فرحانہ نے ابھی نیا نیا پڑھنا سیکھا تھا اور کچھ انگریزی حروف تہجی سے شد بد تھی تو راہ میں آنے والی ہر عبارت جوڑ کرکے پڑھنا اپنے اوپر فرض کر لیا تھا ہر سائن بورڈ،دیوار اشتہار اس کی انگریزی اور اردو میں بلند خوانی کی مشق ستم بنے ہوئے تھے۔ گاہے گاہے امی جان سے پڑھنے کی فرمائش کرتی اور باہر کے نظارے میں محو ہو جاتی۔ اسی اثنا میں گاڑی پٹرول پمپ پہ رکی تو حسب عادت ہر چیز پہ نظر دوڑائی اور سامنے ہی بڑا سا “پی ایس او” دیکھ کر عادت کے مطابق جھٹ سوال کر ڈالا “امی جان! یہ پی ایس او کیا ہے؟”
“بیٹا یہ پاکستان سٹیٹ آئل کا مخفف ہے”
یہ مخفف کیا ہوتا ہے ؟ نیا سوال حاضر تھا
“بیٹا بڑی چیزوں کا چھوٹا سا نام رکھ لیا جاتا
ہے تاکہ آپ جیسے بچے اسے جلدی سے یاد کر سکیں”
اب یہ پاکستان سٹیٹ آئل کیا چیز ہے؟ ایک اور سوال……
بیٹا یہ پاکستان کی پیٹرولیم مصنوعات کی سب سے بڑی غیر سرکاری کمپنی ہے جو پورے ملک میں پیٹرول کی خرید و فروخت کرتے ہیں تاکہ ملک کا پہیہ رواں دواں رہے دیکھو! گاڑی میں پیٹرول ڈلوائیں گے تو ہی گاڑی چل سکے گی ورنہ بند ہو جائے گی اور گاڑیاں چلیں گی تو پاکستان سفر کرسکے گا نا! اسی طرح سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے نام میں پاکستان کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور ادارے سرکاری ہوں یا غیر سرکاری ملک کی امانت ہیں ان کی حفاظت اور ایمانداری سے ان کا استعمال ملک کی حفاظت اور ایمانداری سے خدمت ہے۔”
اس کی نظریں اب بھی
PSO
کے سپیلنگز پہ جمی تھیں۔ امی جان نے اس کی نظروں کو بھاپنتے ہوئے کہا “دیکھو! جہاں ” پی ” کا سپیلنگ آئے گا وہ لفظ پاکستان کا چھوٹا نام ہوگا یاد رکھنا! اور ہاں جس جگہ “پاکستان” کا لفظ آئے وہاں صرف ادب و احترام،تشکر اور خالص وفا کو دل میں رکھنا!” پرائمری پاس سادہ سی امی جان نے اسے تفصیلی جواب دیا۔ آدھی باتیں تو سر سے گزر گئیں مگر اتنا یاد رہا کہ لفظ پاکستان کے ساتھ وفا کا ذکر ہوا تھا… پھر جب جب پاکستان کا لفظ کہیں پڑھا، لکھا دیکھااور سنا وہ مکالمہ چھم سے اس کی آنکھوں میں گھوم جاتا اور وہ نئے سرے سے خود کو پاکستان سے وفا کے بندھن میں بندھا ہوا محسوس کرتی۔ ذرا بڑے ہونے پہ سمجھ آیا کہ یہ صرف ایک ملک نہیں ہے بلکہ اسی کی طرح بہت سے مسلمانوں کی جائے امان ہے جہاں وہ آزادی سے رہ سکتے ہیں ارکان اسلام ادا کر سکتے ہیں—–
میٹرک کے امتحانات قریب تھے ہرطالبعلم زور و شور سے پڑھائ میں مصروف تھا ایسے میں وہ بھی دل و جان سے تیاری میں مگن تھی اس کے بہن بھائ اسے چھیڑتے کہ” فرحانہ تو ٹاپ کرے گی اتنا پڑھ پڑھ کے” مگر اس کا دل میں ایک ہی جواب ہوتا کہ” ٹاپ کا تو پتہ نہیں لیکن جو پڑھائ اس ملک کی خدمت کے لئے ضروری ہے اتنی تو کر ہی لوں گی! کئی بار جواب گولہ باری کی صورت بھی دیا جاتا لیکن وہ جانتی تھی کہ اتنا پڑھنے کے باوجود بھلے پوزیشن نہ آ سکے لیکن وہ اپنی نظروں میں سرخرو ہو جائےگی کہ اس نے اپنے تعلیمی ادارے کو اپنی نا اہلی سے دھوکہ نہیں دیا!
