آزاد نظم بہ عنوان : ایک خواہش ناگزیر/ رابعہ حسن
رابعہ حسندنیا کے جھمیلوں سے نکل کرزندگی کے میلوں سے پرےآو ہم ایسا کرتے ہیںاک چاہ کی چادر بنتے ہیںپیار کے تارے جس میں ٹانکتے ہیںخلوص کے بوٹے اس پر سوزن کرتے ہیںپھرنفرت کی بارش میںاس کو سر پر اوڑھ کرہم ایک ایسی دھنک زمیں پہ اتر جاٸیںجہاں ٹہنی گل کی کنار جو کو چومتی ہوجہاں پرند مصروف ثنا ہوںجہاں غزال مست اپنی چال میں ہوںجہاں بانگ مرغ میں شاملپیار کی لے ہوجہاںنفرت کا گزر نہ ہوجہاں پیار کی چھاوں ہی چھاوں ہوآو رابی ایسا کرتے ہیںدنیا کے جھمیلوں سے نکل کرزندگی کے میلوں سے پرےآو ہم ایسا کرتے ہیں۔۔۔
...