تحریر : ثنا ادریس
ابا کو کھانستے ہوئے مہینوں ہو چلے تھے ۔ بارہا کہا کہ چل تجھے شہر کے کسی پرائیویٹ اسپتال لے چلتا ہوں ۔ پر وہ مانتا ہی نہیں ۔ گاؤں کے حکیم سے علاج جاری تھا پر آرام آنے کے بجائے طبیعیت مزید بگڑتی جا رہی تھی ۔ اس میں قصور حکیم کا بھی نہ تھا ۔ دوا کیا اثر کرتی کہ جب اس کی کہی باتوں پر عمل ہی نہ کیا ۔ ابا پرہیز کرنے پر راضی نہ تھا ۔ حقہ وہ چھوڑ نہیں سکتا تھا ۔ کہتا ہے کہ دس برس کا تھا جب اپنے ابا کے حقے کی چلم بھرتے بھرتے اسے بھی لت پڑ گئی ۔ اب ایسی عادتیں قبر تک جان تھوڑی نا چھوڑتی ہیں۔
میں ، نذیر علی سرگودھا کے ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں ۔ یہاں ہماری کچھ زمینیں ہیں ۔ زمینیں تو اور بھی تھیں پر دو بہنوں اور پھوپھی کی شادی کے اخراجات کی مد میں انہیں بیچنا پڑ گیا۔ یہ وہ موقع ہوتے ہیں کہ جب کوئی سگا بھی کام نہیں آتا ۔ کسی سے چار پیسے ادھار مانگنے جاؤ تو سامنے والا اپنی اتنی مجبوریاں بتا دیتا ہے کہ شرمندگی ہوتی ہے ۔ سو ابا نے کبھی مانگنے کی عادت ڈالی ہی نہ ۔ اس کا کہنا تھا کہ زر ، زمین اور زن برے وقت کے ساتھی ہیں ۔ زر اور زمین کے بارے میں تو ابا سچ ہی کہتا ہے ۔ پر زن ۔۔۔ اس بارے مجھے علم نہیں ۔ ہوتا بھی کیسے ؟؟ چھوٹا سا تھا جب اماں ہمیں چھوڑ گئی۔ اماں کے مرنے پر ہفتوں ہمارے صحن میں الٹی کھاٹ پڑی رہی ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جب کوئی مر جائے تو جس کھاٹ ( چارپائی ) پر میت کو رکھا جاتا ہے اسے الٹا رکھ دیا جاتا ہے ۔
اماں کے بعد ہمیں پھوپھی نے پالا اور ماں ہونے کا حق ادا کر دیا ۔ اس کے ہوتے کبھی ماں کی کمی محسوس ہی نہ ہوئی تھی ۔ لیکن جب وہ بھی بیاہ کر پیا دیس سدھار گئی ۔ تو ایک بار پھر ہم تینوں بہن بھائی ماں کی ممتا سے محروم ہو گئے ۔ شروع شروع میں ہمیں اس کی کمی بہت محسوس ہوتی پر وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں سمجھ آتی گئی کہ ساتھ کوئی بھی ہو ۔ سدا ساتھ نہیں رہتا ۔ ایک نہ ایک دن چھوڑ ہی جاتا ہے ۔ سو دل پکے کر لیے ۔ اور اپنی زندگیوں میں مگن ہو گئے ۔ بہنیں مجھ سے بڑی تھیں تو جلد گھر داری کرنا سیکھ گئیں ۔ ابا اور میری ہر ضرورت کا خیال رکھتیں ۔
پڑوس کی خالہ رحمت نے اس موقع پر ہمارا بڑا ساتھ دیا ۔
کھانا پکانے سے لے کر سلائی کڑھائی کرنے تک ۔ ہر کام انہوں نے دونوں بہنوں کا سکھا دیا تھا ۔ جس نے ہماری زندگی آسان کر دی ۔ ہم خالہ کو بڑی اماں کہتے تھے ۔ پھوپھی کی شادی بھی انہیں کے توسط سے ہوئی تھی ۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو فوج میں چلا گیا ۔ شروع کے چند سال تو وہ چھٹی پر گھر آتا رہا ۔ اس کے بعد یہ وقفہ بڑھتا ہی چلا گیا ۔ ایک بار آیا تو خالہ کو پتہ چلا کہ اس نے وہیں شہر میں کسی سے شادی کر لی ہے ۔ خالہ جو اس کی شادی کے ارمان دل میں چھپائے بیٹھی تھی ۔ دل میں ہی دبا گئی ۔اور مسکرا کر اسے دعائیں دیں ۔ اس کے بعد ان کا بیٹا کبھی گاؤں نہ آیا۔ وہ اپنی دنیا کا ہو کر رہ گیا ۔ ایک بار ہم نے خالہ سے پوچھا کہ آپ کا دل نہیں کرتا کہ آپ اپنے بیٹے کے پاس رہیں ۔ جواب میں خالہ کی خاموشی اور آنکھوں میں چھپے درد نے ہمارے لب سی دیے ۔ اس کے بعد ہم نے کبھی ان سے سوال نہ کیا اور وہ چپ کی چپ ہی دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔ان کے آخری دیدار اور جنازے کو کاندھا دینے بھی ان کا بیٹا نہ پہنچ سکا۔ سنا تھا کہ جس دن خالہ کا انتقال ہوا اس دن اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا ۔ ایک بار پھر ہمارے صحن میں الٹی کھاٹ ہفتوں پڑی رہی ۔ مجھے اس الٹی کھاٹ کو دیکھ کر عجیب وحشت ہوتی تھی ۔ جس کا اظہار میں نے پھوپھی سے کیا تو ہنسی دیں۔ کہنے لگیں جب ہم بھی دنیا سے چلے جائیں گے تو بدل دینا یہ رواج ۔ ان کی اس بات نے میرا دل مٹھی میں بھینچ لیا ۔ ایسا خیال بھی میرے لیے روح فرسا تھا ۔
پھوپھی کی شادی کے چھ سال بعد دونوں بہنوں کی شادی نے ہمارا گھر خالی کر دیا ۔ اب اس گھر میں صرف میں اور ابا ہی رہ گئے ۔ ابا کی صحت پہلے جیسی نہ رہی ۔ زمینوں کا کام میں دیکھ لیتا تھا ۔ سو ابا مکمل آرام کرتا ۔ زمینوں کے کام اور سامان کی لین دین کے سلسلے میں اکثر شہر جانا ہوتا ۔ ابا گھر پر اکیلا ہوتا یہ بات میرے لیے پریشانی کا باعث تھی ۔ بہنوں نے مشورہ دیا کہ اب تمہیں شادی کر لینی چاہیے کہ گھر کو عورت کی ضرورت ہے۔ ہم روز روز نہیں آ سکتے ۔ ان کی بات بھی سچ تھی ۔ بھلا اپنا گھر بار دیکھنا بھی ان کی ذمہ داری تھی ۔ سو انہیں کی پسند کی لڑکی سے شادی ہو گئی۔ اور یوں ہاجرہ میری زندگی کا حصہ بن گئی۔
گھر میں پہلے کی طرح چہل پہل تھی۔ گھر صاف ستھرا اور کھانا وقت پر ملتا ۔ ابا کا بھی وہ بہت خیال رکھتی ۔اب میں بھی تسلی سے شہر کام کے لیے جا سکتا تھا ۔ ہاجرہ کی قسمت کا اللہ نے مجھے بہت دیا۔ میرا کاروبار دن بہ دن بڑھتا گیا۔ زمینوں پر کام کرنے کو میں نے ملازم رکھ لیے ۔ شہر میں ایک دفتر بنا لیا اور وہاں کا حساب کتاب اپنے ہاتھ میں رکھا ۔ غرض یہ کہ ہر طرح سے زندگی خوشحال تھی۔ ابا سے بہت بار کہا کہ چل اب ہم شہر چلتے ہیں۔ وہاں میرا کاروبار اچھا چل پڑا۔ پر وہ راضی نہ ہوتا ۔ کبھی کبھی میں غصہ ہو جاتا ۔پر ہاجرہ مجھے سمجھاتی کہ ابا نے ساری زندگی یہاں گزاری ۔ اس کے لیے یہ سب چھوڑ کر جانا آسان نہیں ۔ اور یوں میں خاموش ہو جاتا ۔
دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ابا کی طبیعت مزید خراب رہنے لگی ۔ سردی سے شروع ہوئی کھانسی اب مستقل رہنے لگی تھی ۔ حکیم نے بتایا کہ ابا کی سانس کی نالیوں میں سوزش کی وجہ سے ایسا ہے ۔ احتیاط اور علاج سے ابا بہتر ہو جائے گا ۔ میں شہر سے بھی کئی دوائیں لایا پر ابا کی کھانسی مزید زور پکڑتی گئی ۔ ساری رات کھانستے گزرتی ۔ میں اور ہاجرہ ابا کے پاس رہتے ۔ کبھی پانی پلاتے اور کبھی شہد دیتے ۔ پھر میرے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ شہر کا ایک بڑا ڈاکٹر اس کا دوست ہے ۔ وہ وقت لے لے گا ۔ مجھے بس ابا کو لے کر وہاں جانا تھا۔ ابا سے ڈرتے ڈرتے کہا تو جانے کس خیال سے اس نے حامی بھر لی ۔ اور میں حیرت سے انہیں دیکھنے لگا ۔
اگلے ہی دن میں ابا کے ساتھ شہر کے ایک پرائیویٹ کلینک میں موجود تھا ۔ ابا جسمانی کمزوری سے اتنا لاغر ہو گیا تھا کہ اسے ویل چئیر پر بٹھا کر لانا پڑا ۔ ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور اپنے ہی کلینک میں چند ایک ایکسرے بھی کیے ۔ جن کی رپورٹ ہاتھ کے ہاتھ مل گئی ۔ ابا کی سانس بار بار کھانسی سے اکھڑ رہی تھی ۔ اور میں ابا کی کمر سہلاتا ڈاکٹر کی بات سن رہا تھا ۔ ڈاکٹر نے چند ایک سوال پوچھے جن کے جواب پا کر اس کے چہرے پر تشویش ظاہر ہوئی ۔ جو ہماری نظر سے چھپ نہ سکی ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا کمرہ ابا کی آواز سے گونجا ۔۔
” ہن دس دیو ڈاکٹر صیب ۔۔۔ میرے کول کنا وقت بچیا اے ۔۔ ” ڈاکٹر اور میں چونک کر ابا کو دیکھنے لگے۔
” ابا ! یہ کیسی بات کر رہے ہو ؟”
” پتر ٹر تے میں جانا اے ۔پر تیری خوشی لئی ایتھے تک آ گیا ۔ ” یہ کہتے ہی ابا کی سانس پھر اکھڑنے لگی۔
میں نے انہیں خاموش رہنے کو کہا ۔ اور ڈاکٹر کی طرف دیکھنے لگا۔
” آپ کے ابا کے پھیپھڑے مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں ۔ یہ یوں کہیں کہ ٹی بی کا بروقت علاج نہ ہونے کہ وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے ۔ اب کیونکہ یہ ایک عرصے سے حقہ پی رہے ہیں سو اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ ” ڈاکٹر کی بات سن کر میرا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا ۔
ٹی بی کے متعلق تو میں جانتا تھا ۔ ایک بار دوست کے ساتھ اس سلسلے میں بات ہوئی تھی ۔ پر میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ابا کو یہ مسئلہ ہو سکتا ہے ۔ پھر مجھے یاد آیا کہ اس نے بتایا تھا کہ اگر کھانسی دو ہفتے سے زیادہ ہو تو دیر کیے بنا ٹی بی کا ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔ ہماری حکومت بھی اس سلسلے میں کام کر رہی ہے ۔ اور ٹی بی کے مریضوں کا علاج اور دوا حکومت کی طرف سے مفت ہے ۔ مگر مجھے کیوں خیال نہ آیا ۔ میں دل ہی دل میں خود کو ملامت کرنے لگا ۔
” لیکن ڈاکٹر صاحب اس کا علاج ؟؟ ” ایک امید سے میں نے سوال کیا ۔
” اس کا علاج ممکن ہے لیکن اس وقت کہ جب آپ اس مرض کے بالکل شروع یا درمیان کی اسٹیج پر دواؤں کا استعمال شروع کریں ۔ ایک تو آپ کے ابا کی عمر کا تقاضہ ہے دوسرا ان کے پھیپھڑے صرف دو فیصد کام کر رہے ہیں ۔ اگر ہم دوا شروع کرتے ہیں تو شاید یہ اس کے اثرات برداشت نہ کر پائیں۔ ” ۔۔ ڈاکٹر کی اس بات سے مجھے اپنی کوتاہی کا شدید احساس ہوا ۔ ابا جو ہم دونوں کی باتیں آنکھیں بند کیے سن رہا تھا ۔ ایک دم بولا۔۔۔
” وے نذیر ۔۔ لے چل گھر ۔۔ صحن اچ پئی کھاٹ نوں میرا انتظار اے ۔۔۔ ” میری آنکھوں سے آنسو نکل کر قمیض کو تر کر رہے تھے ۔ میں نے ابا کو بانہوں میں بھر لیا ۔
