نائید گل کے افسانچے ” چہ میگوئیاں” ، تاثرات: دانیال حسن چغتائی

چہ میگوئیاں ناہید گل
چہ میگوئیاں ناہید گل
چہ میگوئیاں ناہید گل

نائید گل کے افسانچے ” چہ میگوئیاں” ، تاثرات: دانیال حسن چغتائی

تاثرات: دانیال حسن چغتائی

چہ میگوئیاں ناہید گل
چہ میگوئیاں ناہید گل

قلم سے اپنے فن کا جوہر دکھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ہنر من جانب اللہ ودیعت ہوتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اللہ نے اس نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ ناہید گل صاحبہ بھی  ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں اور ان کی اب تک چار کتب شائع ہو چکی ہیں ۔ ان کی تازہ ترین تصنیف  “چہ میگوئیاں  “ہے جو مختصر افسانچوں پر مشتمل ہے اور اسے پریس فار پیس  پبلی کیشنز نے  شائع کیا ہے ۔
اردو میں افسانچے کی شروعات، سعادت حسن منٹو سے تسلیم کی جاتی ہے۔ ہر گزرتے برس نے افسانچے کو مضبوط و مستحکم کیا۔ افسانے کی اس چھوٹی شکل نے صنف تک کے سفر کے لئے ایک طویل مسافت طے کی۔ اس سفر کے دوران افسانچے نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ کسی نے اسے فضول مشق کا نام دیا تو کسی نے اسے ہنگامی ادب کہا۔ کسی نے اس کا مذاق اڑایا ، کسی نے اسے لطیفہ تک کہہ ڈالا۔ افسانچے کے اس سفر میں بہت سے افسانچہ نگاروں نے اسے اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ افسانچوں کے کئی مجموعے سامنے آئے لیکن بدلتے ہوئے تیز رفتار دور میں جب لوگوں کے پاس طویل تحاریر پڑھنے کا وقت نہیں رہا ، سوشل میڈیا نے اسے وقت کا تقاضا کی ضرورت ثابت کر دیا ہے۔
اگر ناہید گل صاحبہ کے افسانچوں کی بات کی جائے تو ان میں عورت پر ہونے والے مظالم اور سماجی برائیوں کا رد خصوصی موضوعات کے طور پر سامنے آتے ہیں ۔
افسانچوں کے پر اثر ہونے کا فیصلہ تو قارئین ہی کرتے ہیں کیونکہ بعض اوقات افسانچہ کے لوازمات پورے نہ بھی کیے جائیں تب بھی بین السطور دیے گئے اصلاحی پیغامات انسانی ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور ناہید گل صاحبہ نے لفظوں پر طنز کے مصالحے لگا کر ان سے خوب نیزہ زنی کی ہے۔ افسانچوں میں حقیقت کے آئینے میں سماج کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ دو چار کو چھوڑ کر سب افسانچوں کی متاثر کن پنچ لائن رہی جو کسی بھی حساس شخص کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی  رہی۔
“چھان بورا “غربت کے عفریت کو بے نقاب کرتی تحریر ہے تو ہجوم میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ سب مفت کی مے چاہتے ہیں اور محنت سے جی چراتے ہیں ۔ “عیدی” شادی کے بعد سسرال کے ہو جانے والے بھائی کا قضیہ ہے تو تحفہ پرائیویٹ ہسپتالوں کے ہوشربا بلز کا نوحہ ہے۔ ہر تحریر کا الگ الگ جائزہ لیا جائے تو تبصرہ خاصا طویل ہو جائے گا لیکن مقصدیت کا عنصر سب افسانچوں کا لازمی حصہ ہے ۔
ان کے افسانچوں میں زبان کی برجستگی ، فکری گہرائی تخلیقی بصیرت اور جذباتی تنوع دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ بہت عمیق ہے۔ اپنی کہانیوں کے ذریعے انہوں نے سیاسی ، سماجی ، اخلاقی اور اصلاحی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مجھے یقین ہے ناہید گل کے اس کے مجموعے چہ میگوئیاں کو ادبی دنیا میں بھر پور پذیرائی حاصل ہوگی ۔
میری دعا ہے کہ یہ اسی طرح اپنی تخلیقات سے قارئین کو علمی و ادبی پیرائے میں زندگی کے مختلف موضوعات پر آگاہی دیتی رہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.