تبصرہ  نگار : نصرت نسیم  ( کوہاٹ ، پاکستان)
“ہمیں تو ساتھ چلنا تھا، ہمیں وعدہ نبھانا تھا”
بہت سے ایسی شخصیات رہی ہیں جنہوں نے میدان حرب کے ساتھ ساتھ علم وادب کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑے اور کامیابی کے پھریرے لہرائے۔ان میں سب سے اہم نام تو کرنل شفیق الرحمان کا ہے۔جن کی کتابوں نے ہمارے لڑکپن اور جوانی کو پرمسرت بنانے رکھا۔حماقتیں، مزید حماقتیں،شگوفے اور کیسے کیسے افسانے اور سفرنامے جنہوں نے بے پایاں مسرتیں بخشیں اور لبوں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔پھر کرنل محمد خان کی بجنگ آمد بھی برجستگی شگفتگی اور بے ساختگی لئے ہوے وہ کتاب تھی۔جسے بےپناہ شہرت ملی۔بعد ازاں کرنل اشفاق کی بھی فوجی زندگی پر کئی کتب نظر آئیں اور
 آج میرے سامنے جوکتاب ہے وہ بھی ایک سابق فوجی میجر سہیل پرواز کی تصنیف ہے۔اس فرق کے ساتھ کہ مندرجہ بالا نام طنز ومزاح کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ سہیل پرواز مزاح نگاری میں کیا جھنڈے گاڑتے ہیں یہ تو ان کی زیر طبع کتاب “اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے” پڑھ کر ہی پتہ چلے گا تاھم زیر تبصرہ کتاب “تنہا کر گئ مجھ کو” اپنے عنوان اور سرورق کی تصویر کے ساتھ المیہ کی خبر دیتے ہیں۔انتساب اور پہلا باب ہی حزن وملال کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔
سہیل پرواز سے جب انکے  نام آغا جی کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ ان کے آباواجداد دوسو سال پہلے افغانستان سے ہجرت کرکے مردان کے قریب کاٹلنگ میں  آباد ہوئے۔اچھا یہ وجہ ہے کیونکہ کے پی میں اکثر چچا، تایا یا بزرگوں کو آغاجی، خان جی،وغیرہ ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
آغاجی کے والد الطاف پرواز شاعر، ادیب اورمشہور صحافی تھے۔قتیل شفائی اور دیگر شعرا و ادباء کو انہوں نے اپنے گھر میں بہت قریب سے دیکھا اور فیضیاب ہوئے۔کوئٹہ تبادلہ ہوا تو وہاں بھی عطا شاد اور دیگر نامور شعرا سے والد کے حوالے سے تعلق رہا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک وقت آیا کہ انہوں نے قلم اٹھایا اور کالم لکھنے لگے۔ ایک عشرہ تک انکا کالم “پانچواں کالم” مختلف روزناموں کی زینت بنا اور شہرت پائی. مثل مشہور ہے کہ بطخ کے بچے کو تیرنا کون سکھائے۔تو گھر کی تعلیم وتربیت اور ادبی محفلوں نے رنگ دکھایا اور وہ باقاعدگی سے لکھنے لگے۔
سہیل پرواز کی بحیثیت عسکری رائٹر ایک اور انفرادیت ہے اور وہ یہ کہ افواج پاکستان نے پچھتر برس میں مزاح نگار، شاعر تو بہت پیدا کئے لیکن ناول نگار سہیل پرواز سے قبل کوئی نہیں تھا.
