کتاب : مولاچھ
مصنف : ڈاکٹر صغیر
صنف : ناولٹ
زبان : پہاڑی ( پونچھی)
تبصرہ نگار : جاوید خان
شاید اطالویوں سے پہلے بھی کسی نے ناول نماچیز لکھی ہو۔مگر باقاعدہ اس صنف کی داغ بیل کاسرا انہی کے سر باندھ دیا گیاہے۔اظہار ذات کے سوطریقے ہیں۔ناول اُن میں سے ایک ہے۔ہاں ادیب کااظہار بیاں صرف اُس کی ذات کااظہار نہیں ہوتا بل کہ وہ اپنی تہذیب ،روایات اَور عہد کاترجمان ہوتاہے۔مولاچھ پہاڑی میں منبع کاتقریباًمترادف ہے۔پانی کابند جو اچانک پوٹھ پڑے یاپھر اس کے منبع سے ہلکی سی آب جُو،جو ہمہ وقت رواں رہتی ہو۔مولاچھ سے کسی بہاو کاپوٹھ پڑنا،پھر ہمیشہ کے لیے جاری ہونالازمی ہے۔ڈاکٹر صغیر خان کے اندر داخلی رساوپہلے منبع بنا ،سماج ،تہذیب ،اس کے حوادث یہ سب چھوٹی چھوٹی ندیاں مل کر منبع ہوئیں پھر پھوٹ پڑیں تو ناول بنا۔ایک سو چودہ صفحوں پر مشتمل یہ ناولٹ ایک نشست میں بہ آسانی پڑھا اَور پڑھایا جاسکتاہے۔پلاٹ کی بُنت عمدہ ہے۔مکالمے صاف اَور اپنی زمین سے جُڑے ہیں۔ناول پر مکمل مشرقی فضا چھائی ہوئی ہے۔لحاظ ،جذبات وزبان پر قابو،بڑوں کااحترام ،ماں باپ کا پیار اَور بہن بھائیوں کاایک دُوسرے سے لاڈ پیار مشرقی تہذیب کے یہ پاکیزہ رشتے مل کر ناولٹ کی کہانی تیار کرتے ہیں۔محبت مغرب کے ہاں ایک بازار کی شے بن کر رہ گئی ہے۔مشرق میں خاندان ایک اکائی ہے۔سو پریشانیوں اَور جبر کے باوجود ایک دوسرے سے تعاون ،بھائی چارہ اَور کٹ مرنے کاجذبہ اس تہذیب کاخاصا ہے۔مشرق محبت کی عظیم کہانیوں اَور کتھاؤں کی ضخیم کتاب ہے۔الف لیلی ٰ ،لیلی ٰ مجنوں،سسی پنوں ،ہیر رانجھا،یوسف زلیخا،سیف الملوک اَور شیریں فرہاد۔فارسی اَور اُردو مثنویوں کی ساری دیو مالائیں ۔مشرقی تہذیب ہیں۔جہاں حسن کے دیو مالائی جلوے بھی ہیں اَور چنوتیاں بھی۔ مگر اِن میں سُوقیانہ رنگ نہیں ہے۔ بل کہ پاکیزہ جذبوں سے سجی کتھائیں ہیں۔جنھوں نے زمانوں تک سینہ بہ سینہ محفلوں میں رنگ بھرے ۔پھرجاکرسپرد قلم ہوئیں۔دلاور (ناول کامرکزی کردار)پشاور یونی ورسٹی سے ماسٹر ہے۔اور بینک میں ملازم ہے۔خوش پوش ہے اَور اچھے چلن کامالک ہے۔صاحب مطالعہ ہے۔اس کی والدہ زندہ ہے۔ایک بہن (رابعہ )شادی شدہ زندگی گزار رہی ہے۔اپنے بچوں کے ساتھ اپنی دُنیامیں مگن ہے۔دلاور دوسرے ضلع میں ملازمت کرتاہے۔اُس کی اپنی گاڑی ہے۔بینک میں اُس کادوست اُسے دوسری برانچ میں ایک لڑکی طیبہ سے ملواتاہے۔طیبہ دلاور کے علاقے سے ہی ایک خوش الحال اور پڑھے لکھے خاندان کی بیٹی ہے۔اُس کالبادہ،انداز گفتگو،سلجھاہواہے۔وہ ایک متاثرکرنے والی مشرقی لڑکی ہے۔دلاور کی ماں عرصے سے اسے شادی کرنے کے لیے کہ رہی ہے۔دلاور کاذہن پہلے نیلو فر (ایک دوسری بینک ملازم لڑکی ) کی طرف جاتاہے۔پھر طیبہ کی طرف مائل ہوجاتاہے۔ناول میں جہاں کشمکش پیداہوتی نظر آتی ہے ۔وہ نیلو فر اَور طیبہ کے انتخاب کے موقع پر پیدا ہوتی ہے۔دلاور ان دولڑکیوں کے ہوتے ہوئے ذہنی کشمکش کاشکار ہوجاتاہے۔مگر کشمکش کایہ دورانیہ زیادہ دیر تک نہیں چلتا۔وہ ذہنی طور پر طیبہ کے سراپے کااسیر ہوتاجاتاہے۔یہاں تک کہ وہ اس کے ذہن پر مکمل چھا جاتی ہے۔اچانک ایک دن دلاور کو طیبہ کی زبانی ہی پتہ چلتاہے کہ اُس کی منگنی اپنے کزن ڈاکٹر مزمل سے ہونے جارہی ہے۔ مزمل یورپ میں ڈاکٹر ہے۔اس دھچکے سے سنبھلنے کے بعد دلاور طیبہ کو مبارک باددیتاہے۔مگر کافی عرصے بعد اُسے پتہ چلتاہے کہ منگنی ٹوٹ گئی ہے۔اَور دلاور نے وہاں ہی کسی اَور لڑکی سے شادی کرلی ہے۔طیبہ کی زبانی یہ سن کر دلاور اُسے حوصلہ دیتاہے۔اَور غم دور کرتاہے۔اکثر گھر آتے ہوئے وہ دونوں ایک ساتھ سفر کرتے ہیں۔طیبہ ذراحادثے سے سنبھلتی ہے تو ایک دن دلاور اپنے دل کی بات اس سے کہہ دیتاہے۔طیبہ حیران کُن طور پر جواب دیتی ہے۔کہ میں حیران ہوں کے آپ نے یہ بات مجھ سے اتنی دیر سے کیوں کہی ۔۔؟ پھر طیبہ کے کہنے پر وہ انتظار کرتاہے۔وقت کامولاچھ بہتاجاتاہے۔مگر طیبہ کاایک ہی جواب ہے ‘‘کہ ابھی ویلانہیں آیا۔’’انتظار کے کرب اَور محبت کے درمیان وہ کڑتا رہتاہے۔ماں اور بہن کااصرار ایک طرف ،دوسری طرف طیبہ کے جواب کہ ‘[ابھی ویلا نہیں آیا’وہ ذہنی کچھاو کاشکار ہوکر شدید بیمار رہنے لگتاہے۔دن بہ دن کمزوری کو دیکھ کر اس کی ماں اَور بہن پریشان ہو جاتی ہیں۔
ناول کااختتامیہ نفسیاتی پہلو کو اُجاگرکرتاہے۔طیبہ خود ایک نفسیاتی اُلجھن کاشکار ہے۔دلاور سے وہ اعتماد سے ہر بات کرلیتی ہے۔اُن کے درمیان احترام کارشتہ آخردم تک موجود رہتاہے۔وہ دونوں ‘آپ ’سے ‘تُم’ پر کبھی نہ آئے۔لیکن مزمل کی بے وفائی کے بعد وہ مردوں سے نفرت کرنے لگتی ہے۔یوں وہ دلاور کو انتظار میں رکھ کر ،اسے کُڑتے دیکھ کر اسے تسکین حاصل ہوتی ہے ۔کردار (طیبہ )کی اس نفسیاتی کفیت کاتجزیہ کسی ماہر نفسیات اَور اَدب کے نقاد پر چھوڑدیتے ہیں۔آخر میں ناول کانمایاں کردار دلاور،اکلوتی بہن اَور بوڑھی ماں کی التجا پر انھیں لڑکی تلاش کرنے کے لیے ہاں کہہ دیتاہے۔یہ بے وفائی ہرگز نہیں بل کہ مشرقی سماج کاتقریباً ہر رومانوی فردایسی ہی کیفیات سے دوچار ہو کر عملی زندگی کی طرف پلٹ آتاہے۔محبت کی کشمکش ،والدین کااصرار ،طیبہ کاطویل انتظار کروانا اَور اس کا واپس اصرار کرنے جرت بھی نہ کر سکنا ۔علاوہ ماں ،بہن اور عزیزدوستوں تک سے اپناراز چھپائے رکھنے سے دلاور کی ذات شکست وریخت کاشکار ہوجاتی ہے۔اس کے اندرکے کئی بند (مولاچھ)ٹوٹتے ہیں اَور بہنے لگتے ہیں۔پھر دوبارہ سے امید کے بند اسے سہارا دینے آتے ہیں۔یہ ٹوٹنا اَور بہنا جاری رہتاہے۔آخر مشرقی روایات کابنداُسے اپنے حصار میں جکڑ کر بے بس کرلیتاہے۔وہ نہ تو طیبہ کو بھگاکر لاسکتاہے نہ اکلوتی ماں کو تڑپتے دیکھ سکتاہے۔ماں اس گھر میں اس کاواحد اَور آخری سہارا ہے۔محبت ،صبر ،اُمید اَور ظرف کے یہ سارے مولاچھ (بند ،منبع) ٹوٹتے اَور بنتے رہتے ہیں۔شائد زندگی ٹوٹنے ،بکھرنے اَور بننے کاہی نام ہے۔ناول کے بعض پیرے اَور فقرے اَپنے اَندر کڑی ناقد نظریں اَور مقصدیت رکھتے ہیں۔مثلاًرابعہ کے بچے کارٹون ‘‘بیم ’’ اَور ‘‘موٹوپتلو’’دیکھنے کے شوقین ہیں۔دلاور انھیں ڈراما دیکھتے ہوئے سوچتاہے ۔اُنھوں (بھارتیوں ) نے اپنی تاریخ ،تہذیب اَور دھرم فلموں اَور ڈراموں کے ذریعے بیان کیا مگر ہم صرف بڑھکیں اَور گپیں ہانک رہے ہیں۔جب کہ ہماری نسل موٹو پتلو اَور بیم دیکھنے پر لگی ہوئی ہے۔’’ صفحہ (۳۹)
ترقی پذیر ممالک میں احتجاج ،ہڑتالیں ،جلاو گھیراو معمول کی بات ہے۔ناول ترقی پذیر سماج سے ہی اٹھاہے۔لہٰذا اس سماج کی یہ جھلک اَور روزمرہ کی زندگی پوری طرح جلو ہ گر ہے۔کچھ فقرے اقوال زریں میں آتے ہیں۔‘‘ گھر جیتے جی لوگوں سے ہوتے ہیں۔کنکریٹ کاگارا بھی کبھی گھر ہواہے۔؟’’(صفحہ ۵۸)آخری پیروں میں مصنف کہتاہے کہ وقت بھی ایک مولاچھ ہے اَور زندگی بھی مولاچھ ہے۔وقت کامنبع بھی ختم ہو تاجارہا ہے اَور زندگی کامنبع بھی اس کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ہر دو تیزی سے خرچ ہورہے ہیں۔مگر زندگی جو حوادث کامجموعہ ہے۔کبھی کبھی یوں لگتاہے کہ آپ ان سب خزانوں کو کسی تنظیم کے تحت یاسلیقے سے خرچ کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ایسا بہت کچھ اور ہے اس جیون میں جو آپ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ۔ناول کاتھیم یہ ہے کہ زندگی کاکچھ حصہ جبریت کی زد میں ہے اَور کچھ حصہ قدریت کی۔جیون سارے حوادث دُکھ ،سکھ ،ملن وصال ،محبت،نفرت ،جدائی ،موت ،مسرت کے ساتھ ساتھ رواں ہے اور لمحہ بہ لمحہ انجام کی طرف بڑھ رہاہے۔
مولاچھ ڈاکٹر صغیر صاحب کاپہلاپہاڑی ناولٹ ہے۔پہاڑی ادب میں اُن کی خدمات اب سند ہیں ۔مگر اُردو میں بھی ایک خوبصورت سفرنامے کے علاوہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘پرکھ ’تحقیقی اَور تنقیدی مضامین کاخوب صورت مجموعہ ہے۔جب اُردو کے وسیع دامن میں ناول جیسی صنف چیندہ ناموں کے علاوہ مزید کسی شاہکار کے لیے ترس رہی ہے ۔تو اس کال پڑے ماحول میں پہاڑی زبان و ادب کی خوش قسمتی کہ اسے ‘مولاچھ ’ جیسی خوبصورت کہانی ملی ہے۔ڈاکٹر صغیر ایک خاموش اَور ڈونگے (گہرے )آدمی ہیں۔نمود و نمائش سے دُور رہنے والے ڈاکٹر صغیر خان کو اس کابخار کبھی نہ ہوا کہ اُن کے لکھے کو پڑھا جارہا ہے یا نہیں ۔۔۔؟ آپ اُن سے اُن کے کام کی تعریف کرنا بھی چاہیں تو وہ مسکرا کر شکریہ ادا کریں گے۔آپ مزید بات کرنا چاہیں تو مزید مسکرا کر موضوع بدل دینے کی خوب صورت ادا پر قادرہیں۔نہ جانے کیوں ایک درجن سے بھی زیادہ کتابوں کو لکھنے کے باوجود انھیں ایک لمحے کے لیے بھی ہوش نہ آیا کہ وہ ‘‘ادیب بن چکے ہیں۔’ وہ آج بھی بہت سوں کے ماموں ہیں ۔اَور او جی ۔! صغیر صاو ہیں۔مٹی کی چاہ ان کے حُلیے میں ہے،لہجے میں ہے اَور لفظوں میں ہے۔اپنی مٹی پہ کھڑ ا شجر ہی برگ و بہار کرتاہے۔آہستہ آہستہ چھتناور ہوتاہے اَور پھر زمانوں تک نظروں کو تازگی ،دھوپ میں سایہ اَور گرم دنوں میں ٹھنڈی میٹھی ہوادیتاہے۔ڈاکٹر صغیر خان اپنی زمین پہ کھڑا وہی شجر ہیں۔مولاچھ پہاڑی ادب میں ،ناول کی صنف میں پہلی اینٹ ہے ۔جو آگے چل کر ادب کی پوری عمارت کھڑی کرے گی۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.