ایک دن چھٹی کے وقت ساری کلاس باہر نکل گئی تو وہ اور اس کی دوستیں پیچھے رہ گئیں اچانک محسوس ہوا کہ وہ پنکھا چلتا چھوڑ آئ ہیں تو وہ فوراً واپس بھاگی تاکہ پنکھا بند کر آئے۔
ہانپتی کانپتی خالی سکول پارکرتے ہوئے پنکھا بند کر کے واپس آئ تو دوست نے کہا “ابھی مالی بابا چکر لگاتے تو سب بند کر آتے ناحق اتنی دوڑ لگائ اور اگر ہم نکل جاتے تو اکیلی رہ جاتیں “
“ارے ایسے کیسے؟ مالی بابا بھول جاتے یا اسطرف آنا ہی نہ ہوتا تو کل صبح تک پنکھا چلتا،سکول کو اچھا خاصہ بل بھرنا پڑتا اور تو اور ملک کی پورے 18 گھنٹے بجلی ضائع ہوتی اس کا ازالہ کیسے کرتے ہم؟؟؟ یعنی کتنا بڑا نقصان کر دیتے اپنے ملک کا؟ تو کیا یہ بہتر نہیں ہم ہی تھوڑا سا مزید خیال کر لیں دیکھو تو ذرا سی دوڑ سے اتنا نقصان ہونے سے بچ گیا۔ پھر تم لوگ ہو نا انتظار کرنے کے لئے۔اگر نکل جاتے تو میں سمجھتی کہ بے وفا دوستوں سے پالا پڑا ہے جو 5 منٹ انتظار نہ کر سکیں۔ اس طرح تمھارا بھی پتہ چل گیا کہ کتنا ساتھ دے سکتی ہو مشکل میں!”
آخری الفاظ پہ جو منہ بنا کے آنکھیں شرارت سے گھمائیں تو سب نے سر تھام لیا
“اففففف کتنا دور تک جاتی ہو تم! چلو اب ابا انتظار کررہے ہوں گے ہمارا”۔ اور مصنوعی غصے سے کھنچ کر گیٹ کے پاس پہنچانے لگیں جہاں اس کے بھی ابو جان اس کے منتظر تھے۔
—–
وقت نے کروٹ لی اور دس سال بعد جب نند کی عیادت کے لیے ہسپتال گئی تو ڈیوٹی پہ موجود ڈاکٹر نے ڈسچارج شیٹ پہ واجبات کے خانے میں “پاکستان سٹیل ملز” پڑھ کر نند سے تصدیق کرنا چاہی تو اس کے خون میں بڑی زور سے گردش ہوئ کہ”صحت ہوگی تو پاکستان سفر کرے گا” اور اس ڈاکٹر نے جس طرح “پاکستان اسٹیل ملز” نام لیا اسے پھر سے اس لفظ سے نئے سرے سے محبت اور وفا محسوس ہوئ اور کالے ڈاٹس والے سرمئی سکارف کے ہالے میں اوور آل پہنے وہ ڈاکٹر اس کی پسندیدہ ہستی بن گئیں جنھوں نے اس انداز سے اس کی بچپن کی محبت کا نام لیا تھا۔
کئی مواقع آئے ، کئی جگہ یہ نام سنا ہر ایک کے کہنے اور پکارنے میں اسے نئے مفہوم سے آشنائی ہوئی اس کی گفتگو میں اکثر یہی لفظ گونجتا! اسے ماں اور پاکستان میں کوئی رق نظر نہیں آتا تھا جس طر ح وہ ماں کی شان میں گھنٹوں رطب اللسان رہ سکتی تھی اسی طرح وہ اس ملک کے لئے جب بولنے پہ آتی تو بولتی چلی جاتی۔اس کا ذخیرہ الفاظ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔
اسے لگتا کہ ہر وہ عمل جس میں وہ ڈنڈی مارے گی وہ سیدھا اس کے وطن کے دل پہ گھونسا بن کے لگے گا اور وہ ماں کو کیا جواب دے گی؟
—–
اماں جانی! یہ ” پی ایس او” کیا ہوتا ہے؟”
پاکستان سٹیٹ آئل” کہتے ہوئے ایک دم ذہن میں جھماکہ ہوا اور پاکستان کہتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہوگئیں!
آج اس کا پانچ سالہ بیٹا بیک سیٹ پہ بیٹھا اس سے پوچھ رہا تھا اور وہ بہت پیچھے ماضی میں چلی گئی تھی جہاں اس کی ماں نے اسے وفا اور پاکستان کا سبق پڑھایا تھا۔
وقت خود کو دہرا رہا تھا سوال دوبارہ ہونے لگے تھے اور اسےتفصیلاً جواب دینا تھا۔ اپنے بیٹے کو بھی وہی سبق پڑھانا تھا جو اس نے تمام عمر پڑھا تھا اسے اب ناصرف اپنے وطن کو نئے گھونسوں بچانا تھا بلکہ وطن کا ایک بہترین محافظ تیار کرنا تھا جو اس کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی اور ہاتھ کو بھی توڑ کررکھ دے!
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.