ڈاکٹر نے کچھ دوائیں لکھ کر دیں ۔ اور ایک ہفتے بعد آنے کو کہا ۔ چند مزید ٹیسٹ کروانے کے لیے ابا کو اسپتال میں داخل کروانا تھا ۔ میں نے تفصیلات لیں اور واپس گاؤں روانہ ہو گیا ۔ سارا راستہ خاموشی سے گزرا ۔ اور ابا کا کھانستے ۔ اب تو کھانستے ہوئے اس کے منہ سے خون بھی آنے لگا تھا ۔ جسے میں ٹیشو سے بار بار صاف کرتا ۔ میرا دل کر رہا تھا کہ زور زور سے روؤں اور کوئی مجھے چپ نہ کروائے ۔ کاش میں ابا کی تکلیف خود پر لے سکتا ۔
گھر پہنچ کر میں نے ہاجرہ کو ساری بات بتائی ۔ ابا کو ان کے کمرے میں لٹا کر۔ بہنوں کو لینے چلا گیا۔ پھوپھی کے گھر بھی سندیسہ بھیج دیا ۔ لیکن وہ اپنی بیٹی کے گھر کراچی گئی ہوئی تھیں ۔ ایسے وقت میں مجھے ان سب کی ضرورت تھی ۔ بیشک میں ایک مرد ہوں مگر میرے اندر کہیں چھپا بچہ ابا کی اس بیماری کے خوف سے باہر آ گیا تھا ۔ جاتے جاتے ہاجرہ کو تاکید کی کہ ابا کے پاس سے ہلنا بھی نہیں کہ کہیں انہیں کسی چیز کی ضرورت ہی نہ ہو ۔ بہنوں کو ساری تفصیل بتائی تو وہ رونے لگیں ۔ اماں کے بعد ابا ہی ہمارے سب کچھ تھے ۔ میں جو ان کا سہارا چاہتا تھا ۔ مجھے ان کو تسلی کا کاندھا دینا پڑا ۔ وہ دونوں سارے رستے روتی رہیں۔ پر گھر پہنچتے ہی ایسے تھیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا ۔
ابا کے پاس ہم تینوں بہن بھائی یوں بیٹھے تھے کہ جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ ہو اور اس کے ارد گرد سب اس کی دل جوئی کو بیٹھے ہوں۔ ابا نے اس دن ہم سے خوب باتیں کیں ۔ کبھی اماں کو یاد کر کے رو دیتا ۔ کبھی خالہ رحمت کا شکریہ ادا کرتا ۔ اور کبھی ہاجرہ کا کہ وہ اس کی خدمت میں دن رات ایک کرتی۔ دوا دینے کے بعد کھانسی میں کچھ فرق پڑا تو ابا پرسکون ہو کر سو گیا ۔ ہم سب کتنی ہی دیر اس کے پاس بیٹھے رہے ۔ جب وہ گہری نیند میں چلا گیا تو ہم باہر آ گئے ۔ کمرے سے نکلتے ہی دونوں بہنیں میرے گلے لگ کر رونے لگیں۔ اور میں بھی چھوٹے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ وہ رات ہم نے جاگ کر گزاری ۔ ایک انجانا سا خوف ہم سب کے دلوں میں گھر کر گیا تھا ۔ بار بار ابا کے کمرے میں جا کر انہیں دیکھتے رہے ۔ وہ سو رہے تھے ۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ ایک خوراک کے بعد ہی انہیں کھانسی کا آرام تھا ۔
صبح فجر کی نماز کے بعد میں نے ہاجرہ کو کہا کہ ابا کا ناشتہ میں خود بناؤں گا ۔ ناشتہ تیار کر کے میں اور ہاجرہ ابا کے کمرے میں موجود تھے ۔ دونوں بہنیں رات بھر کی جاگی ہوئی تھیں ۔ سو انہیں سونے دیا ۔ ناشتہ میز پر رکھ کر ابا کو پیر سے آہستہ سے ہلایا ۔ شاید ابا بہت گہری نیند میں تھے۔ ہاجرہ نے کہا کہ انہیں سونے دیں ۔ مگر ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دوا وقت پر دینی تھی ۔ میں نے ابا کو آگے بڑھ کر کندھے سے ہلایا ۔ جس سے ان کا سر ایک طرف کو ڈھلک گیا۔ ہاجرہ کی چیخ سے کمرہ گونج اٹھا ۔ رات کے جانے کس پہر ابا ہمیں چھوڑ کر جا چکا تھا ۔
انہوں نے ٹھیک کہا تھا کہ “صحن میں پڑی کھاٹ کو ان کا انتظار ہے” ۔
اور آج اس کا یہ انتظار مکمل ہوگیا۔
( ختم شد )
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.