قاتل کون مصنفہ :رخشندہ بیگ

You are currently viewing قاتل کون مصنفہ :رخشندہ بیگ

قاتل کون مصنفہ :رخشندہ بیگ

مصنفہ :رخشندہ بیگ
سرخ اور نیلی شعائیں چاروں جانب پھیل چکی تھیں ۔وقفے وقفے سے ہوتے دھماکے ،جگہ جگہ سے اٹھتا دھواں ،تباہ حالی اور بربادی کا خوفناک منظر پیش کرتی لاشیں جو لیبارٹری کے اندر اور باہر پڑی خوف و دہشت کا باعث تھیں  ۔
ادھڑے ہوئے نرخرے اور خون سے خالی بے جان جسم ،اپنی بےنور آنکھوں میں حیرت اور خوف لیے عبرت بنے ہوئے تھے ۔
ٹرین  پوری رفتار سے چلی جارہی تھی ۔سخت سردی کی وجہ سے تمام ہی مسافر کمبلوں میں لپٹے پڑے تھے ۔جن کو لیٹنے کے لیے برتھیں میسر تھیں، وہ سفر میں بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے ،جب کہ کچھ سیٹوں پر سکڑے سمٹے اونگھتے ہوئے وقت گزار رہے تھے ۔
دو نو عمر لڑکے کمبلوں میں دبکے اپنے موبائل فون آن کیے، نیٹ پیکج سے فیضیاب ہوتے ،اپنی ہی دنیا میں مگن دکھائی دیتے تھے  ۔اچانک ایک چیخ بلند ہوئی اور پھر ان چیخوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔
وہ سب اچانک ہی ہوا تھا ۔کیسے اور کہاں سے کوئی سمجھ ہی نہیں سکا کچھ پل ہی لگے تھے ،ایک تندوتیز جھونکے کی طرح بوگی کے تمام مسافر ادھڑے ہوئے نرخرے کے ساتھ زندگی کی قید سے آزاد ہو چکے تھے ۔
تباہی و بربادی کا منبع وہ پراسرار وجود اب وہاں کہیں نظر نہ آتا تھا جس پراسرار طریقے سے ظاہر ہوا اسی طرح غائب بھی ہو چکا تھا ۔
ملک کے مصروف ترین ہوائی اڈے پر ایک خوف کا عالم تھا ۔تمام اڑانیں منسوخ کردی گئی تھیں ۔فلائیٹ نمبر اے کے سینتالیس اڑان بھرنے کے دس منٹ بعد واپس اتار لی گئی تھی ۔ہوائی ڈرائیور اس کا ساتھی اور ایک ہوائی میزبان کو لرزتے کپکپاتے وجودوں کے ساتھ ایمبیولنس میں ڈال کر طبعی عملے کے حوالے کردیا گیا تھا ۔
پورے جہاز پر عملے سمیت نرخرہ ادھڑی لاشیں پڑی ہوئی تھیں ۔جیسے درندوں کی کسی فوج نے حملہ آور ہوکر ہر ذی روح کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہو ۔جہاز میں ہر جانب خون ہی خون تھا ۔اس خوفناک منظر کی تاب لانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی ۔

سلیم پہاڑی قصبے کا مکین تھا ۔پڑھائی کے لیے قریبی شہر چچا کے گھر پر ہی رہتا ،مہینے میں ایک بار دو تین دن کے لیے ماں باپ سے ملنے قصبے کا رخ کرتا ۔مگر اب گزرتے وقت کے ساتھ یہ اس پر گراں گزرنے لگا تھا ۔پہاڑی قصبہ کافی دور دراز تھا وہاں اور بہت سی سہولیات کے فقدان کے ساتھ نیٹ بھی دستیاب نہیں تھا ۔اکثر اوقات تو فون سگنل بھی غائب ہوتے اور کسی سے رابطہ کرنا ممکن نہ رہتا ۔
سلیم کو موبائل کی اس قدر عادت ہو چکی تھی کہ اب وہ موبائل میں پیکج کرواتا اور پہلے جو وقت ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ گزرتا تھا ، وہ بھی اب موبائل اورنیٹ کی نذر ہونے لگا ۔
گھر میں بھی اس کے آرام کی خاطر اسے الگ کمرہ میسر تھا ۔باقی بھائی دوسرے کمرے میں سوتے تھے ۔ان دنوں سلیم گھر آیا ہوا تھا ،مگر اپنی ہی دنیا میں مگن ،باپ کو اس سے بڑی امید تھی ۔اسی وجہ سے اسے اچھی تعلیم حاصل کرنے شہر بھیجا ہوا تھا ۔
صبح جب وہ دیر تک کمرے سے باہر نہ آیا تو چھوٹا بھائی اسے بلانے گیا ،مگر وہاں کا منظر دیکھ کر وہ بے اختیار چیختا چلا گیا ۔
کچھ ہی دیر میں یہ خبر پورے قصبے میں پھیل چکی تھی ،سلیم کی نرخرہ ادھڑی لاش نے ہر جانب خوف وہراس کی فضا قائم کردی ۔لوگ اسے کسی درندے کی کاروائی سمجھ رہے تھے ۔
اسی طرح کے واقعات مختلف مقامات پر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک تواتر سے رونما ہو رہے تھے ۔ہر جانب ایک افراتفری پھیلی تھی اور دہشت کا راج تھا ۔لوگ حکومت سے درخواست کر رہے تھے کہ انہیں اس اچانک ہونے والی خوفناک موت سے بچایا جائے ۔
اعلی سطح پر خفیہ اجلاس بیٹھ چکا تھا ۔حکومتی ادارے ،خاص طور پر حفاظتی ذمے داریوں پر معمور اہلکار شدید دباؤ کا شکار تھے ۔کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے ۔بند کمروں ۔۔۔۔اڑتے جہازوں اور چلتی گاڑیوں میں کون سی ایسی طاقت ہے جو انسان کو لمحوں میں درندگی کا نشانہ بنا کر کوئی بھی سراغ چھوڑے بنا غائب ہو جاتی ہے ۔
“سمدانی ۔۔۔اب ڈاکٹر سمندانی ہی واحد امید ہیں ”
چیف پولیس نے تمام تر کوشش کے بعد ہار مان لی تھی ۔اجلاس میں شرمندگی سے سر جھکائے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے ،مانے ہوئے سائینسدان ڈاکٹر سمدانی کا نام پیش کردیا تھا ۔
متعلقہ وزیر نے غصے سے چیف کی طرف دیکھا ۔
“تو تم اپنی اور اپنے محکمے کی نالائقی کا اعتراف کر رہے ہو ۔”
“جناب میں اور میرے قابل اہلکار پوری جان لڑا چکے ہیں ۔مگر یہ معاملہ ہمارے بس سے باہر ہے ۔”
میٹنگ روم کے باہر ایک فون کال نے سیکرٹری کو خوف وہراس میں مبتلا کر دیا تھا ۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ۔
اچانک وہ اٹھا اور لرزتے قدموں سے میٹنگ روم میں داخل ہو گیا ۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے !!بغیر اجازت اس طرح آنے کا مقصد ؟”
چیف نے تیوریاں چڑھا کر پوچھا ۔جواب میں جو سننے کو ملا اس سے وہاں ایک پھونچال آچکا تھا ۔تمام لوگ لمحوں میں وہاں سے نکلے اور وزیر صاحب کے گھر کی جانب دوڑے ،جو اس آفس سے متصل ہی تھا ۔
ایک اور واردات !! اف میرے خدا چیف نے سر پکڑ لیا ۔اکلوتی بیٹی کے کمرے میں اس کی بربریت کا شکار لاش دیکھ کر وزیر صاحب کو دل کا دورہ پڑ چکا تھا ۔تمام پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا نے یک دم دھاوا بول دیا ۔تلخ سوالات اور عوامی غصے سے بچ کر چیف نے وقتی طور پر راہ فرار حاصل کرنے میں ہی بہتری سمجھی ۔
کافی تحقیقات کرنے سے یہ بات تو سامنے آچکی تھی کہ یہ کسی درندے یا انسان کا کام نہیں ہے ۔ماورائی طاقتوں کی کاروائی لگتی تھی ۔مگر پڑھا لکھا طبقہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا ۔
کیس پہلے ہی ہنگامی بنیادوں پر انسپیکٹر عدنان کے سپرد کردیا گیا تھا ۔جس کی تحقیق لیبارٹری تک جا پہنچی تھی ۔یہ لیبارٹری چینی سائنس دانوں کے اشتراک سے کام کر رہی تھی ۔یہاں موجود تمام عملہ موت کے گھاٹ اتر چکا تھا اور سارا سسٹم تباہ ہوگیا تھا ۔صرف ڈاکٹر سمدانی جو اس وقت دورہ چین پر گیے تھے وہ باقی تھے ۔مگر کہاں تھے یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا ۔
درندگی کے یہ واقعات ہر روز بڑھتے جارہے تھے اور اب تک ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس کا شکار ہو چکے تھے ۔ان میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی ۔
“عدنان یہ آخر کون ہے ؟کیا ہے ؟ ”
چیف نے بے بسی سے دریافت کیا ۔
“سر !!میں پوری کوشش کر رہا ہوں ۔مگر ابھی تک سراغ نہیں لگا سکا ۔ہاں کچھ کلیو ملے ہیں ۔مجھے پوری امید ہے میں بہت جلد اصل مجرم تک پہنچ جاؤ گا ۔”
