: ماوراء زیب

دھپ کی آواز کے ساتھ ایک کتاب نیچے گری اور گردوغبار کا ہلکا سا دھواں ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ باقی کتابوں نے بےساختہ اپنے اپنے سر نکال کر نیچے گری کتاب کو دیکھا۔

”بھائی ٹھیک تو ہو ناں۔۔۔؟“ ایک کتاب کی تشویش زدہ آواز گونجی۔

”ہاں بھائی ٹھیک ہوں۔ کافی عرصہ ہوگیا تھا سوئے ہوئے اس لیے جگہ کااندازہ نہیں ہوا۔ کچھ زیادہ ہی کھل کر انگڑائی لے لی تھی۔“ گری ہوئی کتاب نے زوردار جمائی لی اور اچک کر اپنی جگہ سنبھال لی۔

”اب گر ہی گئے تھے تو گھوم پھر لیتے۔ ہم تو عرصہ ہوا اپنی جگہ پھنسے ہوئے کسی کی نظرِ کرم کے منتظر ہیں۔“ نجانے کہاں سے ایک افسردہ آواز آئی۔

ُ”اجی! فکر نہ کیجیے۔ کتاب دوست ابھی بھی موجود ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی تعداد کافی کم ہوگئی ہے مگر کبھی نہ کبھی آپ بھی اپنی جگہ سے نکل ہی آئیں گے۔“ ایک تسلی زدہ آواز ابھری۔

ایک دوسرے کے غم سنتے اور تسلی دلاسے دیتے نجانے رات کا سفر کب اختتام پذیر ہوا۔روشن دان سے جھانکتی سورج کی روپہلی کرنوں نے کمرے میں خاموشی کی چادر اوڑھا دی۔ کتب خانے کے نگران نے کمرے کا تالا کھولا اور کتابوں پر ایک تسلی آمیز نگاہ ڈال کر چلا گیا۔ بےتاب عاشقوں کی طرح کتابوں کی منتظر نگاہیں معشوق کے انتظار میں دروازے پر جم کر رہ گئیں۔

نجانے کیا وقت ہوچلا تھا جب دو جوان لڑکوں نے کتب خانے میں قدم رکھے۔ دونوں کی گفتگو سے اندازہ ہورہا تھا کہ کسی مقالے پر کام شروع کرنا ہے اور اس کے لیے کسی خاص کتاب کی ضرورت تھی جو انہیں باوجود کوشش کے کہیں سے بھی نہیں مل رہی تھی۔ وہ دونوں تندہی سے کتاب کی تلاش میں جت گئے۔ ایک لڑکے کی پرمسرت آواز نے دوسرے کو چونکا دیا۔ نجانے کب سے بڑی بڑی کتابوں کے درمیان وہ چھوٹی سی کتاب سیپی میں بند موتی کی مانند اپنی چمک چھپائے پھنسی ہوئی تھی۔ گوہرِ مقصود ہاتھ آتے ہی ان لڑکوں نے باہر کی راہ لی۔ کمرے میں سناٹا ہوتے ہی تمام کتابوں نے گہری سانس خارج کی۔

”آخرکار کتاب دوست مل ہی گئے۔ اب اسے بھی باہر کی ہوا نصیب ہوہی جائے گی۔ بےچاری کب سے پھنسی کسی طالب کی منتظر تھی۔“کمرے میں آواز گونجی اور پھر سے سب کی نگاہیں معشوق کے انتظار میں دروازے پر جم گئیں۔

===========

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact