رپورٹ: حمزہ سعید۔
پوسٹ گریجویٹ کالج (برائے طلبہ)مظفرآباد میں ”بہ یاد غالب و فیض“ کے عنوان سے بزم ادب، پوسٹ گریجویٹ کالج مظفرآباد  کے زیر اہتمام ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت پرنسپل پوسٹ گریجویٹ کالج جناب پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم نے کی۔ جناب محمد اکرم سہیل اور جناب محمد یامین تقریب میں مہمانان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔گوجری زبان کے مشہور شاعر  جناب مخلص وجدانی مہمان اعزاز کے طور پر تقریب میں آئے۔ اس کے علاوہ چیئر مین شعبہ اُردُو پروفیسر سعید احمد شاد، چیئر مین شعبہ انگریزی ڈاکٹر عائشہ رحمان، پروفیسر طارق محمود، پروفیسر مبشر نقوی، پروفیسر ہارون قریشی، پروفیسر امجد حسین بٹ، لیکچرر انگریزی رابعہ حسن، لیکچرر انگریزی احسن قریشی، لیکچرر انگریزی راجا محمد شعیب اور باہر سے آئے ہوئے مہمانان  عکسی احمد خان، دانش محمود چغتائی، قمر الحق خریگامی،کالج کے اساتذہ، اسٹاف ممبران، شعبہ اُردُو اور انٹر کے طلبا نے تقریب میں بھرپور شرکت کی۔
پروفیسر اعجاز نعمانی نے تقریب میں نظامت کے فرائض سرانجام دیے۔
ڈاکٹر عبدالکریم ، محمد اکرم سہیل، محمد یامین،مخلص وجدانی، رابعہ حسن ، امجد حسین بٹ،محمد ہارون قریشی و دیگر نے تقریب سے خطاب کیا
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا حسن اعوان کو تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل ہوئی سید افضال نے نعت رسول مقبول پیش کی۔
تقریب آگے بڑھی اور سردار محمد مدثر کلام غالب سنانے اسٹیج پر آئے اور کلام غالب سے حاضرین کو محظوظ کیا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
اس کے بعد تقاریر کا باقاعدہ آغاز ہو گیا اور سید علی رضا اسٹیج پر تشریف لائے اور فیض کا تعارف بیان کرتے ہوئے کہا: ”پاکستان ایک ایسی دھرتی ہے جس نے بہت سے ادبی لوگوں کو پیدا کیا، مگر خاص جگہوں میں سیالکوٹ ہے جہاں اقبال پیدا ہوئے اور وہیں فیض احمد فیض بھی پیدا ہوئے۔ فیض نے ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی آپ نے انگریزی میں ایم اے کیا آپ نے بہت سی نظمیں غزلیں لکھیں “صبحِ آزادی ” آپ کی ایک مشہور زمانہ نظم ہے۔
تقریر کے بعد پھر سے غزل سنانے کا نمبر آیا تو سید طفیل نقوی اسٹیج پر آئے اور خوب صورت آواز میں غالب کی غزل پیش کی۔
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی: اس کے بعد سید شاکر حسین کو اسٹیج پر آنے کا موقع دیا گیا جس نے غالب کی ”شوخی و ظرافت “ پر بات کی اور کہا
”غالب نے اپنے دوست مہدی کو خط میں لکھا رزق کی بہت تنگی ہے ابھی رمضان کا مہینہ سارے روزے کھا کر گزارا ہے پتہ نہیں آنے والے دن کیسے ہوں گے اگر اور کچھ بھی نہ ملا کھانے کو تو اپنے غم تو ہیں وہی کھا لوں گا۔“
اس کے بعد حماد مغل کو اسٹیج پر بلایا گیا جس نے فیض صاحب جیل میں گزری زندگی پر بات کی اور کہا:
”فیض صاحب جب لاہور جیل  میں تھے تو ان کو عدالت لے کے جانا تھا راستے میں پولیس کی گاڑی خراب ہوگی فیض صاحب کو تانگے پر بٹھایا گیا جب آپ ضلع کچہری کے قریب پہنچے تو لوگوں کا ہجوم آپ کو دیکھنے کے لیے اکھٹا ہوگیا جب فیض صاحب جیل سے واپس لوٹے تو انہوں نے ایک نظم لکھی:
چشمِ نم جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتُِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
بیڑیاں ڈال کے ہھتکڑیاں ڈال کے