آخر کار سراغ مل ہی گیا کہ اس خوفناک درندگی کے پیچھے کون سی قوتیں کار فرما ہیں ۔ڈاکٹر سمدانی رضاکارانہ طور پر سامنے آچکے تھے ۔مگر جو وجہ سامنے آئی اس نے سب کو ہلا کے رکھ دیا ۔
سر سبز پہاڑوں کے درمیان ایک ویران وادی میں قائم یہ لیبارٹری بہت سے نئے پراجیکٹ پر کام کر رہی تھی ۔ان میں سے ایک پراجیکٹ مقناطیسی لہروں کے زریعے کچھ ایسی فریکوئنسی پیدا کرنا تھا جو موبائل کے ایک مخصوص سسٹم کو کنٹرول کرسکیں ۔
اس تجربے کو چیک کرنے کے لیے ایک مقبول گیم کے سسٹم کو ہیک کرلیا گیا اور یہ خفیہ ریز اس سسٹم میں داخل کردی گئی ۔مگر اس کے نتیجے میں جو خوفناک تباہی برپا ہوئی اس کا شکار سب سے پہلے لیبارٹری کا عملہ ہوا اور اس کے بعد ان قاتل لہروں نے ہر اس شخص کو متاثر کرنا شروع کردیا ،جس نے بھی اس نئے گیم کے ایک مخصوص لیول تک رسائی حاصل کی ۔یہ گیم چوں کہ نوجوانوں میں مقبول ہوا اسی لیے اس کا شکار بھی زیادہ تر نوجوان ہی بن رہے تھے ۔
یہ تمام حقائق ڈاکٹر سمدانی کی زبانی سن کر پوری تحقیقاتی ٹیم پریشان بیٹھی ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہی تھی۔
آخر کار سب سے پہلے انسپیکٹر عدنان کو ہی ہوش آیا اور ڈاکٹر سمدانی سے سوال پوچھا ۔
“ڈاکٹر صاحب یہ سب تو بہت خطرناک ہے ۔اس کو اب کیسے روکا جائے گا ؟ دوسری بات کہ جب یہ اتنا ہی خطرناک تھا تو اسے فورا کیوں نہ روکا گیا ؟”
“یہ سب اتنا ہولناک نہیں ہوتا مگر مقناطیسی لہروں کی غلط فریکوئنسی اور شدت نے گیم کے سسٹم کے ساتھ منسلک ہوتے ہی کچھ ایسی نیگٹو لہروں کو متحرک کردیا جن پر ابھی تک سائنس دانوں کا کوئی بھی کنٹرول نہیں ہے ۔”
“آپ کو جب اس سب کے بارے میں علم تھا تو آپ اتنے دن غائب کیوں رہے ؟”
ایک اور ارکان نے تلخی سے سوال کیا ۔
“میری موجودگی میں ہی یہ تجربہ کیا گیا تھا اور مجھے جیسے ہی اس گڑبڑ کا علم ہوا میں اس کا حل ڈھونڈنے کی کوشش میں لگ گیا اور اس کے لیے میں بیرون ملک اپنے دوست ڈاکٹر جوزف کے ساتھ مل کر اس کا توڑ ڈھونڈ رہا تھا ۔دوسرا لیبارٹری کی تباہی کی اطلاع ملتے ہی ہم نے ہر ممکن تیزی سے اس گیم سوفٹ وئیر کو بلاک کروانا شروع کردیا تھا ،مگر افسوس کہ پھر بھی اس پر قابو پاتے پاتے بھی اندازے سے زیادہ نقصان ہو گیا ۔”
“آپ اس کے متعلق آگاہی مہم بھی تو چلا سکتے تھے ”
انسپیکٹر عدنان نے پھر سوال اٹھایا ۔
“ہم اس خبر کو بالکل بھی باہر نہیں نکال سکتے تھے یہ اطلاع اگر شر پسند عناصر کو مل جاتی تو آپ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کس قدر تباہی برپا ہو سکتی تھی ”
“بہر حال میرے تمام ساتھی اس غلطی کا خمیازہ بھگت چکے ہیں اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اس کے ساتھ ہی مجھے بے حد افسوس ہے کہ بے شمار بے گناہ بچے اور نوجوان ان قاتل لہروں کا شکار ہو گئے ۔مگر اب میں آپ سب کو یہی خوش خبری دینے سامنے آیا ہوں کہ ہم نے ان قاتل لہروں پر 99 پرسنڈ قابو پالیا ہے ”
“یعنی ایک پرسنڈ خطرہ اب بھی موجود ہے !!”
کیی اراکین کے منہ سے بے اختیار نکلا ۔
ڈاکٹر سمدانی نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا “آپ لوگ 99 کے عدد پر غور کیجیے “۔
اس طرح ایک فیصد خطرے کے امکان کے ساتھ یہ میٹنگ اختتام پر پہنچی ۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.