از؛ حفصہ محمد فیصل
”سنیے !مہینے کا آخر ہے ، کچھ رقم ہو تو دے دیجیے۔“ سمیہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔
”آخر تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے، میں کوئی نوٹ چھاپنے کی مشین ہوں؟“ ماجد کو تو جیسے موقع چاہیے تھا چلانے کا۔۔
اور پھر وہ دروازہ پٹخ کر باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔
امی! آپ رو کیوں رہی ہیں؟ بارہ سالہ معیز نے ماں سے سوال کیا۔
”بس ! اب میں نہیں رہ سکتی یہاں ،نا کوئی عزت نفس ہے یہاں ،نا قدر۔۔۔“
سمیہ بیگ میں سامان لے کر گھر سے جانے لگی کہ اتنے میں ماجد گھر میں داخل ہوا۔
”کہاں جارہی ہو؟“
”اتنے بھی بھولے مت بنو۔۔ ہر وقت مجھ پر چلاتے ہو، لیکن اب بہت ہوگیا ، میں یہ گھر چھوڑ کر جارہی ہوں۔“
”امی پلیز مت جائیں۔۔“معیز سمیہ سے لپٹ گیا۔
”ہاں ہاں! جاؤ،شوق سے جاؤ ۔۔۔“ماجد نے لڑائی کو اور ہوا دی۔“
”ابو ایسا مت کہیں ، امی کو روک لیں۔۔ میں امی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔“ معیز گڑگڑایا۔
لیکن ماجد نے منہ پھیر لیا۔
سمیہ چلی گئی۔
اور معیز روتا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔
”ارے معیز! یہ شکل پہ بارہ کیوں بج رہے ہیں؟“ احسن بھائی نے مکاری سے پوچھا۔
”وہ احسن بھائی امی چلی گئیں ،ابو نے انہیں روکا بھی نہیں۔۔“معیز کی ہچکی بندھ جاتی ہے۔
”ہمممم ، پریشان مت ہو،آجائیں گی تمہاری امی ،یہ وقتی لڑائی ہوتی ہے امی ابو کی۔
چلو آؤ! تمہیں پارٹی کرواتے ہیں،
تاکہ تمہارا موڈ اچھا ہوسکے۔“
۔۔۔۔۔
”احسن بھائی! یہ ہم کہاں آگئے ہیں؟
یہاں تو عجیب بو آرہی ہے۔۔“ معیز ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولتا ہے۔
”ارے کچھ نہیں! یہاں سب اپنے دکھ بھول کر خوابوں کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔“
آؤ! تمہیں بھی خواب نگری میں لے چلتے ہیں۔احسن بھائی نے ہنستے ہوئے کہا اور ایک کش لے کر سگریٹ معیز کے ہاتھ میں پکڑا دی۔
……..
نتیجہ: والدین کی لڑائی میں اکثر بچے بھٹک جاتے ہیں اور ان کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
افسوس!جب خبر ہوتی ہے تب پانی سر سے اوپر جاچکا ہوتا ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.