Afshan Noor, writer, Trainer, Okara (Pakistan)تحریر: افشاں نور
تخیل ایک ایسی انجانی قوت ہے کہ انسان کو زمان و مکاں سے پرے، دور کہیں لے جاتی ہے۔ کبھی حقیقت کو وہم اور کبھی وہم کو حقیقت بنا کر پیش کرتی ہے۔ اگر یہ تخیل نہ ہوتا تو انسان کے لیے وقت اور حالات وہ بارِ گراں ہوتے کہ سانس لینا دو بھر ہوجاتا۔ حقیقت کی تلخیوں میں تخیل وہ فرحت بخش احساس ہے جو زندگی کو جینے کا ہنر سکھاتا ہے۔ میرے لیے تخیل ایک بیش بہا خزانہ ہے جس کے ہوتے دل اور روح کبھی نہیں مرجھا سکتے۔ طلوعِ آفتاب سے ہی میرا تخیل مجھے اپنے پروں میں چھپائے دور کہیں ان دیکھی دنیاؤں میں لے جاتا ہے اور مجھ پہ نئے نئے راز منکشف کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک روز میرا تخیل مجھے صحراؤں میں لیے لیے پھرا اور میں صحرا کی وسعتوں میں اپنے وجود کی تلاش میں سرکرداں ہانپ سی گئی۔ پھر دفعتاً میرے اندر سے آواز آئی کہ میں تو صحرا کے بے شمار ٹیلوں پہ اربوں کھربوں ریت کے ذروں میں سے ایک ذرہ ہوں۔ یکایک میرا تخیل تیز ہوا کا جھونکا بن کر مجھے اڑا لے گیا اور اب کے میں نے خود کو کسی گلستان میں پایا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں تپتی دھوپ میں مسافروں کے پیروں کو جھلسا دینے والی ریت کا ذرہ نہیں میں تو مٹی کی زرخیزی ہوں جو آن کی آن میں رنگا رنگ پھول کھلا دیتی ہے جن سے دل و دماغ معطر ہو جاتے ہیں۔ میں ننھے پھولوں کی کونپلوں کو ایک سرشاری کے عالم میں تکنے لگی ایسے میں میرا تخیل خوشبوؤں کی ردا اوڑھے میرے گرد منڈلانے لگا اور میں اس خوشبو کے جھونکے کے سنگ بادلوں سے اٹکھیلیاں کرنے جا پہنچی۔ وہاں مجھے یہ لگا کہ میں مٹی کی زرخیزی نہیں میں تو بارش کا پہلا قطرہ ہوں جو مٹی کو سیراب کر کے زرخیز بناتا ہے۔ جب تخیل برسات بن کر میرے ساتھ بہنے لگتا ہے تو لگتا ہے میں ٹھنڈا میٹھا جھرنا ہوں جو زندگی کو جِلا بخشتا ہے، سفر سے تھکے ہاروں کی پیاس بجھاتا ہے۔ یہ جھرنا بہتے بہتے ندی نالوں اور ٹھاٹھیں مارتے دریا میں آگرتا ہے۔ ایسے میں دریا کے کنارے تیز چلچلاتی دھوپ میں میں نے کسی کو جھلستے دیکھا تو بے چین ہوگئی۔ میں نے اس سے پوچھا “اے اجنبی تم اس تپتی دھوپ میں کیوں بھٹک رہے ہو؟ کیا شے ہے جو تمہیں بے قرار رکھے ہوئے ہے؟” یک لخت وہ اجنبی مڑا تو میں ٹھٹھک سی گئی۔ وہ اجنبی بہت شناسا دکھتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک نظر آتی تھی اور اس نے ایک مبہم سی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے میری طرف قدم بڑھائے۔
“میں۔۔۔
میں تمہاری تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں۔ مجھے اس دھوپ نے نہیں تمہاری جدائی نے جھلسا دیا ہے۔ تمہارے فراق سے میں تھک سا گیا ہوں۔” وہ نڈھال سا دکھائی دے رہا تھا۔
میں نے اسے غور سے دیکھا۔ اس بار شناسائی کا احساس پہلے سے بڑھ کے تھا۔
” سنو تم نہیں ہوتی تو میں بے جان سا ہوجاتا ہوں، میری سانس تھم سی جاتی ہے۔ تمہارے بغیر زندگی کا احساس کہیں نہیں” وہ شدّتِ جذبات سے پگھلا جا رہا تھا۔
ابھی میں اسے کوئی جواب نہ دے پائی تھی کہ اچانک مجھے لگا کسی نے میرا ہاتھ تھام لیا ہے۔ میں نے حیرت سے مڑ کر پیچھے دیکھا اور اسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگی۔
” میں تمہارا وجود ہوں اور تم میری روح، بھلا روح کے بغیر وجود کس کام کا۔ سچ کہتا ہوں میں تمہارے بغیر ادھورا ہوں اور صدیوں سے تمہاری تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں” وہ شناسا اجنبی پھر بولنے لگا۔
میرے ہاتھ پر اس دوسرے کی گرفت اور مضبوط ہو گئی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا اور وہ مسکرا دیا۔ ” جانتی نہیں میں کون ہوں؟ میں تمہارے ہونے کا احساس ہوں۔ میں تمہاری ذات کی گواہی ہوں۔ میں لمحہ ہوں، میں جذبہ ہوں۔ میں وہ ہوں جو صدیوں پہ محیط وقت کا سینہ چیر کر مکہ کی وادیوں میں جا پہنچتا ہے جہاں عشق بے تاب ہو کر احد احد پکارتا ہے۔ اُحد کے میدان میں تلواروں کی جھنکار سنتا ہوں اور پھر ایک رُخِ مہتاب پر کئی ستاروں کو قربان ہوتے دیکھتا ہوں۔اور ان قربان ہوتے ستاروں کی تابناکی سے اس جہانِ تاریک کو نئے سرے سے روشن ہوتے دیکھتا ہوں۔ میں وہ ہوں جو وقت کے اس پار عشق کی فسوں کاریاں دیکھتا ہوں تو دم بخود رہ جاتا ہوں۔ ایک طرف آتشِ نمرود کی تپش سے میں جھلس جھلس جاتا ہوں تو دوسری طرف اندھے کنویں کو حسنِ یوسف سے روشن ہوتے پاتا ہوں۔”
“تم۔۔۔تم کیسے بھول گئی خدا نے تمہیں میرے ہی لیے دنیا میں بھیجا تھا۔ تم اور میں۔۔۔میں اور تم لازم و ملزوم ہیں” اجنبی بہت بے قرار تھا۔ میں نے پلٹ کر اسے دیکھا اتنے میں وہ دوسرا ایک بار پھر گویا ہوا۔
“سمے سے پرے کوئی تم نہیں کوئی میں نہیں بس صدیوں پہ محیط وقت ہے جس کا کوئی انت نہیں۔ آؤ میں تمہیں وہاں لے چلوں جہاں لمحے صدیوں میں اور کئی کئی صدیاں ایک لمحے میں گزرتی ہیں۔ میرے لیے زمان و مکاں کی کوئی قید نہیں۔ میں چاہوں تو تپتے صحرا کو بھی گل و گلزار بنا دوں اور چاہوں تو سمندر کو صحرا کر دوں۔”
اجنبی تڑپ کر ایک قدم آگے بڑھا۔
” یہ روشنی، یہ چاشنی، یہ رونقیں میرے دم سے ہی تو ہیں۔ میرے ہونے سے ہی تو تم یہ سب دیکھ پاتی ہو۔ میں نہ ہوں تو دنیا بے معنی ہو جائے۔ یہ عالمِ رنگ و بو سب بے مطلب ہوجائے۔”
اس دوسرے نے میرے ہاتھ کو ذرا سا جھٹکا۔
” میں تمہارا تخیل ہوں۔ تم جب اداس ہوتی ہو تو میں وقت کی چلمن کو سرکا کر تمہارے لیے مسکراہٹ کا سامان کرتا ہوں۔ جب تم ہجر میں تڑپتی ہو تو میں تمہارا محبوب بن کر تمہاری پیاسی آنکھوں کو سیراب کرتا ہوں۔ تمہاری صحرا ہوتی آنکھوں میں جل تھل کر کے امید کے خوشنما پھول کھلاتا ہوں۔میں تمہاری بقا ہوں۔”
میں نے دیکھا اجنبی کی آنکھیں اب پر نم تھیں اور وہ ہولے ہولے سسک رہا تھا۔
“تم نہ لوٹیں تو میں فنا ہو جاؤں گا۔”
میں نے اپنے تخیل سے ہاتھ چھڑایا۔
“میں تمہاری بقا ہوں۔” اس نے اپنی بات کو دہرایا
“اور بقا کا راستہ فنا سے ہو کر گزرتا ہے”
میرے بڑھتے قدم منجمند سے ہوگئے اور یوں محسوس ہوا گویا۔ میرے اور اجنبی کے بیچ صدیوں کا فاصلہ حائل ہو گیا ہو۔ نجانے کتنے لمحے اس کشمکش میں گزر گئے۔ میرے ایک طرف وجود تھا تو دوسری طرف تخیل۔ مجھے تھکان سی ہونے لگی۔ کئی لمحوں کی کشمکش کے بعد آخر فیصلہ ہو ہی گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر اجنبی کا ہاتھ تھاما اور اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ وہ ایک پل میں کھِل سا گیا۔ اس نے سرشاری میں آنکھیں بند کیں اور میں نے خود کو کچھ کہتے ہوئے پایا۔۔۔
یکایک اجنبی ڈھے سا گیا۔ تب میرے الفاظ میرے کانوں میں گونجے
“بقا کا راستہ فنا سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔” تخیل نے آگے بڑھ کر ایک مرتبہ پھر میرا ہاتھ تھاما اور میں نے فنا ہو کر امر ہو جانے کا راز پا لیا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.