وہ تنہا کر گئ مجھ کو “ان کی دوسری تصنیف ہے جبکہ ناول” ڈھاکہ میں آؤں گا” تیسری کتاب ہے. زیر تبصرہ کتاب میں انہوں نے اپنی محبوب رفیقہ حیات کی زندگی اور بچھڑنے کے غم کو الفاظ میں ڈھالا ہے۔
اردو شاعری اور شعرا کے ہاں یہ روایت میرو غالب سے لے کر موجودہ دور تک کے شعرا کے ہاں پائی جاتی ہے کہ بیوی کی بجائے محبوبہ کی تعریف میں رطب اللسان دکھائی دیتے ہیں۔اس کی تعریف میں قصیدے لکھتے ہیں۔جبکہ بیوی اکثر نظر التفات سے محروم ہوتی ہے۔
محترم سہیل پرواز صاحب نے اس روایت کے برعکس بیوی سے نہ صرف ٹوٹ کر محبت کی ہے۔بلکہ اس کے گزر جانے کے بعد اس کی محبت، یادوں اور اس کی شخصیت کے خاکے میں والہانہ محبت عزت واحترام کے وہ رنگ بھرے ہیں کہ اسے امر کردیا ہے۔
یہ اتفاق ہے کہ اس سے پہلے جناب جبار مرزا نے اپنی محبوب بیوی کی جدائی میں” جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں “لکھی۔جبار مرزا صاحب بھی ادیب، شاعر اور سینئر صحافی ہیں۔ان کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے لکھا کہ آپ نے تو لفظوں سے محبت کا  تاج محل تعمیر کر ڈالا۔
آغاجی کا خاندانی پیشہ صحافت ہے۔آپ ادیب، کالم نگار اور ڈرامہ نگار ہیں۔اور آج ان کی کتاب تنہا کر گی مجھ کو میرے سامنے ہے اور بیوی کی محبت میں لکھی گئی پیار کی روشنائی سے رقم کردہ یہ دوسری کتاب ہے۔جس پر میں اپنے احساسات اور ان جذبات کا اظہار کر رہی ہوں۔جو میں نے محسوس کئے۔یہ کتاب آپ بیتی بھی ہے جگ بیتی بھی
اور اپنے عہد کی زریں روایات واقدار کی عکاس بھی۔ان روایات اوراقدار کی جو کافی حد تک  مٹ گئیں۔زمانے نے اس تیزی سے زقند بھری کہ اپنی ہی یادیں اور باتیں ایک کہانی سی لگتی ہیں۔
نائن الیون کاپہلا باب ہی شدید غم سے دوچار کر دیتا ہے۔شروع کے دوباب چھڑا کے ہاتھ دوپل میں اور میرا نائن الیون پڑھ کر  بندہ غم کی اتھاہ گہرائی میں اتر جاتا ہے ۔ غم کی اس کیفیت سے اگلے ابواب بڑی خوبصورتی سے نکال کر اس دور میں لے جاتے ہیں۔جہاں نانی، خالہ اور ان سےجڑے رشتے ناتے ہیں۔نانی اماں کی کہانیاں ہیں۔اور رخسانہ کانام سنتے ہی دل دے بیٹھنے کی داستان اور رخسانہ کو پانے کی لگن ہے۔تو دوسری طرف دبنگ ماں ہے۔جس کے سامنے دل کی بات کہنے کی ہمت نہیں۔بارعب باپ ہے جو فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے کی خواہش پر بڑے آرام سے کہتا ہے۔چلے جاو،مگر پھر یہ دروازہ اندر سے نہیں کھلے گا۔اور آغا جی جو فلموں میں کام کرنے کے لئےپر تول رہے تھے۔ادھر ہی ان کے پر کٹ جاتے ہیں اور سارا شوق جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔والدین کااحترام اور رعب ودبدبہ ہماری نسل کے لوگوں کا وطیرہ تھا۔
دو کمروں کے گھر میں زیادہ مہمانوں کے آجانے پربھی پریشانی نہیں ہوتی۔ایک خوشی کا سماں ہے۔آج بڑے بڑے گھروں میں کسی مہمان کوٹہرانا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔یہ سارا دور انہوں نے اس خوبی سے قلم بند کیا ہے کہ میں خود ماضی کی بھول بھلیوں میں کھوسی گئی۔کم وبیش ہمارا بھی یہی دور ہے۔یہی روایات واقدار ہیں۔فون انٹر نیٹ کا دور دور تک نام ونشان نہیں۔خط اور اس سے جڑی رومانیت کا دور ہے۔رخسانہ کو حاصل کرنے کے یہ چند ابواب اس قدر دل چسپ ہیں۔ مصنف نے اپنے جذبات واحساسات کو بیان کرتے ہوئے جزئیات نگاری سے کام لیا ہے۔اس خوبی سے کہ قاری کادل بھی ساتھ ساتھ دھڑکتا ہے۔اور وہ ان کے ساتھ نعرہ مستانہ لگاتا ہے۔رخسانہ میں آرہا ہوں۔
رخسانہ کو پالینے کے بعد کے ابواب بہت شائستگی اور وقار کے ساتھ لکھے گئے۔محبت کے شدید اظہار کے باوجود ان کا قلم کہیں نہیں بہکتا۔
613 فورتھ ایونیو منگلا میں شادی کے بعد یادگار وقت گزرا۔رخسانہ کو کھانا بنانا نہیں آتا۔مگر بہت جلد وہ بہت اچھا کھانا بنانا سیکھ جاتی ہے۔اور خود کو بہت اچھی بیوی  بہو اور منتظم ثابت کرتی ہے۔مگر ٹہرئیے کتنی عورتیں ہیں۔جو ان سب خوبیوں سے متصف ہیں۔مگر انہیں جواباً تعریف کا ایک جملہ نصیب نہیں ہوتا۔سہیل پرواز صاحب نے رخسانہ کی تصویر میں محبت، چاہت ،عقیدت اور ستائش کے سارے رنگوں کی آمیزش سے دلربا پورٹریٹ تخلیق کیا ہے۔جو ان کی شخصی خوبیوں کوبھی ظاہر کرتا ہے۔کتاب میں فوجی زندگی کی بھی بھرپور جھلکیاں ملتی ہیں۔تبادلے، لیفٹین سے میجر بننے تک کے قصے
منگلا، مری اور کوئٹہ کے پرفضا اور حسین مقامات کا حسین دور اور پرلطف بیان اور اس پر ان کی مہمان نوازی کہ جہاں جاتے ہیں۔رشتے داروں کو دعوت دے کر بلاتے ہیں۔رخسانہ فوج کے حلقے میں بھی ہر دل عزیز ہے۔کہ وہ اپنے جونیئر کی دعوتیں کرتی ہے۔مہمان نوازی، فراخدلی، رکھ رکھاو اور ان راویات پر عمل پیرا ہونا جو ان کو اپنے والدین کی طرف سے ملیں۔قاری کو متاثر کرتی ہیں۔اور نئے جوڑوں کے سیکھنے کے لئے اس میں بہت کچھ ہے۔
ایک اور وصف جو محترم جبار مرزا صاحب کی کتاب میں بھی ہے۔کہ تیسری بیٹی کی پیدائش پر نرس کو خوشی سے 500 روپے پکڑاتے ہیں۔اور آغاجی کے ہاں بھی کہ بیٹی کی خواہش اور اس کی پیدائش پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور جب مٹھائی بانٹتے ہیں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا بیٹا ہوا ہے۔
منٹو نے کیا خوب کہا تھا کہ بیٹی کاپہلا حق جو ہم کھا جاتے ہیں۔وہ اس کی پیدائش کی خوشی ہے۔ میرے دونوں ممدوحین کے ہاں بیوی کی عزت واحترام ،اور احترام نسواں کا شدید اظہار قدر مشترک ہے۔قدر مشترک تو وہ قلم یاجسے موءقلم کہیں کہ محبت وعقیدت کے وہ رنگ بھرے کہ ایک لازوال تصویر بنا ڈالی۔ملاحظہ کیجئے ۔
میرے مالک نے میرا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے فرشتہ عطا کیا تھا۔
رخسانہ ذاتی حوالے سے نہایت مطمن، قناعت پسند اور درویشانہ طبیعت کی مالک تھی۔قبل از وقت فوج سے ریٹائرمنٹ لینے کے، کاروبار میں خسارا اٹھانے کے بعد سہیل پرواز نے ادب وصحافت کے افق کی طرف اڑان بھری جو ان کا خاندانی پیشہ تھا۔بچپن اورلڑکپن میں اپنے گھر احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی ،حفیظ جالندھری، زیڈ اے بخاری، شہزاد احمد، خاطرغزنوی، باقی صدیقی، صدیق سالک، ضمیرجعفری اور قدرت اللہ شہاب جیسی قد آور شخصیات سے ملنے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں سوادب وصحافت کی دنیا میں کامیاب رہے۔
کتاب کے آخری چند ابواب غم واندوہ سے بھرپور ہیں ۔ایسے لگا۔جیسے کوئی بھونچال آگیا ہے۔یا تیز آندھیوں اور بگولوں کی لپیٹ میں یہ پیار بھرا آشیانہ آگیا ہے۔پے در پے اموات کاسلسلہ، جوان بیٹی کا بیوہ ہوجانا اور پھر کینسر جیسے موزی مرض کا انکشاف، کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی جیسے تکلیف دہ علاج اور مراحل پڑھنے والےکو غمزدہ ودلگرفتہ کر دیتے ہیں۔وقت رخصت کا بیان بھی ایسا درد ناک کہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔کتاب ختم کرکے گھنٹوں میں غم کی ناقابل بیان کیفیت میں رہی۔
غم اوراداسی نے تادیر مجھے اپنے حصار میں رکھا۔اور میں نے دعا کی کہ یا اللہ پھر مجھے جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں “اور جو تنہا کر گئ مجھ کو “جیسی کوئی کتاب پڑھ کر تبصرہ نہ کرنا پڑے  کہ تبصرہ کرتے ہوئے باردگر کتاب دیکھتی ہوں اور لکھتے ہوئے پھر حزن وملال کی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔یہ دونوں کتابیں دو مختلف شخصیتوں نےمختلف اوقات میں لکھیں ۔مگر  دونوں میں حیرت انگیز طور پر چند ممثالتیں پائی جاتی ہیں۔جن میں سے ایک دو کاذکر پہلے کرچکی ہوں۔
 دونوں لکھاریوں نے رانی اور رخسانہ کو بڑی چاہت اور تگ ودو کے بعد حاصل کیا۔اور شادی کے بعد محبت کا رنگ مزید گہرا ہوتا گیا۔دونوں کتابوں میں بیٹی کی قدر ومنزلت اور عورت کے تقدس اور احترام کے قابل رشک جذبات دکھائی دیتے ہیں۔تعریف وتوصیف کے معاملے میں وہ سخاوت ہے۔جس سے بیشتر شوہر حضرات تہی دست نظر آتے ہیں۔
رانی بی بی اور رخسانہ سہیل حسن صورت کے علاوہ حسن سیرت سے بھی مالا مال ہیں۔تو محترم جبار مرزا صاحب اور محترم آغاجی نے بھی عقیدت ومحبت کے گوہر آبدار لٹائے ہیں۔اور دونوں خواتین کی دھنک رنگ شخصیتوں میں ایسے سندر اور  دل نشیں رنگ بھرے ہیں کہ پڑھنے والے کو بھی پیار آجائے۔
بچھڑنے کی ازیت کو دونوں شعرا نے نظموں میں ڈھالا ہے اور ان نظموں کے مصرع ثانی کو کتاب کا عنوان بنایا ہے۔
مثلا”جبار مرزا صاحب کا شعر جو رانی کے لوح مزار پربھی کندہ ہے
جو ذہن سے اترا نہیں وہ تو ہے وہ توہے
جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں وہ میں ہوں
آغاجی لکھتے ہیں۔
فسردہ کرگئ مجھ کو  شکستہ کر گئ مجھ کو
کہ جس نے ساتھ دینا تھا وہ تنہا کر گئ مجھ کو
اس کتاب کے آخری صفحے پر لکھتے ہیں۔
زندگی کے بارے میں میرا فلسفہ ہے”۔جب تک آپ زندہ ہیں۔آپ مقابلے میں ہیں۔اور جب تک مقابلہ جاری ہے۔امید بھی باقی رہنی چاہیے “
اتنے بڑے غم کو دونوں نے اپنی طاقت بنایا ہے۔اور مستقل تصنیف وتالیف میں مصروف ہیں۔محترم جبار مرزا صاحب نے جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں کے چار ایڈیشن چھپوا کر اس کے بعد دو نئی کتابیں شائع کروائی ہیں۔جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں یہ بات آغاجی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ان کی چوتھی کتاب زیر طبع ہے۔
یہ دونوں کتابیں نئی نسل کے لئے راہ نما ہیں کہ محبت اور رشتوں کو کیسے نبھایا جاتا ہے۔یہ کتابیں نئے جوڑوں کو اور پرانوں کو بھی ضرور پڑھنی چاہیے۔ اس آئینے میں خود کو دیکھیں اور پرکھیں۔
سلامت رہیں قلم بدست رہیں
اپنے اللہ سے شکوے کا محل ہوتو کروں.
غم دیے، ساتھ ہی غم سہنے کی راحت دے دی۔رہے نام اللہ کا.


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

One Response

  1. میرے خیال میں کتاب تو میرے احساسات کا مجموعہ تھی اور جو بھی ایسے لمحات سے گذرا ہو وہ یہی کچھ لکھے گا لیکن میری تحریر پر اتنا مدلل اور بھرپور تبصرہ اسطرح کرنا کہ پڑھنے والے کو کتاب پڑھنے کی.
    تشنگی کا احساس ہو صرف نصرت نَیم ہی کا کمال ہے
    خود میرا یہ دل تبصرہ پڑھ کر چاہا کہ کتاب بطور قاری پڑھوں. میں اس خوبصورت اور جاندار تبصرے کیلئے نصرت کا ممنون ہوں.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content