروں سے ممتاز کرنے کا ذریعہ ہے ۔ ان کا تخیلاتی ڈھانچہ اطلاق پر مبنی ہے ۔ انھوں نے متنوع موضوعات کو طویل نظم میں بیان کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ وہ  نظم کی ساخت، ہئیت، ارتقاء سب پر گرفت رکھتے ہیں ۔ان کا لفظی شعور بالغ ہے ، وہ گھسے پٹے موضوعات اور بار بار کے آزمائے ہوئےجملے /فقرے / عبارت کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے بہت سہل پسندی کے ساتھ اپنا مطمع نظر بیان کرتے ہیں ۔وہ لفظوں کے استعمال میں احتیاط پسندی کے ساتھ انفرادیت کے قائل ہیں ۔

ان کی نظم سے کچھ لائنز :

تماشا کرنے والا   ڈگڈگی سے جنبشیں تقسیم  کرتا ہے

نہ جانے کتنے بحرانوں کو شہروں میں نچاتا ہے

غبار آلود سینوں میں  تحّیر منکشِف ہو کر  نگاہوں کو

بچھا دیتا ہے ایوانوں کی جانب  دوڑتے اور  کِلکِلاتے   سرخ رستوں پر

عصا والے، کسی بھی سامری کے سانپ پر غصہ نہیں کرتے

یتیموں پر بھی سارے ٹیکس لگتے ہیں

قلم  کی نوک سے “قابیل”  کی عظمت  ٹپکتی ہے

ہر اک جانب سے سورج  دھوپ سب پر تھوکتا ہے   اور

شجر کے سامنے  اُس کا ہی سایہ کاٹا جاتا ہے

کسی بیوہ کی روٹی  دیکھ کر چولھا بھی اپنی ساری حدّت بھول جاتا ہے

غریبی خوف کی زنبیل میں   بے چارگی کا زہر پیتی ہے

مقدس رات کے تارے بھی جب محروم طبقوں کے

دُکھوں پر   ٹمٹماتے ہیں۔

انھوں نے اپنی نظم کے آخری حصے میں  بگڑتے ، بہکتے  لوگوں کی نفسیات کا بغور جائزہ لے کر ان کو حق کا پیغام دیا کہ وہ غار حرا کی طرف لوٹ جائیں ؛ کیونکہ نوع انسان کی ”ہوا “اُسی غار حرا میں تبدیل ہوئی تھی ۔  انھیں یاد دلایا  کہ آپ کا اصل کیا ہے ، منزل مقصود کیا ہے اور ہمیں کس جانب لوٹنا ہے ؟ جتنے بھی نامساعد حالات ہوں مغربیت سے بچنا ہے ۔ ہم مغربی معاشرے کے اثر میں ضرور ہیں ؛ مگر ہماری پہچان دین اسلام ہے ۔ ہمیں بہ حیثیت مسلمان اپنی اقدار کو نہیں بھلانا ؛ ہمیں واپس لوٹنا ہے ؛ وہیں پرجہاں سے سنت نبوی کے احکام لاگو ہوتے ہیں ۔

ہمیں امتِ محمدیہ کی لاج رکھنی ہے اور محمد مصطفی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  کے نقش قدم پر چلنا ہے  ؛ اگر ہم چاہیں تو با آسانی یہ سب کر سکتے ہیں ۔

واٰخرو دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین ۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.