

===================

تحریر : عافیہ بزمی لاہور بک فئیر میں کتاب میلے کا احوال
**میں جو محسوس کرتا ہوں وہ کہہ دیتا ہوں بزمیؔ*
*مرے بیباک اندازِ بیاں کو کون روکے گا*
میں جو کہوں گی سچ کہوں گی مائی لارڈ کہ سچ کے سوا کچھ نا کہوں گی۔
پھولوں سے لکھوں یا ہاتھوں سے لکھوں، دل سے لکھوں یا ہونٹوں کی زبان سے لکھوں
دل چاہتا ہے بس لکھوں اور لکھوں بھی کچھ ایسا کہ امر ہو جاۓ ۔
ہاۓ دلِ ناداں تو نے کیا کیا خواہشیں پال رکھی ہیں۔
چونکہ میری ابھی تک کی تینوں کتابیں پریس فار پیس پبلی کیشنز سے شائع ہوئی ہیں اور میں نے اپنے والد محترم کی بھی دو کتابیں یہیں سے شائع کروائی ہیں اور مزید کتابوں پر بھی انھی کے ساتھ کام جاری ہے کیونکہ ہم مخلص لوگ ہیں صاحب! تعلق بناتے ہیں تو تعلق نبھاتے بھی ہیں۔ کیا کریں خالص پنجابی لاہورئیے جو ٹھہرے۔ تو وہ جو کہتے ہیں نا کہ *لائیے تے توڑ نبھائیے* والی بات شاید ہم جیسے لوگوں کے لئے ہی کہی گئی ہے۔ اب اس بات کی آپ تائید کریں یا تردید، یہ آپ کی مرضی۔ ہمیں تائید یا تردید سے فرق نہیں پڑتا کہ ہم تو من موجی ہیں صاحب! جو دل نے کہا کر گزرے۔ لو اب اس میں مسکرانے والی کیا بات ہوئی بھلا۔ سچ ہی تو کہا ہم نے کہ ہم اپنے حال میں مست ملنگ لوگ ہیں۔
جی تو سب سے پہلے ذکر اس رات کا جس کی اگلی سویر سجنے والا تھا ہمارے شہر لاہور میں بین الاقوامی کتاب میلہ (اب یہ کتنا بین الاقوامی ہے، یہ یہاں آنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، ارے ہم نے تو کچھ بھی نہیں کہا صاحب! ہم تو خاموش ہیں)
جی تو ہم ذکر کر رہے تھے اس رات کا جس میں کتاب میلے کے لیے سٹالز پر کتابیں سجانے کا مرحلہ جاری تھا۔ چونکہ ایکسپو سینٹر گھر سے دس منٹ کی ڈرائیو پر ہے تو سوچا چلو ایک چکر لگا کر دیکھیں کہ اندر کیا کیا تیاریاں چل رہی ہیں اور ویسے بھی دل میں کھد بدھ تھی کہ اپنی نئی آنے والی کتاب ( گلاب چہرے ) تو دیکھوں چل کر کیونکہ یہ کتاب دو دن پہلے ہی شائع ہوئی تھی اور مجھے یہیں آ کر دیکھنی تھی۔ سو میاں جی کو کہا کہ ذرا ایکسپو سینٹر تک ایک چنا منا سا چکر تو لگوا دیں جس کے جواب میں انھوں نے مجھے ہری جھنڈی دکھائی اور کہا کہ بیٹے کو لے جاؤ۔
حیرت تو ہوئی کہ یہ میرے ایسے کاموں میں انکار تو نہیں کرتے لیکن پھر خود ہی دل کو تسلی دی کہ کوئی نہیں! ابھی تو تھکے ہارے آفس سے آئے ہیں۔ کوئی نہیں! بیٹے کو لے جاتے ہیں ۔ میاں صاحب پر نہیں پر بیٹے پر تو رعب ہے نا آخر ہمارا، اسے تو ہم حکم بھی دے سکتے ہیں۔
خیر بیٹے کو لالچ دیا کہ چل میرا پتر واپسی پر کچھ کھاتے پیتے آئیں گے ہم دونوں ماں بیٹا! اللہ سلامت رکھے اسے، نا صرف مجھے لے کر گیا بلکہ پورا گھنٹہ باہر گاڑی میں بیٹھا انتظار بھی کرتا رہا۔
خیر ہال کے اندر گئے۔ پریس فار پیس کا سٹال ڈھونڈا۔ ذاتی طور پر مجھے پریس کا سب سے بڑا کارنامہ فلک ناز نور کو اپنی ٹیم کا ہیڈ بنانا لگتا ہے۔ بےشک بہت پیاری اور صبر و تحمل والی خاتون ہیں۔ جس طرح وہ سب کے مزاج اور موڈ کے مطابق چلتی ہیں وہ واقعی قابل داد ہے۔ اتنی برداشت اور حوصلہ سب کے بس کی بات نہیں۔
فلک نے جب گرم گرم چاۓ کے کپ کی آفر دی تو ہم سے انکار نہ ہو پایا کہ ایک تو فلک کا خلوص دوسرے رات کے وقت موسم کی شدت دونوں ہی ایک پیالی چاۓ کے حق دار تو بنتے ہی تھے۔
والد صاحب کے ایوارڈز کی تقریب کے لئے بنوائی گئ سٹینڈی
فلک کے حوالے کی اور اپنی کتاب دکھانے کا کہا۔
(گلاب چہرے) میرے اپنے پیارے مرحومین پر لکھے مضامین کا وہ مجموعہ ہے جس میں مختلف اخبارات میں شائع شدہ مضامین اور کچھ نئے مضامین شامل ہیں۔
تقریباً ایک گھنٹہ وہاں رکنے کے بعد گھر کی راہ لی۔
اب آیا کتاب میلے کا پہلا دن تو مختلف سٹالز دیکھتے دیکھتے جب پریس فار پیس کے سٹال پر پہنچے تو وہاں پریس کی ٹیم کے علاوہ ہنستی مسکراتی شخصیت والی تسنیم جعفری کو بھی کھڑے پایا۔ گلے مل کر ایک دوسرے سے سلام دعا لی تو پیچھے شمیم عارف کو بیٹھے دیکھا۔ یہ شمیم عارف سے میری پہلی ملاقات تھی۔ جو بہت دلچسپ تھی کہ جتنا میں بولتی ہوں اگر اتنا ہی بولنے والا کوئی اور بھی آپ کو مل جائے تو دل کو اک سکون سا ملتا ہے کہ صاحب ہم اکیلے نہیں کوئی اور بھی ہم سا ہے جو باتوں سے پیٹ بھرنے کا ہنر جانتا ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال رہی۔ باتیں تو ایک طرف، خوب گپیں شپیں ماریں میں نے اور شمیم عارف نے….. کچھ اپنے دل کی کہی، کچھ ان کے دل کی سنی۔
مجموعی طور پر شمیم عارف سے ملاقات بہت دلچسپ رہی۔ کہیں سے بھی یہ پہلی ملاقات نہیں لگ رہی تھی لگ رہا تھا کہ جیسے
تیرا میرا برسوں کا ناتا ہے۔
ان کے ساتھ ہی شاعرہ عنبرین خان سے ملاقات ہوئی۔ وہ باتوں میں کہنے لگیں کہ مجھے تو بچپن میں ایک ہی شاعر پسند تھے اور وہ تھے خالد بزمی۔ ان کی یہ بات سن کر تسنیم جعفری صاحبہ نے مڑ کر کہا کہ عافیہ انھی کی بیٹی ہیں۔ انھوں نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا اور بچوں کے حوالے سے والد صاحب کی کئی نظمیں زبانی سنا ڈالیں اور کہا کہ دیکھیں مجھے یہ آج تک یاد ہیں۔ ایک بار پھر ولدیت میں لکھے نام پر فخر ہوا اور حیرت اس وقت ہوئی جب انھوں نے میری بڑی بہن کے بارے میں پوچھا اور بتایا کہ ان کی بڑی بہن اور میری بہن دونوں دوست اور کولیگز رہ چکی ہیں۔
دنیا گول ہے بھئی! ہاں جی بالکل گول! کہیں بھی ماضی کی یادیں اور لوگ آپ کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے۔
اسی دن دانش تسلیم نوجوان لکھاری سے ملاقات ہوئی تو اپنی اپنی کتاب پکڑ کر اس کے ساتھ تصویر بنا ڈالی۔
کتاب دوست، قابل احترام مکرم صاحب نے شاہد بخاری صاحب کا میرے لیے بھیجا ہوا (ادب لطیف) کا پرچہ دکھایا جس میں کچھ گزرے لوگوں کی تصاویر کے حوالے سے مکرم صاحب سے گفتگو ہوئی۔ کمال کے بندے ہیں مکرم صاحب! ایسے لوگوں کی قدر کیجیے صاحب! یہ نایاب لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن سے ملنے کو پھر ترستی ہیں اکھیاں
اللہ ان کو سلامت رکھے۔ آمین
اسی شام پریس کی طرف سے حاطب صاحب کے ساتھ شام منائی جا رہی تھی تو فلک ناز نور کے ساتھ میں، تسنیم جعفری اور عنبرین خان کانفرنس روم میں چلے گئے۔ چونکہ اب ادبی تقریبات اور مشاعروں وغیرہ میں کبھی کبھار جانا ہوتا رہتا ہے تو تقریب میں کچھ شناسا اور کچھ انجان چہرے نظر آئے۔ ابھی تقریب جاری تھی تو ہمیں اٹھ کر واپس گھر آنا پڑا۔ ایسی تقریبات کو ادھورا چھوڑ کر آنا، ادب کے ساتھ بڑی بے ادبی ہے اور یہ بے ادبی اکثر ہم سے سر زد ہو جاتی ہے ۔ کیا کریں ہم ذمہ داریوں میں بٹے ہوۓ لوگ جو ہوئے۔
دوسرے دن طبیعت کی خرابی نے گھر سے نکلنے نہ دیا۔
اگلے روز کتاب میلے کا تیسرا دن تھا۔ آج والد صاحب کے نام پر دیے جانے والے نعتیہ ایوارڈز کی تقریب بھی تھی۔ پریس نے اپنے رائٹرز کو انعامات بھی دینے تھے تو دو بجے میں ایکسپو سینٹر پہنچی۔ جمعہ کا دن تھا مجھے ٹمپریچر 102 ہو رہا تھا، گلا خرابی کے سگلنز دے چکا ہوا تھا، جسم کانپ رہا تھا، طبیعت خراب تھی لیکن تقریب والد صاحب کے حوالے سے تھی سو ہمت کرنی تھی۔ آج میرے کچھ اپنے بھی اس تقریب کا حصہ تھے۔ یہ تقریب کیسی رہی اس کا احوال پھر کبھی لکھیں گے۔
پریس فار پیس پہلے دن سے جس طرح قدم قدم پر ساتھ دے رہا تھا اس پر ہمیں بھی خوشی تھی اور خود پریس فار پیس کے لیے یہ اعزاز تھا کہ ان کے پلیٹ فارم سے ایک بڑی شخصیت ( خالد بزمی ) کے نام کے ایوارڈز کا اجراء کیا جا رہا تھا۔
رائٹرز کے لیے تحائف پریس کا خوبصورت عمل تھا۔ اس سے لکھنے والوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔
اسی دن قراہ العین عینی سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے میری کتاب کا جب دیباچہ لکھا تھا تو میں بھائی کے دنیا سے جانے کے صدمے سے دو چار تھی۔ تب میں نے ظفر صاحب سے کہا تھا کہ میری طرف سے اتنا اچھا دیباچہ لکھنے پر عینی کا خصوصی شکریہ ادا کیجیے گا۔
مجھے عینی کے نالج اور انداز نے بہت متاثر کیا۔ بلاشبہ ایسے لوگ ہی کچھ ایسا کر جائیں گے کہ آنے والے وقتوں میں یاد رکھے جائیں گے۔
آپا قانتہ رابعہ جن کا نام نوے کی دہائی سے سن رکھا تھا۔ جو گروپ میں اکثر مجھے میرے مرحومین کے جانے پر حوصلہ دیتی رہی ہیں۔ ان سے ملنے کا شوق کئی سالوں سے تھا۔ یوں قانتہ آپا سے ملاقات کو جھٹ سے آپا کی اجازت سے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔ اس بات کی خوشی ہوئی کہ پریس نے ایک بہت پیاری اور سینیئر شخصیت کی ادبی خدمات کے صلے میں ان کو لائف ٹائم ایچیومنٹ جیسے اعزاز سے نوازا۔ اس پر آپا کے ساتھ ساتھ پریس فار پیس بھی مبارکباد کا مستحق ہے۔
پریس فار پیس جیسے پیارے ادارے کا اصل حسن میرے نزدیک رائٹرز ہیں۔ اگر وہ اچھا اور معیاری لکھیں گے تبھی ادارہ اچھی کتابیں شائع کرے گا۔ میرے نزدیک یہ ادارہ سب کا ہے اور ادارے کے روحِ رواں سر ظفر نے بھی ہمیشہ یہی احساس دلایا کہ یہ آپ کا ادارہ ہے اور آپ بھی ادارے کے لیے اتنے ہی قیمتی ہیں جتنا آپ کے لیے ادارہ
اسی لیے تو ہم نے بھی اس ادارے کو ہمیشہ اپنا جانا اور ہزار جان پہچان کے باوجود کہیں اور جانے کا سوچا تک نہیں۔
*جنہیں میرے خلوص دل کا اندازہ ہے بزمی*
*وہ میری صاف گوئی پر کبھی برہم نہیں ہوتے*
نوجوان لکھاری احمد رضا انصاری اور سلیمان شکور سے ملاقات ہوئی۔
نائب امیر جماعت اسلامی جو کہ والد محترم کے شاگرد بھی رہے ہیں، انھیں دیکھا تو انھیں پریس کے سٹال کا وزٹ کروایا اور والد صاحب کی اور اپنی ایک ایک کتاب کا تحفہ دیا۔
دبلی پتلی حائقہ نور سے ملاقات ہوئی، جس نے کہا کہ اسے مجھ سے ملنے کا بہت شوق تھا۔ اللہ سے دعا کہ اللہ اس کے اور سب بچیوں کے نصیب بلند کرے۔ آمین
ناہید گل سے کچھ ادبی محفلوں میں چلتے چلتے ٹکراؤ تو ہوتا رہا لیکن ملاقات تک نوبت نا پہنچی تھی۔ اس دن ناہید سے ملاقات ہوئی۔ بات کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے اور میرے کچھ دکھ سانجھے سے ہیں۔ ان دکھوں پر میں نے انھیں اور انھوں نے مجھے تسلی دی تو غموں کا کچھ بوجھ ہلکا ہوا۔
کچھ چہروں کو کام میں مصروف دیکھا۔ کچھ شناسا ، کچھ انجان چہرے نظروں سے گذرتے رہے۔
یوں مجموعی طور پر یہ دن اچھی بری یادیں دے کر ماضی بن گیا۔
اگلے دن بروز ہفتہ تین بجے پھر ایکسپو سینٹر کا رخ کیا۔
فلک ناز نور کے ہاتھ کی چائے پی تو تسنیم جعفری کے ہاتھ کا بنا کھانا کھایا تو دل سے دعا کی کہ اللہ ان کے رزق میں برکت دے ۔ آمین!
کچھ باتیں فلک سے کیں۔ جس کے چہرے پر تھکاوٹ کے واضح اثرات دیکھے۔ دل سے دعا کی کہ اللہ اسے مزید ہمت دے۔ آمین
وہیں بیٹھے بیٹھے شاہین اشرف علی آئیں تو تسنیم جعفری نے ان سے ملوایا۔ ان کے ساتھ بات چیت میں پتہ چلا کہ انھوں نے زندگی کے بیالیس سال سفر میں گزارے۔ جھٹ سے انھیں مشورہ دیا کہ پھر تو آپ کو سفر نامے لکھنے چاہییں، جس کا جواب انھوں نے دیا کہ میری چار، پانچ کتابیں اکٹھی آ رہی ہیں۔ ان کی ڈیزائن کردہ جیولری نے بہت متاثر کیا۔ انھوں نے بیٹھے بیٹھے اس جیولری کے کئی شاندار ڈیزائن دکھا ڈالے۔ جاتے جاتے وہ اور بہت سی کتابوں کے ساتھ میری کتاب ”اللہ کے صفاتی نام“ بھی خرید کر لے گئیں۔
توصیف اسلم کا نام سن رکھا تھا دیکھا کل۔ اچھی ملاقات رہی۔ انھوں نے اپنی کتابوں کے بارے میں بتایا اور اپنے ادبی سفر کی کہانی سنائی۔
احمد رضا انصاری اور سلیمان شکور سے کچھ باتیں کیں۔ احمد کو مشورہ دیا کہ لاہور آئے ہو تو تاریخی عمارتیں دیکھ کر جانا کہ یہی تو لاہور کی تاریخ اور حسن ہیں۔
والد صاحب کے ایوارڈز کے حوالے سے بڑی پیاری شخصیت والے پروفیسر عبدالمجید چٹھہ صاحب سٹال پر تشریف لائے۔ ان سے طویل گفتگو ہوئی۔ فلک ناز نور نے میزبانی کے فرائض نبھاتے ہوئے انھیں چائے پیش کی۔ یہ بہت پیارے اور ہیرا صفت لوگ ہیں۔ ایسے لوگوں کی قدر کیجیے۔ کہیں بعد میں دل میں پچھتاوے میں نا رہ جائے۔ پروفیسر صاحب کو ان کی شیلڈ اور توصیفی سند دی اور وہ رخصت ہوۓ۔
اتوار کا دن ہے اور کتاب میلے کا آخری دن! آج ایکسپو جانے کا بالکل نا تو موڈ ہے اور نا ہی ارادہ کہ ایک چھٹی میں گھر کے بہتیرے کام سمیٹنے ہیں لیکن جب آپ کسی کام سے باہر نکلے ہی ہیں تو چلتے چلتے الوداعی نظریں کتاب میلے پر ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔ مختلف سٹالز کو دیکھتے دیکھتے اشفاق احمد خان صاحب سے راستے میں ہی ملاقات ہوئی۔ ایک بار پھر ان کے اور اپنے والد صاحب کی دوستی کا ذکر ہوا۔ کچھ گفتگو والد صاحب کی مزید کتابیں شائع کروانے سے متعلق ہوئی۔ ان سے رخصت مانگی تو پریس فار پیس کے سٹال کا رخ کیا۔ وہاں مسکراتے چہرے والی تسنیم جعفری سے ملاقات ہوئی۔ انھیں ایوارڈ ملنے پر مبارکباد دی تو آگے سلیمان شکور اور احمد رضا انصاری کو دیکھا۔ ماشاء اللہ دونوں نوجوان لکھاریوں کو ایوارڈز ملے ہوئے تھے۔ دونوں کو مبارکباد کے ساتھ ساتھ مزید کامیابیوں کی دعا دی۔ کچھ وقت سٹال پر بتایا اور پھر فلک سے اور باقی لوگوں سے الوداعی ملاقات کر کے گھر کی راہ لی۔
اس کتاب میلے میں پریس فار پیس کا سٹال بہت حد تک کامیاب رہا۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے نا صرف سٹال پر پڑی کتابوں کو دیکھا بلکہ اپنی پسندیدہ کتابوں کو خریدا بھی….. یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ابھی کتاب کے چاہنے والے موجود ہیں۔
خود اپنی آنکھوں سے اپنی کتابوں کو فروخت ہوتے دیکھا تو یوں لگا کہ جیسے آج میں ہواؤں میں ہوں۔
جی بالکل! آپ کی کتاب جب کوئی خوشی سے خریدے تو خوشی تو ہوتی ہے نا پھر…..
مجموعی طور پر اس کتاب میلے کا حال بھی ویسا ہی رہا جیسا پچھلے کچھ سالوں سے ہونے والے کتاب میلوں کا رہا۔ لوگ آتے ہیں، کتاب پکڑ کر دیکھتے بھی ضرور ہیں لیکن خریدار بہت کم ہیں۔
کتاب سے انسان کی دوری میں بہت سے عوامل ہیں۔ سوشل میڈیا کا اس میں سب سے بڑا کردار ضرور ہے لیکن ہر چیز کی ذمہ داری ہم اس پر نہیں ڈال سکتے۔
کتاب مہنگی ہے۔ لوگوں کے وسائل کم ہیں۔ لوگ پیٹ پہلے بھرتے ہیں دماغ بعد میں بھرتے ہیں۔ غریب ملک کے باسی ہیں صاحب! کیا کریں؟ حالات نے لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے چکر میں الجھا ڈالا ہے ۔ پیٹ بھریں گے تو کچھ اور سوچیں گے نا۔ بھلا کتابوں سے تو پیٹ نہیں بھر سکتے نا۔ لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ یہ کتاب میلے تو بھرے پیٹ والوں کی مستیاں ہیں۔
کچھ کتابوں کا معیار بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا جو پچیس تیس سال پہلے تھا۔ آپ سو کتابیں سامنے رکھیں اور بہترین کا چناؤ کریں۔ یقین کریں آپ بمشکل دو سے تین کتابیں ہی نکال پائیں گے جو اصل میں کتاب کہلانے کی حق دار ہوں گی۔ ہر دوسرا بندہ تو اب رائٹر ہے یہاں، جائیں تو جائیں کہاں؟
بحرحال امید پر دنیا قائم ہے اور مایوسی گناہ ہے۔ اللہ پاک بہتری کرے گا ان شاء اللہ!
=============
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.