اور اس شعر پر اپنی تقریر کا اختتام کیا
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیںِ قتل ہو آئیں یارو چلو
حماد مغل طلبا کی جانب سے آخری مقرر تھے۔ اس کے بعد پروفیسر امجد حسین بٹ کو اسٹیج پر آئے اور فیض کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی  ڈالتے ہوئے کئی اشعار حاضرین کی نذر کیے۔
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
۔   اور پھر پروفیسر مبشر نقوی کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی جنہوں نے اپنی خوب صورت آواز میں کلام فیض سنا کر حاضرین کی توجہ اپنی طرف کھینچی
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تُو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صُورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات

تیری آنکھوں کے سِوا دُنیا میں رکھا کیا ہے

 


اس کے بعد پروفیسر محمد ہارون قریشی اسٹیج پر تشریف لائے اور غالب کی معنی آفرینی اور انداز بیاں پر سیر حاصل گفتگو کی۔غالب نے اپنی شاعری میں زندگی کے رنگا رنگ پہلووں کو جس انداز سے بیان کیا ہے انہوں نے غالب کے شعروں کی روشنی میں انہیں اجاگر کیا ان کا کہنا تھاَ:
”گزشتہ تین صدیوں نے اردو دنیا کو مالا مال کر دیا ہے۔ اٹھارویں صدی میں میر تقی میر جیسا کوئی اور شاعر نظر نہیں اور انیسویں صدی میں غالب کے پائے کا کوئی اور شاعر نظر نہیں آئے گا، اسی طرح بیسویں صدی میں اقبال جیسا کوئی اور شاعر نظر نہیں آئے گا۔ غالب جدید اور قدیم کے سنگم پر تھا لہذا اس کی شاعری میں ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کے ہر پہلو پر فرد سے لے کر، حیات سے لے کر کائنات تک، وجود سے لے کر کنایات تک تمام موضوعات موجود ہیں۔
اس لیے غالب نے خود ہی کہا
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
انداز بیان اور معنی آفرینی غالب کو ممتاز کرتی ہیں خود غالب نے کہا وہ قافیہ پیمائی سے زیادہ معنی آفرینی پر یقین رکھتے ہیں اور محمد ہارون قریشی نے کئی اشعار سوال کے طور پر حاضرین کے لئے چھوڑے اور کہا کہ ان سوالوں کے جواب آپ خود تلاش کریں جن میں سے ایک شعر یہ بھی تھا:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا“
اس کے بعد افسانہ نگار، لیکچرر انگریزی رابعہ حسن نے غالب پر لکھا گیا دلچسپ مضمون پیش کیا جس میں انہوں نے غالب سے خیالی ملاقات کا احوال بیان کیا جس کو انہوں نے خیالی کرداروں کے سانچے میں ڈھال کر افسانوی رنگ میں رنگ دیا اور اس مضمون میں انہوں نے مظفرآباد کے مشہور و معروف شاعر، ہمارے استاد جو کہ تقریب میں نظامت کے فرائض بھی سرانجام دے رہے تھے، پروفیسر اعجاز نعمانی کو بھی ایک کردار کے روپ میں دیکھا اور ان کے کُچھ اشعار بھی سنائے:

تری خوشبو پہ وارے جا چکے ہیں
ہمارے لوگ مارے جا چُکے ہیں
کسی گھر سے دھواں اٹھتا نہیں ہے
یہی لگتا ہے سارے جا چکے ہیں
اور غالب کے اس شعر پر انہوں نے اپنے مضمون کا اختتام کیا
آ ہی جاتا وہ راہ پر غالب
کوئی دن اور بھی جیے ہوتے
اعجاز نعمانی جیسا کہ ہر مقرر کی تقریر پر تبصرہ کرتے تھے اسی طرح  اس مضمون پر بھی ان کا تبصرہ مزاحیہ اور منفرد تھا ان کا کہنا تھا:
”یہ مضمون یقینًا تاریخ میں امر ہو گیا ہے اس کو آفاقی حیثیت مل گئی ہے کیوں کہ اس میں میرا ذکر آ گیا ہے ۔“
جیسا کہ شاعروں کا شیوہ ہوتا ہے وہ شعر کہے بغیر نہیں رہ سکتے اور وقفے وقفے سے شعر کہتے رہتے ہیں تو پروفیسر اعجاز نعمانی نے اس شعر کے ساتھ عکسی احمد  خان کو کلام غالب سنانے کے لیے بلایا۔
غالب چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابرو شبِ ماھتاب میں
عکسی احمد خان اپنے ایک پرانے پیانو کے ساتھ اسٹیج پر تشریف لائے ان کی زبانی یہ پیانو سو سال پرانا ہے۔ انہوں نے اس پرانے پیانو کو بجاتے ہوئے قوالی کے انداز میں کلام غالب سنایا
ہر ایک بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے
تم ہی بتاؤ یہ انداز گفتگو کیا ہے
غالب پر لکھا اپنے تحقیقی مضمون پیش کرنے سے پہلے اعجاز نعمانی نے محمد یامین کو اس شعر کے ساتھ اسٹیج پر بلایا
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
محمد یامین نے مضمون کو ”ہم اور ہمارا غالب“ کے عنوان سے پیش کیا اور اس شعر کے ساتھ آغاز کیا
ہو گا  کوئی دُنیا میں کہ غالب کو نہ جانے
بہت ہے شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام
اور کہا:
ہم اور ہمارا زمانہ غالب اور غالب کے زمانے سے مختلف ہے ہوا اُس وقت بھی چلتی تھی اور آج بھی چلتی ہے لیکن آج اس کا رخ بدل گیا ہے ندیوں اور دریاؤں کے رخ تبدیل ہو گئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاعری ایک ایسا فن ہے جو اشیا کے متعلق تجربے کا اظہار کرتا ہے۔ گوپی چند نارنگ کی غالب کے ”بد نام“ پر رائے بیان کی۔شمس الرحمٰن فاروقی کی غالب کی طلسماتی معنویت پر کہی ہوئی باتوں سے حاضرین کو آگاہی فراہم کی۔ ”شعور اور لاشعور کا شاعر غالب“ پر بھی باتیں کہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غالب مضامین کا شاعر ہے اور مضمون تلخ نہیں لکھا جا سکتا۔ ان کا اسلوب اور بات کہنے کا ڈھنگ انہیں ممتاز کرتا ہے۔یہی ڈھنگ اور طریقہ اصل میں تخلیقی عمل ہے۔
اعجاز نعمانی نے محمد یامین کے بارے میں کہا:
” اک سحر طاری کر دیتے ہیں جناب یامین “
اور فیض احمد فیض پر بات کرنے کے لیے اکرم سہیل کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی
جناب اکرم سہیل کا کہنا تھا کہ
فیض کی شاعری لوح و قلم کی محتاج نہیں۔ آمریت کی طرف سے جب ان کی زبان اور قلم پر پابندیاں لگ جاتی تو لکھنے کا انداز ایک نیا رخ اختیار کر لیتا محمد اکرم سہیل نے فیض احمد فیض کی مزاحمتی شاعری پر سیر حاصل گفتگو کی۔ اور چند اشعار حاضرین کی نظر کیے۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں ہے


اس کے بعد مخلص وجدانی نے  ” غالب رجائیت کے شاعر“ پر مختصر بات کی،اس کے ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ فیض سے ملاقات تو میری ایک مشاعرے میں ہوئی تھی اور پھر مزاحیہ انداز میں  کہا کہ غالب سے میری ملاقات اعجاز نعمانی کے ذریعے ہوئی ہے۔ اور کہا ہم نے غالب کو اردو کے حوالے سے تو دیکھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ میرا اصل کلام تو فارسی میں ہے ہمیں چاہیے کہ ہم غالب کو فارسی کلام میں بھی یاد رکھیں  وہ فارسی کے بھی بڑے شاعر تھے۔
آخر پر صدر محفل پرنسپل پوسٹ گریجویٹ کالج میں پروفیسر ڈاکٹر عبدلکریم نے خطاب کرتے ہوئے مختصر وقت میں سب سے پہلے تمام حاضرین اور مہمانان کا شکریہ ادا کیا اور غالب کی غربت پر مختصر بات کرتے ہوئے اس کے دکھوں، غموں سے آگاہ کیا ان کا کہنا تھا:
” غالب کے دکھ کبھی تھمے تو نہیں اور وہ دشت امکاں کو ایک نقش پا سمجھتے تھے وہ قید غم سے آخری سانس تک نجات  حاصل نہ کر پائے۔ سات سال کی عمر میں والدین کا انتقال ہوا۔ 13 سال کی عمر میں شادی۔کفالت کرنے والے چچا کا انتقال جس کی وجہ سے غالب اپنے دشت کی آوازیں بن کر رہ گئے۔ غالب کی اصل پریشانی کا آغاز اپنی پینشن کی وجہ سے ہوا جس کے لیے وہ کلکتہ تک گئے مقدمے لڑے کامیابی نہ ملنے پر  انہیں بہت مایوسی ہوئی غالب کا سب سے بڑا مسئلہ معاش تھا ان کی شاعری میں کچھ تضادات نظر آتے ہیں اس کی وجہ معاشی تنگ دستی ہے۔
غالب کی شاعری میں وہ کہانی ہے جسے ہم آج کے معاشرے کے تناظر میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔
اور آخر پر پروفیسر اعجاز نعمانی نے پھر سے تمام مہمانان اور حاضرین کا تقریب میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا اور تقریب کا باقاعدہ اختتام کیا۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact