ذیشان اپنے آنگن میں لگے امرود کے پیڑپر بیٹھا ہوا امرود کھانے میں مصروف تھا اس کے گرد آلود بال بڑھ کر کانوں کو چھو رہے تھے ۔گلے کے بٹن کھلے ہوئے تھے ۔اس نےاپنا امرود منہ میں ڈالا۔ایک اور امرود توڑ کر اپنی چھوٹی بہن ایمن کو مارا جو”بندرقلعہ” کھیل رہی تھی ۔
اتنے میں ذیشان کی امی نے آواز لگائی” ذیشان سپارے کا وقت ہو گیا ہے جلدی درخت سے اترواور مسجد کو جاؤ”
ذیشان بڑی تابعداری کے ساتھ “جی امی” کہتے ہوئے پیڑ سے نیچے اتر آیا ہاتھ منہ دھویا کنگھی کی اورمسجد کی طرف روانہ ہو گیا ۔
رستے میں ایک حویلی نما گھر کا بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا ۔اس کی نگاہ اپنے قاری صاحب پر پڑی جو یہاں “ختم شریف” پڑھنے آئے تھے ۔صحن سے چاول کی دیگوں کی بھینی بھینی خوشبو بھی آ رہی تھی ۔لمحہ بھر کووہ منہ کھولے سارے منظر کو دیکھتا رہا پھر مسجد کو چل دیا۔
مسجد پہنچ کر اپنے ہم سبق ساتھیوں کو کہنے لگا ۔حویلی میں” ختم شریف” ہےاور چاول بھی وہاں تقسیم ہو رہے ہیں ۔قاری صاحب بھی وہیں ہیں ۔ہم نےبھی آج وہیں جانا ہے۔ساتھ والی کلاس کے قاری صاحب بھی اتفاقاً مسجد کے دوسرے حصے میں تھے۔اب بچوں نے آئو دیکھا نہ تاؤ دوسری کلاس کو بھی ساتھ لگایا اور حویلی کا رخ کیا ۔35,40بچوں کو اپنے سامنے دیکھ کر قاری صاحب تو حواس باختہ ہو گئے ۔قاری صاحب نے سب بچوں کی خوب درگت بنائی ۔اب ذیشان کے ہم مکتبوں کا حال تھا کہ “سر منڈواتے ہی اولے پڑے”
سب بچوں کو قاری صاحب نے سخت سزادی ۔کہ آئندہ کے لیے نصیحت ہو۔مگرذیشان تو ابھی بھی سزا سے بے نیاز تھا جیسے کہہ رہا ہو کہ “لگا تو تیر’نہیں تو تکا”
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.