Monday, May 20
Shadow

قائد اعظمؒ اور اردو زبان/ تحریر: محمد برہان الحق

تحریر: محمد برہان الحق

                 زمین پر جب داعیان حق(مسلمانوں) کی حکومت قائم ہوئی تو مسلمانوں نے اپنا قومی تشخص اور وقار کو برقراررکھا۔ کسی بھی حال میں مسلمانوں نے اپنی تعلیمی و ثقافتی اور قومی زبان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ مسلمانوں کی اول زبان تو عربی ہے،برصغیرپاک و ہند میں وسعت کے ساتھ ہی فارسی زبان کو بھی مسلمانوں کی زبان ہونے کا خلعت ملا اور برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت کے دوران بہت سے مسلم ممالک کی اقوام کی یکجہتی و اتحاد کی وجہ سے اردو زبان نے جنم لیا۔برصغیر پر انگریز نے جب شب خون مارا تو اس نے مسلمانان ہند کی تہذیب و ثقافت کا جنازہ نکالنے کوضروری جانااوریہ سمجھاکہ مسلمانوں کے مابین وحدت و اتحاد کی علامت تعلیم و تعلم کی یکسانیت اور زبان کی ہم آہنگی ہے۔لہذا انگریز نے اپنی تہذیب و ثقافت مسلط کرنے کے لیے مسلمانوں کے نظام تعلیم کا چہر ہ مسخ کیا اور اپنی زبان بھی برصغیر میں رائج و نافذ کیا۔ اس دوران مسلم لیگ کی جدوجہد کو جلا بخشنے والی قیادت کو تلاش کرنے کے لیے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی نظر انتخاب قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر ٹھہری۔قائد اعظم  کراچی میں گجراتی خاندان میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم سندھی و انگریزی میں حاصل کرکے برطانیہ وکالت کی تعلیم انگریزی میں جاکر مکمل کی۔قائد اعظم کو جب قلندرلاہوری نے بلایا تو ان کو یہ یقین محکم تھا کہ مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی سرتوڑ کوشش کرسکتے ہیں۔تحریک آزادی میں لاکھوں مسلمانوں نے جانی و مالی اورعزت و آبروکی قربانیاں پیش کیں۔قائد اعظم نے جب مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تو مسلسل کوشش کی کہ وہ انگریز کو برصغیر سے نکلنے پر ناصرف مجبور کریں بلکہ انگریز سے مطالبہ کیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں ان کی تہذیب و ثقافت اور زبان الگ الگ ہے۔قائد اعظم کی ملی و اسلامی خدمات کا نتیجہ ہے کہ رب کائنات نے پاکستان کے قیام کا سہرا بھی انہیں کے سرسجایا۔حالانکہ اس وقت مسلمانوں کے پاس سیاسی و مذہبی میدان میں ایک سے ایک بڑھ کر قائد و رہبر موجود تھا لیکن کامیابی و کامرانی کی نوید بذریعہ قائد اعظمؒ پوری ہوئی۔

قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان سے پیشتر ہی واضح کردیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی اور مثالی ریاست ہوگی۔ قائد اعظم پاکستان کو دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے لیے بطورنمونہ و مثال بنانا چاہتے تھے کہ اس کی تقلید سبھی ممالک کرسکیں۔اس کے ساتھ ہی قائد اعظمؒ نے مشرقی پاکستان کے مرکز ڈھاکہ میں واضح اور واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا ملک پاکستان کی سبھی قوموں کے درمیان رابطے کی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔ کیونکہ اردو زبان سندھی، پنجابی، بلوچی،پشتو اور بنگالی سبھی لوگوں کے درمیان ایک پل کا کردار صرف اردو ہی اداکرسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قائد کے فرامین کی روشنی میں اس زبان کو اس کے جائز مقام کے اعتبار سے اہمیت دی جائے۔ قائداعظمؒ نے مختلف مواقع پر اردو زبان کی اہمیت، افادیت اور اس کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے،جو ارشادات فرمائے اُن میں سے چند فرمودات بالترتیب ذیل میں درج ہیں۔

پہلافرمان(1942):۔

قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا پہلا فرمان 1942ء ’’پاکستان مسلم انڈیا‘‘کے دیباچے میں تحریر کیا گیا ہے۔

’’پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔‘‘

دوسرا فرمان (1946):۔

قائد اعظمؒ نے 10 اپریل 1946ء کو اپنے آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس،دہلی میں بیان کرتے ہوئے  فرمایا:۔

’’میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔‘‘

تیسرا فرمان (1948):۔

تیسرا بیان جسے سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ ڈھاکہ 21 مارچ 1948ء میں جلسہ عام سے قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا

’’میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے۔ اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کی زندگی پر کوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے۔ اس صوبے کے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی۔ لیکن یہ میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔‘‘

چوتھا فرمان (1948):۔

چوتھا فرمان 24 مارچ 1948ء کا ہے اسے بھی سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جس میں قائد اعظم ؒ نے فرمایا:۔

’’اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ان کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔‘‘

قائد اعظم محمد علی جناحؒ دور اندیش راہنما تھے۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں اردو زبان کی قومی اور سرکاری اہمیت اور حیثیت کو سمجھا انہوں نے اردو زبان کے شاندار ماضی کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور مستقبل میں اس زبان کے فکری اور معنوی پھیلاؤ کو اپنی چشمِ تصور سے ملاحظہ کرتے ہوئے اسے پاکستان کی یگانگت، اتحاد، اور یکجہتی کی علامت قراد دیا۔

ان کی دور اندیشی اور مستقبل شناسی پر کسی کو  شک نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم تحریک پاکستان میں ان کی شخصیت اور فکر کیبنیادی رویے کے قائل اور قدردان ہیں تو اردو زبان کو سرکاری اور دفتری زبان ماننے اور ان حیثیتوں میں اسے رائج کرنے میں ہمیں کوئی تحمل نہیں ہونا چاہیے۔

قائد اعظمؒ کے ارشادات میں نہایت واضح طور پراردو زبان کے بارے میں پاکستان کی قومی اور سرکاری سطح پر ترویج اور اشاعت کا حکم موجود ہے۔ چوہدری احمد خاں کچھ یوں لکھتے ہیں۔

’’ظاہری طور پر ہم پاکستانی قائد اعظمؒ کے وفادار ہیں۔ قائد اعظمؒ کے ایام ولادت و وفات سرکاری طور پر مناتے ہیں۔ اخبارات قائداعظمؒ نمبر نکالتے ہیں۔ قائداعظمؒ کی جائے ولادت، ان کا ذاتی سامان اور سارے کاغذات حکومت نے محفوظ کر لئے ہیں۔ قائد اعظمؒ کے اقوال ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی آتے ہیں۔ تمام کرنسی نوٹوں پر قائداعظمؒ کی تصویر ہوتی ہے۔ ڈاک کے یادگاری ٹکٹوں پر قائد اعظمؒ کی تصاویرہیں۔ تمام سرکاری دفاترمیں بھی قائداعظمؒ کی تصویریں ہوتی ہیں۔ پنجاب کے ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ کونسل ہال کا نام جناح ہال ہے۔ ایک یونیورسٹی، ایک بڑا ہسپتال اور ایک میڈیکل کالج قائد اعظمؒ کے نام سے موسوم ہیں۔ جلسوں میں قائداعظمؒ کے زندہ باد کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔ کئی مشہور باغ و پارک اور بڑی سڑکیں قائد اعظمؒ کے نام پر ہیں۔ لیکن قائداعظمؒ کے فرامین کے مطابق اردو کیوں رائج نہیں ہوتی”۔

ہم نے آج تک یہی سمجھا اور اپنے بچوں کو یہی سمجھایا کہ انگریزی ہی ہماری ترقی کا معیار ہے نہ کہ اردو. ہمارے بچے کو عربی اور اردو  بے شک نہ آتی ہو ں،انگریزی لازمی آنی چاہئے۔

ضرورت اس  امر کی ہے کہ ملک میں بغیر کسی تاخیر کے قائد کی امنگوں کے عین مطابق اردو کونافذ کرنے کا فی الفور اعلان کیا جائے اسی میں قوم کی مساوی ترقی ممکن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact