سمیہ شاہد

کٹے ہوئے پروں کے ساتھ اڑنے میں اسے بہت دقت پیش آ رہی تھی۔ وہ اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ “اچھا بھلا میں رہ رہا تھا ان۔سب کے ساتھ !! ” وہ بے ساختہ بول اٹھا۔ لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ۔اس کے پر کٹ چکے تھے۔

   °°°°°°°°°°

دو دن پہلے اس کی اپنے ماں باپ کے ساتھ منہ ماری ہو گئی۔ جس کے بعد اس نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ جس کے بہلاوے میں آ کر وہ اپنا آ شیانہ چھوڑ ریا ہے وہی اس کی طاقت، اس کا غرور توڑنے کا سبب بننے والا ہے۔

وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر ، انمول اور بے قیمت رشتے کو چھوڑ کر صرف اور صرف حرص و ہوس کے پجاریوں میں پہنچ گیا۔ اور انہوں نے اسے پکڑ کر اس کے پر کاٹ ڈالے۔ وہ ہکا بکا ، اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھتا رہا ، اس قدر سکتے میں کہ اسے کسی قسم کی تکلیف کا احساس بھی نہ ہو سکا۔ جب انہوں نے اچھی طرح اس کے پر کاٹ ڈالے تب وہ اپنے خواب سے بیدار ہوا اور اس کی حسیات جاگ اٹھیں۔ اس نے انتقام لینے کا فیصلہ کیا لیکن۔۔۔وائے افسوس اب وقت اسے اس کی طاقت واپس دلانے سے قاصر تھا۔ اس نے وقت کی منت سماجت کی لیکن وقت کسی کی آ ہ و زاریاں سن کر ٹھہرتا نہیں۔ یہ بات اسے اب سمجھ آ ئی جب واپسی کے راستے بند ہو چکے تھے۔

اس نے سوچا کہ مجھے یہاں سے کم از کم نکلنے کی تو کوشش کرنی چاہیے۔ یک دم اسے لگا کہ کوئی اس کے بچے کھچے پر پھر سے توڑ رہا ہے ۔۔۔ ایک مکروہ ہنسی اور ساتھ ہی ہاتھ کی تیزی۔۔۔۔۔۔

اس نے پل بھر میں سوچا اور اپنے پنجوں سے پلٹ کر حملہ کر کے اس کراہیت و زلت سے لبریز شخص کوخون میں لت پت کر ڈالا۔اب اسے لگا فرار کا راستہ کھلا ہے ۔ وہ بھاگا۔ بے تحاشہ بھاگا۔ جب بھاگ بھاگ کر اس جہنم سے نکل آ یا تو اسے احساس ہوا کہ والدین کی سختی میں بھی محبت ہے جبکہ دنیا کی محبت میں سختی ہے ! لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔وہ سوچنےلگا کہ کہاں جاؤں، کیا کروں۔ اچانک اسے خیال آیا کہ ایک دفعہ اڑان بھر کر دیکھوں کیا پتا کوئی طاقت باقی ہو۔۔۔اس نے اپنے انتقام کے جذبے کو بھڑکانا چاہا اور اس میں تھوڑی بہت کامیابی بھی حاصل کر لی۔لیکن کٹے ہوئے پروں کے ساتھ اڑنے میں اسے بہت دقت ہیش آ رہی تھی۔ تھوڑی دیر وہ یہ مشقت برداشت کرتا رہا پھر ایک گھنے درخت کی شاخ پر بیٹھ گیا۔ لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ اس درخت کی جڑوں میں بھی اس کو کاٹنے والے موجود ہیں ۔ وہ بہت حیران ہوا اور درخت سے پوچھنے لگا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ درخت نے کہا ” بیٹا ! اسے اپنی مرضی کرنے دو۔ لیکن دنیا مکافات عمل ہے۔ جو جیسا بوتا ہے ویسا ہی کاٹتا ہے۔یہ مجھے نقصان پہنچا کر اپنا فائدہ ڈھونڈ رہا ہے لیکن آ خر میں نقصان اس کا ہی ہونا ہے !” یہ کہہ کر درخت خاموش ہو گیا پھر کبھی نہیں بولا۔یہ سن کر وہ بھی کہنے لگا ، ” میں نے بھی تو اپنے والدین کے نقصان میں اپنا فائدہ تلاش کیا لیکن خود اپنا  نقصان کرا بیٹھا !! یہ کہہ کر وہ رونےلگا اور پھر روتے روتے ابدی نیند سو گیا۔

لکھاری کا تعارف

سمیہ شاہد نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ، 2014 میں گریجویشن مکمل کی۔آپ  کی ایک کتاب   “اسرار خودی” شائع ہو چکی ہے۔ انھوں نے روزنامہ نوائے وقت  ستر  سالہ تقریبات میں عنوان ” پاکستانی میڈیا میں بھارتی کلچر کا غلط پرچار ” کے تحت پاکستان بھر میں اول انعام حاصل کیا۔ جامعاتی دور میں غیر نصابی سرگرمیوں ، تقاریر و تحریری مقابلہ جات میں کافی اعزازت حاصل کیے۔

۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact