تحریر: رابعہ فاطمہ
“بھول جاؤ اے مجسم ساز! ماضی کی تلخ یادوں کواور گزشتہ ایام کی شورشوں کو۔ غم و الم کی داستانوں کی کتاب کو اب بند بھی کردو، مصائب کے مرثیوں پر اب خاک بھی ڈال دو۔” وہ مجسمہ جسے وہ کئی مہینوں کی تاریک رات میں تراشتا رہا، آج شب چاندنی میں اس سے ہم کلام تھا۔ مجسم ساز حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات میں اس کی طرف دیکھنے لگا جیسے اس کا خواب اب حقیقت کا روپ دھار رہا ہو۔ مجسمہ ساز پھر اٹھا اور اس نسوانی طرز پر مرقع مجسمے کو مکمل کرنے لگا، لیکن آخر میں وہ پھر تھک ہار کر بیٹھ گیا، اور آنکھیں موند کر کہنے لگا،” مجھ سے نہیں ہوسکتا ، میں نہیں کر پاؤں گا۔”
“اے میرے سنگ تراش! تمہیں علم بھی ہے کہ تمہارا یہ خواب کسی قدر حسیں ہے! اس قدر حسیں کہ اگر کوئی شاعر اسے دیکھ لے تو اپنے سارے دیوان تمہارے نام کردے گا۔ ” مجسمے سے حوصلہ افزاء کلمات نے اس کے مایوس مغز کو پھر بیدار کردیا تھا۔ وہ ایک بار پھر جوش جذبات میں اٹھا اور مجسمے کا تہائی حصہ بھی تراش ڈالا لیکن پھر اسے مصائب و آلام کی تاریکی نے آ لیا،پھر سے مایوسی کے دلدل نے اسے اپنے اندر کھینچ لیا۔ وہ پھر ایک بار خود سے ہم کلام ہوا:” اے دل! تیری محنت بے سود ہے، تیرے اس خواب کی تعبیر تجھے کیا فائدہ دے گی؟ نہ رنج و الم دور ہوں گے اور نہ ہی خواب حقیقت کا روپ دھار سکے گا۔” آج چاند کی چودھویں تاریخ نہیں تھی کہ نسوانی طرز پر مرقع مجسمہ اس سے ہم کلام ہوکر اس کی ڈھارس بندھاتا، وہ نم ناک آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے لگا کہ یکایک اس کی سماعتوں سے آواز ٹکرائی، وہی آواز جو اسے اس مجسمے سے سنائی دیتی تھی۔ وہ بے تاب ہوکر مجسمے دیکھنے لگا، لیکن یہ کیا مجسمہ تو خاموش ہے۔
“اے دل من! تو مجسمے میں کیا تلاش رہا ہے؟ میں تو تیری آنکھوں بسنے والا خواب ہوں، جسے تو نے دیکھا ہے۔ میں تو تیری منزل ہوں جسے تو پانے کا متلاشی ہے۔”
مجسم ساز بے چین ہوکر ادھر ادھر ٹھلنے لگا اور دل میں خیال گزرا:” یعنی یہ میری قوت ارادی ہے جو مجھ سے ہم کلام ہے۔”
اس کے کانوں میں پھر سے سرگوشی سنائی دی:” حیات مختصر ہے، اسے یاد یار میں کیوں گنواتا ہے؟ان لمحوں کی یاد میں کیوں گھلتا ہے جو کبھی لوٹ نہیں آئیں گے۔ کیا تو نے اس دن کے لیے مجھے اپنی آنکھوں میں بسایا تھا؟ اٹھ کھڑا ہو اور یاد ماضی کو فراموش کر کے حال کو پرکیف بنا۔”
مجسم ساز پھر سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے اپنا تخلیقی شاہ کار مکمل کر کے ہی دم لیا۔ وہ خود سے گویا ہوا:” اے مجسم ساز! یہ مجسمہ تجھ سے ہم کلام نہیں تھا بلکہ یہ تیرا اپنا مقصد حیات تھا ، جس نے تجھے گر کر پھر دوبارہ اٹھنے کا حوصلہ دیا۔”
دور دراز سے لوگ اس مجسم ساز کے فن پارے کو دیکھنے کے لیے آرہے تھے اس شاہ کار نے دیکھنے والوں کی آنکھیں خیراں کر دی تھیں۔ اس کے ہر نقش سے محبت ٹپک رہی تھی، جو بھی دیکھتا دم بخود رہ جاتا ۔ بادشاہ نے دیکھا تواش اش کر اٹھا اور گراں قدر قیمت دے کر مجسمہ ساز کے شاہ کار کو خریدنا چاہا، تو مجسم ساز نے کہا :” بادشاہ سلامت! گستاخی معاف ہو، پر اپنی متاع کل کیوں کر کوئی فروخت کرسکتا ہے؟ فن کار سے اس کا فن خریدنا ایسا ہی ہے، جیسے آپ فن کار سے اس کی آنکھیں مانگ رہے ہوں۔”
یہ سن کر بادشاہ کو طیش آگیا اور اس نے مجسم ساز کی گردن اڑانے کا حکم دیا۔ سر تن سے جوں ہی جدا ہوا، مجسم کا خون مجسمے کو رنگین کر گیا، مجسم ساز نے اپنی منزل کو پالیا ۔۔